بطور کرنسی استعمال ہونے والی چیزیں

صدیوں سے غیر روایتی چیزیں بھی کرنسی یعنی سکے کے طور پر استعمال ہوتی رہی ہیں۔ چند چیزیں تو ایسی تھیں جو عارضی تھیں لیکن کچھ ایسی ہیں جو آج بھی استعمال ہوتی ہیں۔ آیئے آپ کو چائے کی پتی سے لے کر بڑے پتھر تک، دنیا کی چند ایسی عجیب چیزوں کے بارے میں بتاتے ہیں جو بطور ” سکہ‘‘ استعمال ہوتی رہی ہیں یا اب بھی ہو رہی ہیں۔
رائے پتھر
یہ جزیرہ یاب، مائیکرو نیشیا میں استعمال ہوتے ہیں اور500ء سے اب تک استعما ل ہو رہے ہیں۔اس میں ہر پتھر کی اپنی قدر ہوتی ہے۔یہ بڑی اور گول ڈسکیں چونے کے پتھر سے بنتی ہیں اور بحرالکاہل میں واقع مائیکرو نیشیا کے جزیرے ”یاپ‘‘ پر بطور سکہ استعمال ہوتی ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حجم کی بجائے ان کی تاریخ قدر کا تعین کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ان پتھروں کو لانے میں جتنے لوگ مرے ہیں، اس سے ان کی قدر میں اتنا اضافہ ہوگا۔
چائے کی ٹکیا
یہ چین، منگولیا، تبت اور وسط ایشیاء میں 19ویں صدی سے 1935ء تک استعمال ہوتی تھی۔اس کی قدر و اہمیت پتوں کے معیار اور مارکیٹ سے فاصلہ اور رسائی پر منحصرتھی۔”چائے کی ٹکیا‘‘ دراصل چائے کے پتے ہوتے تھے، جنہیں دبا کر ٹکیا بنا لی جاتی تھی۔ انہیں دوسری جنگ عظیم کے آغاز تک کرنسی کے طور پر استعمال کیا جاتا تھا جب ایشیاء کے کئی علاقوں میں چائے کی قیمتیں عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ سائبریا اور تبت جیسے علاقوں میں تو چائے کی ٹکیاں روایتی سکوں سے زیادہ بخوشی وصول کی جاتی تھیں۔
کینیڈین ٹائرمنی
یہ کینیڈا میں1958ء سے تا حال استعمال ہوتی ہے۔اس کی قدر و اہمیت5 سینٹس، 10 سینٹس، 50 سینٹس، 1 ڈالر اور 2ڈالرز کے برابر ہے۔ کینیڈین ٹائر کی جانب سے 1958ء میں بنایا گیا یہ پیسہ دراصل صارف کو فائدہ دینے کا ایک طریقہ تھا۔ایک ٹائر اور ڈالر کے نشان والے ان کوپنز کی مقبولیت اتنی بڑھی کہ دیگر لوگ بھی اسے بطور پیسہ وصول کرنے لگے۔
پر میگیانوریگیانوپنیر
یہ امیلیارومانا، شمالی اٹلی میں1953ء سے آج تک زیر استعمال ہے۔اس کی قدر 300 یورو فی چکرا ہے۔اٹلی کا بینک کریڈ ٹو امیلیانو قرض دینے کیلئے ” میگا نوریگیانو پنیر‘‘ قبول کرتا ہے۔ بینک 34ماہ تک کیلئے قرضہ دیتا ہے جو پنیر کی عمر پوری ہونے کا اوسط وقت ہے۔بینک کے گوداموں میں 17ہزار ٹن تک پنیر موجود ہے جس کی قدر 187.5ملین ڈالر ہے۔ پنیر کا ہر چکرا ایک سیریل نمبر رکھتا ہے۔
بوتل کے ڈھکن
