میں اور میرے سر

میں اور میرے سر۔۔۔ اکثریہ باتیں کرتے ہیں، ہم ہوتے توایسا ہوتا، ہم ہوتے تو ویسا ہوتا، ہم چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتے، ہم بات بات پر قہقہے لگاتے، ہم جو کہتے وہ ہوجاتا، ہم کسی بات پر خوش ہوتے، ہم کسی بات پر حیراں ہوتے، میں اور میرے سر۔۔۔ اکثر یہ باتیں کرتے ہیں !

میرے سر بہت مرنجاں مرنج انسان ہیں، آپ میں سے جن لوگوں کو اِس لفظ کا مطلب نہیں آتا وہ پریشان نہ ہوں، میں بھی ایک مدت تک اِس کا مطلب نہیں جانتا تھا، میرا خیال تھا کہ شاید یہ مرنڈا کی بوتل کا اردو ترجمہ ہے۔ وہ تو جب میری سر سے ملاقات ہوئی تو اِس لفظ کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ وہ پہلی ملاقات بھی یادگار تھی، مجھے یوں لگا تھا جیسے مجھے میرا دلدار مل گیا ہو، میرا رانجھن مل گیا ہو، میرا سوہنا مل گیا ہو۔ براہ مہربانی، آپ لوگ غلط مت سمجھیئے گا، میرا ایل جی بی ٹی سے کوئی لینا دینا نہیں، میں نے یہ الفاظ محض سر سے اپنی عقیدت کا اظہار کرنے کے لیے استعمال کیے ہیں۔ اُس ملاقات میں سر مجھے سر تا پا جینٹل مین لگے اور یہ تاثر آج بھی قائم ہے، اُس زمانے میں سر کی شخصیت کا جادو سر چڑھ کر بول رہا تھا، بد قسمتی سے اب ایسا نہیں ہے جس کی وجہ میں آگے بیان کروں گا۔

سر جس محفل میں بھی ہوتے چھا جاتے، اُن سے ملاقات کرنے والے محض السلام علیکم ہی کہہ پاتے، اُس کے بعد جو کہتے سر ہی کہتے، حاضرینِ محفل سر جھکائے سر کی باتیں سنتے رہتے۔ سر کی باتیں ایسی مسحور کُن ہوتیں کہ حاضرین کو وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوتا، بعض اوقات تو کئی کئی گھنٹے گزر جاتے اور سر دانش کے موتی بکھیرتے رہتے، ایک آدھ مرتبہ کسی نے ہمت کرکے اپنے موتی بکھیرنے کی کوشش کی مگر سر کے آگے اُس کی دال نہیں گلی۔ اصل میں سر کی شخصیت ہی ایسی رعب دار تھی کہ اُن کے آگے بولنا کسی عام بندے کے بس کی بات نہیں تھی۔ ویسےبھی اگر ہم بولتے تو کوئی شکوہ ہی زبان پر لاتے جو کہ ہمارا قومی وتیرا ہے جبکہ محبوب سے شکوہ و شکایت نہیں کی جاتی کہ یہ بھی بے ادبی کے زمرے میں آتا ہے، کم ازکم غالب نے تو ہمیں یہی بتایا ہے : ’ تمنائے زباں محو سپاس بے زبانی ہے، مٹا جس سے تقاضا شکوۂ بے دست و پائی کا۔‘

میں نے ایک دفعہ سر کا موڈ دیکھ کر بے تکلفی سے یہ شعر پڑھ دیا اور احتیاطاً اِس کی تشریح بھی کردی کہ کہیں سر غلط مطلب نہ سمجھ لیں، شعر سُن کر انہوں نے لمبی سی ہوں کی اور پھر ایسی دانشمندانہ بات کہی کہ مجھ پر گھڑوں پانی پڑ گیا۔ فرمایا ’برخودار، ایک بات یاد رکھنا، محفل میں ہمیشہ غالب کے آسان، عام فہم اور سادہ شعر سناتے ہیں جیسے کہ لب پہ آتی ہے دعا بن کے تمنا میری، اب دیکھو لفظ تمنا اِس شعر میں بھی ہے اورکیسا نگینے کی طرح فِٹ بیٹھا ہے !‘اِس کے بعد سر نےتقریباً ڈیڑھ گھنٹے تک اِس مصرع کی شرح کی اور ایسی ایسی جہتیں بیان کیں جو اِس سے پہلے کسی نے سوچی ہی نہیں تھیں۔ سر بولتے گئے اور میں سنتا گیا، ساتھ ساتھ میری آنکھوں سے آنسورواں ہوگئے، سر نے آنسو پونچھنے کے لیے مجھے ٹشو پیپر دیا جو آج بھی بطور یادگار میرے پاس محفوظ ہے۔ میں نے سر کو کہا کہ اگر آپ صرف اردو شاعری کا میدان ہی منتخب کرلیں تو اچھے اچھوں کے چھکے چھڑا دیں گے، میری بات سُن کر وہ کچھ رنجیدہ ہوگئے اور بولے کہ اب میں کون کون سے کام اپنے ذمے لوں۔ سر کی یہ بات سو فیصد درست تھی، دنیا کا کوئی شعبہ ایسا نہیں تھا جس کے سر ماہر نہیں تھے، معیشت، تاریخ، فلسفہ، قانون، سفارتکاری، زراعت، انجینئرنگ، طب، رئیل اسٹیٹ، غرض جس شعبے میں بھی سر نے ہاتھ ڈالا کامیابی کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ آج کل کچھ حاسدین سر کے لگائے ہوئے جھنڈے اکھاڑ کر پھینک رہے ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ چاند پہ تھوکا منہ پہ آتا ہے۔

میں سر کی خوبیاں گنوانے لگوں تو کئی صفحات کالے کرنے پڑیں گے، مقرر ایسے تھےکہ گھنٹوں تقریر کرسکتےتھے اور وہ بھی کوئی کاغذ پرچہ سامنے رکھے بغیر۔ ایک مرتبہ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ ایسی بے احتیاطی نہ کیا کریں، آپ کی محفل میں ہر طرح کے لوگ ہوتے ہیں، سو سجن سو دشمن، لوگ آپ سے وہ باتیں بھی منسوب کردیتے ہیں جو آپ نے کہی نہیں ہوتیں۔ انہوں نے میری بات سے اتفاق تو کیا مگر اِس مشورے پر عمل نہ کیا۔

ایک دن بڑی موج میں تھے، فرمانے لگے، ایک بات کہوں۔ فدوی نے عرض کیا، فرمائیے۔ بولے جھوٹ تو نہ سمجھو گے ؟ میں نے کہا اِس خادم کی کیا مجال تو فرمایا کہ پھر دھیان سے سنو، میری نظر میں تم آج کل کے تمام دانشوروں میں سب سے بہتر لکھتے ہو۔ میں نے آبدیدہ ہوکر اُن کا ہاتھ اور پھر اُن کا منہ چومنا چاہا مگر انہوں نے ’بدعت‘ کہہ کر منع فرمادیا۔ پھر کہنےلگے کہ میں سوچ رہا ہوں کہ تمہیں گورنمنٹ سیکنڈری اسکول چیچہ وطنی کا ہیڈ ماسٹر لگوا دوں تاکہ تمہاری یہ دانش نوجوان نسل تک منتقل ہوسکے۔ قارئین اسی بات سے اندازہ کرسکتے ہیں کہ سر کس قدر دور اندیش تھے اور سماجی اور علمی معاملات پر کیسی گہری نظر رکھتے تھے۔ اسی موقع پر میں نے سر سے پوچھا کہ آپ کے بظاہر ایسا کوئی اختیار تو نہیں ہے لیکن یہ کیسے ممکن ہوتا ہے کہ آپ کوئی بات کہیں اور اُس کی تعمیل نہ ہو۔ ساتھ ہی میں نے وضاحت بھی کردی کہ مقصد اعتراض نہیں، دریافت معلومات ہے۔ سر نے میرے سوال کا بالکل برا نہیں منایا، کہنے لگے، کیا کسی خواہش کی تکمیل کے لیے انتظامی اختیارات ضروری ہوتےہیں ؟ اب جو فدوی نے اِس سوال نما جواب کی بلاغت پر غور کیا تو اپنی کم فہمی پر بے حد شرمندہ ہوا۔

اللہ اللہ وہ بھی کیا دن تھے جب سر کے ایک اشارےپر زمین کی گردش تھم جاتی تھی، انہیں یقین تھا کہ یہ کرامت صرف انہی کے پاس ہے اور ہمیشہ انہی کے پاس رہے گی مگر افسوس کہ یہ دنیا بڑی ظالم ہے، جس پیرِ طریقت کی طرف سے انہیں یہ کرامت ودیعت ہوئی تھی اُس پیر نے اپنا قبلہ تبدیل کرلیا، بس وہ دن ہےاور آج کا دن، سر کے ڈیرے سے رونق ختم ہوگئی، وہ لوگ جو گھنٹوں رکوع کی حالت میں سر کی تقریر سنتے تھے اب اُن کے پاس سر کے آستانے پرحاضری دینے کے لیے وقت نہیں ہے۔ بے شک یہ موقع پرست لوگ تھے، میں دبے الفاظ میں سر کو اِن لوگوں کی خصلت کے بارے میں بتایا کرتا تھا مگر سر میں چونکہ درویشی کی صفت بھی پائی جاتی ہے سو انہوں نے کبھی اِن باتوں کی پروا نہیں کی۔

اب کبھی کبھی سراُن لمحات کو یاد کرتے وقت اداس ہوجاتے ہیں۔ یہ وہی لمحات ہوتے ہیں جب میں اور میرے سر۔ ۔ ۔ اکثریہ باتیں کرتے ہیں، ہم ہوتے توایسا ہوتا، ہم ہوتے تو ویسا ہوتا، ہم چائے میں بسکٹ ڈبو کر کھاتے، ہم بات بات پر قہقہے لگاتے، ہم جو کہتے وہ ہوجاتا، ہم کسی بات پر خوش ہوتے، ہم کسی بات پر حیراں ہوتے، میں اور میرے سر۔ ۔ ۔ اکثر یہ باتیں کرتے ہیں !

کالم کی دُم: یہ کالم ابن انشا کے مشہور زمانہ مضمون ’استاد مرحوم‘ کی پیروی میں لکھا گیا ہے، مجھے اندازہ ہے کہ ابن انشا کی روح یہ پڑھ کر تڑپ اٹھے گی، اِس کے باوجودیہ وضاحت ضروری ہے کہ کہانی اور کرداروں میں کسی بھی قسم کی مماثلت محض اتفاقیہ ہوگی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں