ایک بار کسی نے سابق وزیر خارجہ صاحبزادہ یعقوب خان سے پوچھا، آپ یادداشتیں کیوں نہیں لکھتے؟ آپ کے پاس لکھنے کو تو بہت مواد ہے، انہوں نے جواب دیا ’’اس کے لئے سچ بولنا پڑے گا، ایک نے بولا تو اسے زہر کا پیالہ پینا پڑا‘‘۔
ISI کےسابق سربراہ جنرل حمید گل نے ایک انٹرویو میں اس بات کا اعتراف کیا تھا کہ فوج کی سیاست میں مداخلت کی ابتدا جنرل ایوب خان کے دور سے شروع ہوئی۔ ’’ہماری بنیادی غلطی ایوب خان کو مرکزی کابینہ میں بحیثیت آرمی چیف وزیر دفاع بنانا تھا اور کچھ ہی عرصہ بعد انہوں نے ملک میں مارشل لا لگا دیا اور اس کے بعد مداخلتوں کا سلسلہ جاری رہا‘‘۔ جنرل حمید گل نے اس بات کا کئی بار اعتراف کیا کہ محترمہ بے نظیر بھٹو کی غیر معمولی مقبولیت کو روکنے کیلئے انہوں نے 1988 کے الیکشن کے وقت ان کے مخالفین کو اکٹھا کرکے اسلامی جمہوری اتحاد بنوایا۔ یہ مداخلت پھر کبھی ختم نہ ہوئی۔ حکومتیں بنانے اور گرانے کا عمل جاری رہا جس کی بڑی واضح مثال 1990کا اصغر خان کیس ہے۔
ایسا نہیں کہ سیاست دانوں سے غلطیاں نہیں ہوئیں، شاید ایک بڑی غلطی 1974میں سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کی ISI میں سیاسی سیل بنانا تھی اور دوسری جنرل ضیاالحق کو سات جرنیلوں پر ترجیح دے کر آرمی چیف بنانا۔ ایسی غلطیاں بعد میں میاں نواز شریف اور خود عمران خان سے بھی جنرل قمر جاوید باجوہ کو پہلے آرمی چیف بنانے اور پھر توسیع دینے کے معاملے میں ہوئیں۔ اصغر خان کیس میں کئی سال بعد سپریم کورٹ میںیہ جواب تو جمع کرایا گیا کہ اب سیاسی سیل بند کر دیا گیا ہے مگر بعد کے واقعات کچھ اور بتاتے ہیں، اگر سیل نام کا کوئی ادارہ بند بھی کر دیا گیا تھا تو کم از کم مداخلت بند نہ ہوئی، سیاسی جماعتیں بنانے اور توڑنے کا عمل جاری رہا۔
اس وقت ملک کے دو سابق وزرائے اعظم نواز شریف اور عمران خان کی بنیادی تنقید کا ہدف سابق آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ ہیں گو کہ وہ انہی دونوں کے طفیل نہ صرف اس عہدے پر فائز رہے بلکہ تین سال کی توسیع بھی لی۔ اب پتا نہیں مولا علیؓ کا قول یہاں صادق آتا ہے کہ نہیں ’’جس پر احسان کرو اس کے شر سے بچو‘‘۔ ابھی ہم نے صرف دو فریقوں کو سنا ہے اور انتظار ہے کہ جنرل باجوہ کب اپنی زبان کھولیں گے اور ان تینوں میں کون سچ بول رہاہے اورکون حقائق کو مسخ کررہا ہے، اس کے لئے تھوڑا انتظار کرنا پڑے گا۔ تاریخ بہت بےرحم ہوتی ہے، آپ جتنا بھی سچ کو دبانا چاہیں وقت آنے پر حقائق سامنے آ ہی جاتے ہیں۔
2013 سے2022 تک اور دو عام انتخابات کے دوران جو واقعات سامنے آئے، ان میں مداخلت تو بہرحال نظر آتی ہے ورنہ تو 2008 کے بعد جس جمہوری سفر کا آغاز ہوا تھا اس کے نتیجے میں ہماری تاریخ میں پہلی بار کسی حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی اور الیکشن کے بعد پرامن انداز میں اقتدار کی منتقلی ہوئی اور پہلی بار صدر پاکستان نے بھی اپنے پانچ سال مکمل ہونے پر یہ عہدہ آنے والے منتخب صدر کے حوالے کیا مگر بدقسمتی سے اس سارے عمل کیلئے جو ’’میثاق جمہوریت‘‘ کا حصہ تھا، ایک بہت بڑی قربانی دینا پڑی، سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی شہادت کی صورت میں۔ انہی برسوں میں عمران خان ایک بڑے اپوزیشن لیڈر کے طور پر سامنے آئے اور 30 اکتوبر 2011 کو مینار پاکستان پر ایک تاریخی جلسہ کرکے دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی پی پی کے مقابلے میں تیسری سیاسی قوت بن کر ابھرے۔ انہیں 2013کے الیکشن میں خیبر پختونخوا میں بڑی کامیابی ملی۔ تاہم پنجاب اور دیگر صوبوں میں بہرحال اتنی نشستیں انہیں نہ مل سکیں کہ وہ مرکز میں حکومت بنا پاتے۔ عمران خان نے پنجاب کے چار حلقوں میں دھاندلی کا الزام لگایا اور انہیں کھولنے کا مطالبہ کیا۔ نوازشریف اگر یہ مطالبہ مان کر اور ایک قدم آگے جا کر ان حلقوں میں دوبارہ الیکشن کی پیشکش کرتے تو جمہوری کلچر کو فائدہ ہوتا۔ اس کے بعد ہونے والے واقعات نے بہت سے سوالات اور پس پردہ کرداروں کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا کئے جن میں خاص طور پر جنرل شجاع پاشا کا نام آتا ہے۔ اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف سے جب عمران خان نے ملاقات کی اور نوازشریف کو ہٹانے اور نئے انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا اور انہوں نے معذرت کرلی تو عمران خان اس پر خاصے مایوس ہوئے۔ پھر ایک بار ان کی امیدیں بندھیں جب جنرل راحیل شریف اور نواز شریف کی ایک طویل ملاقات وزیراعظم ہاؤس میں ہوئی۔ عمران اس وقت اپنے کنٹینر پر ٹہل رہے تھے کہ حکومت اب گئی کہ جب گئی۔ اس کا احوال بتاتے ہوئے اس کے چند دن بعد سابق وزیر داخلہ چوہدی نثار علی خان نے مجھے بتایا کہ ملاقات میں وزیراعظم نواز شریف نےبہت سے حاضر سروس افسروں کی اپنی فیملیوں کےساتھ دھرنے میں شرکت پر سوالات اٹھا دیے تھے۔
آج نوازشریف جنرل قمرجاوید باجوہ، جنرل فیض اور سابق چیف جسٹس ثاقب نثار پر سوالات اٹھا رہے ہیں، خاص طور پر پانامہ کے بعد ان کی حکومت کے خاتمے اور 2018کے الیکشن کے حوالے سے وہ ایک اور سابق چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر بھی تنقید کر رہے ہیں۔
دوسری طرف عمران خان بھی جنرل باجوہ اور اسٹیبلشمنٹ کو اپنے خلاف عدم اعتماد کی تحریک کی کامیابی کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں مگر وہ اسٹیبلشمنٹ کے سیاسی کردار کو مکمل طور پر ختم کرنے کے حق میں نہیں بلکہ وہ تو ISI کے کردار کو بھی احتساب کے حوالے سے برقرار ر کھنا چاہتے ہیں۔ یہی بنیادی تضاد ہے کیونکہ ایک طرف یہ کہا جاتا ہے کہ جنرل باجوہ نے نیب کو اپنے کنٹرول میں رکھا اور نواز شریف کو نااہل کروانے میں بھی ان کا کردار ہے تو دوسری طرف وہ یہ بھی چاہتے ہیں کہ ISI کا سیاسی کردار برقرار رہے۔
میاں صاحب نے سب سے زیادہ آرمی چیفس کا تقرر کیا، بعد میں ایک سے استعفیٰ لیا اور ایک کو برطرف کیا جس پر جوابی کارروائی میں وہ خود برطرف کر دیئے گئے۔ جنرل باجوہ کو بھی وہی لائے البتہ توسیع میں ماشاء اللہ دونوں سابق وزرائے اعظم کا ہاتھ ہے، میاں صاحب کی نااہلی اور سزا کی بات تو سامنے آ گئی، عمران کی بے دخلی کی اصل وجہ سامنے آنا ابھی باقی ہے۔ شاید جنرل باجوہ، فیض حمید، جنرل پاشا اور جنرل محمود اگر آج اپنی زبان کھولیں تو 1999سے 2022تک کی اصل کہانی سامنے آجائے۔ سچ تو بہرحال سامنے آہی جائے گا اور وہ بھی زہر کا پیالہ پیے بغیر۔ یہ ہے پاکستان۔