یہ کیمرون میں 2005ء میںاستعمال ہوا۔ اس کی قدر انعام کی مالیت پر منحصر ہوتی تھی۔2005ء میں کیمرون کے ایک مشروب ساز ادارے نے ایک مقابلہ شروع کیا، جہاں خریدار بوتل کی ڈھکن کے اندر چھپے انعام جیت سکتے تھے۔ دیگر اداروں نے بھی مقابلے شروع کر دیئے اور قریباً ہر ڈھکن میں انعام ملنے لگا۔ انعامات کی بھرمار کے بعد یہ حال ہو گیا کہ لوگ ان ڈھکنوں کو سکے کے طور پر استعمال کرنے لگے۔ ٹیکسی کے کرائے کیلئے اس کا استعمال عام ہو گیا۔
کوڑیاں
جزائر سولومن میںماہرین آثار قدیمہ کے مطابق 1200قبل مسیح سے آج تک کوڑیوں کا استعمال سکے کے طور پر ہو رہا ہے۔اس کی ایک لڑی کی قیمت 1ہزار سولومن ڈالرز تک ہے۔جزائر سولومن میں کوڑیاں زیورات بنانے میں استعمال ہوتی ہیں، جن کی تجارت بھی ہوتی ہے۔ جب یہ کمیاب ہو جائیں تو ان کی قدر مزیں بڑھ جاتی ہے۔
شائر سلور
یہ نیوہمپشائر، امریکا میں 2007ء سے آج تک زیر استعمال ہے۔ اس کی قدر و قیمت میں سونے اور چاندی کی قیمتوں کے حساب سے اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ ”شائر سلور‘‘ سونے اور چاندی کی معمولی مقدار سے بنا ہوتا ہے اور یہ کریڈٹ کارڈ کے حجم کا ہوتا ہے۔ اسے نیو ہمپشائر میں مقامی کرنسی کے طور پر شروع کیا گیا۔ البتہ اس کے بنانے والے دعویٰ کرتے ہیں کہ انہیں دنیا بھرسے اس کے آرڈر ملے ہیں۔
موبائل فون منٹ
یہ مختلف ممالک ، بشمول کینیا، نائیجیریا، مصر، زمبابوے اور رومانیا میں2011ء سے آج تک استعمال ہوتے ہیں۔اس کی قدر منتقل کئے گئے ایئر ٹائم اور خریدی گئی چیزوں کی مالیت کے برابر ہوتی ہے۔دنیا کے متعدد ممالک میں لوگ اپنے موبائل کا ایئر ٹائم یعنی منٹس نقد یا چیزوں و خدمات کے بدلے میں دیتے ہیں۔ بسا اوقات، پری پیڈ منٹ چھوٹے موٹے لین دین کیلئے بھی استعمال کئے جاتے ہیں۔
نوٹ گیلڈ
یہ جرمنی ، آئر لینڈ، سوئیڈن، بلجیم اور فرانس میں1914ء سے 1923ء تک استعمال ہوتے تھے ۔ان کی قدرکرنسی نوٹوں کی طرح ہوتی تھی۔جرمن زبان میں ”نوٹ گیلڈ‘‘ کا مطلب ہے ”ہنگامی پیسہ‘‘۔ یہ پہلی جنگ عظیم کے آغاز کے بعد جب دھاتوں کی کمی ہو گئی تھی تو ان کی جگہ پیش کیا گیا۔ ان کا استعمال 1923ء تک جاری رہا جبکہ آخری دو سال جرمنی میں ان کا استعمال اپنے عروج پر تھا۔
100کوئنٹلن پینگو
یہ ہنگری میں 1946ء استعمال ہوئی۔ اس کی قدر 0.20 ڈالر کے برابر تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے بعد ہنگری میں اس کی قیمت ہر 15گھنٹے میں قریباً دگنی ہونا شروع ہو گئی، جو ملک کو تاریخ کی سب سے بڑی افراط ز کا سامنا تھا۔ 100 کوئنٹلن پینگو ملک میں سب سے بڑی کرنسی بن گئی جس کی قیمت 0.20 ڈالرز تھی۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں