اہداف کا تعین ، کامیاب طرز زندگی

اس کرہ ارض پر بنی آدم کی اولاد میں کوئی بھی فرد اپنی زندگی میں نا کام نہیں ہونا چاہتا بلکہ ہر کوئی ایک دوسرے سے زیادہ کامیاب ہونا چاہتا ہے اور ہر ایک شخص چاہتا ہے کہ وہ اوّل پوزیشن پر آئے۔ سب سے زیادہ اس کی شہرت عزت و وقار ، مال و دولت اور اقتدار کا ڈنکا بجتا رہے۔
خواہشات تب حسرت و قیاس بن جاتی ہیں جب ان کی تکمیل کے لیے عملی طور پر کچھ نہ کیا جائے اور جاگتی آنکھوں سے دیکھے سہانے خواب مناسب منصوبہ بندی اور مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد کے بغیر تعبیر نہیں پاتے۔ یوں تو کامیابی کو مقدر بنانے کے لیے بے شمار تحقیقی جرائد و رسالے موجود ہیں مگر اختصار کے ساتھ چند اہم مراحل کا تذکرہ ہماری نسل نو اور ہمارے لیے رہنمائی کا موجب بن سکتا ہے۔
سب سے پہلے کسی بھی پیشے ، شعبہ ہائے زندگی کے میدان میں نام کمانے کے لیے اس کا ارادہ کرنا ہوتا ہے۔ ذہنی طو پر خود کو قائل کرنا ہوتا ہے۔ سوچ کو یکسو کر کے اپنی صلاحیتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے خود کو تیار کرنا ہوتا ہے۔اچھا ارادہ، اچھا گمان اور اچھی نیت منزل کے حصول کو آسان بنا دیتی ہے۔
جب بھی کامیاب لوگوں کی زندگی کا مشاہدہ کریں تو پتا چلتا ہے کہ وہ کسی بھی کام کے آغاز سے پہلے سوچتے ہیں اور ان کا سوچنے کا انداز بہت مختلف ہوتا ہے۔ وہ تمام عوامل کا باریک بینی سے جائزہ لیتے ہیں۔ وہ مشاہدہ کرتے ہیں کہ آیا ان کی جسمانی صحت اس کام کے قابل ہے کہ نہیں؟ اس کام کے لیے عملی اور تعلیمی قابلیت پاس ہے کہ نہیں؟ کیا وہ ذہنی طور پر اہلیت رکھتے ہیں؟ مخصوص ماحول (جغرافیائی، سیاسی و معاشی ) ان کے کام کے لیے موزوں ہو گا کہ نہیں؟ کیا ان کی معاشی حالت مقصد کے حصول میں معاون ثابت ہو گی؟
اگر ایک بڑی آرگنائزیشن کا ڈھانچہ تیار کرنا ہے تو ان میں افرادی قوت، تعلیمی قابلیت ،معاشی حالت ، صحیح کام کے لیے صحیح فرد کا انتخاب ، ریسرچ اینڈ ڈویلپمنٹ کی مدد سے اور مستقبل کے منظر نامہ کا بغور جائزہ ، مواقع اور خطرات وغیرہ کا تنقیدی جائزہ لیا جاتا ہے۔ دنیا میں کامیاب اور ناکام لوگوں کے درمیان سوچنے کا عمل ایک بہت بڑی لکیر ہے کیونکہ انداز اًصرف دس فیصد لوگ سوچتے ہیں کوئی پانچ فیصد عمل کرتے ہیں اور ایک فیصد سے بھی کم کامیاب ہوتے ہیں۔
مثبت سوچنے اور جائزہ لینے کے بعد فیصلہ سازی بہت اہم ہے۔ بڑا آدمی بننے کے لیے قوت فیصلہ بہت اہم کردار ادا کرتی ہے کیونکہ بہت سے افراد اور کمپنیاں بروقت درست فیصلے نہ کر سکیں اور آج ان کا نام و نشان بھی نہیں اور بہت سے ایسی کمپنیاں اور افراد اپنے خاتمے کی طرف گامزن ہیں۔ دانشور کہتے ہیں کہ فیصلہ کرنے سے پہلے سو بار سوچو اور پھر جب فیصلہ کر لو تو اس پر ڈٹ جاو ٔاور پھر اسے عملی جامہ پہنانے تک سستی ، خوش فہمی ، تکبر، لالچ اور بے عملی کا شکار نہ ہو جانا۔
فیصلہ کر لینے کے ساتھ ہی ایک منصوبہ بندی کی جاتی ہے۔کہ اس کام کو پایہ تکمیل کیسے پہنچانا ہے؟ منصوبہ بندی میں سب سے اہم کام کا وقت پر آغاز اور وقت پر اختتام کا ہوتا ہے۔ روزانہ کی بنیاد پر چھوٹے چھوٹے اہداف کا تعین کیا جاتا ہے۔ ان اہداف کے لیے درکار صلاحیتوں سے استفادہ مادی و سائل کی فراہمی اور افراد کا انتخاب کیا جاتا ہے۔
منصوبہ سازی کے بعد عملی طور میدانِ عمل میں اترنا ہوتا ہے۔ مسلسل جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔ خون پسینہ ایک کرنا پڑتا ہے۔ ہر روز کے اہداف کو مکمل کیا جاتا ہے۔ دوسرے لفظوںمیں آج کا کام کل پر نہیں چھوڑا جاتا۔ خود کو متحرک رکھنا پڑتا ہے اور مقصد کے حصول اور کامیاب ہونے پر سو فیصد یقین رکھنا پڑتا ہے۔ در پیش چیلنجز کا مقابلہ کیا جاتا ہے ان کا حل نکالا جاتا ہے اور خود کی اور پنے ساتھ منسلک افراد کی حوصلہ افزائی اور تعریف کی جاتی ہے۔جہد مسلسل میں سب سے اہم چھوٹے چھوٹے اہداف کو روزانہ کی بنیاد پر پایہ تکمیل پہنچانا ہی اصل کامیابی ہے۔ مثال کے طور پر ایک عمارت ایک دن میں تعمیر نہیں ہوجاتی بلکہ مزدور پہلے بنیادیں کھڑی کرتے ہیں اور ہر روز دیئے گئے ہدف کے مطابق عمارت کا کام مکمل کرتے جاتے ہیں اور یہ روزانہ کا تھوڑا تھوڑا کام مل کر ایک دن بہت بڑا کام ثابت ہوتاہے۔ یعنی ایک ہی دن بڑا کام کرنے کی بجائے ہر روز تھوڑا تھوڑا کیا گیا کام ایک بڑی کامیابی کے خواب کو پورا کرتا ہے۔
جہد مسلسل کے ساتھ ساتھ کسی بھی کامیاب انسان کی زندگی کا اہم خاصہ مستقل مزاج ہونا ہے۔اس نے جو کام شروع کیا ہوتا ہے اس پر ثابت قدمی سے عمل پیرا رہتا ہے۔ کسی بھی لمحے ہمت نہیں ہارتا بلکہ مستقل مزاجی سے آگے قدم بڑھاتا رہتا ہے۔ اس پر نہ کوئی تنقید اثر اندازہوتی ہے اور نہ ہی منفی سوچوں اور بے عمل افراد کے بھنور میں رہنا پسند کرتا ہے۔ وہ جا نتا ہے منفی سوچیں اس کے خواب کی تعبیر کی تصویر بدل سکتی ہیں یا کم از کم تصویرکو دھندلاسکتی ہیں۔ جبکہ بے عمل افراد نہ خود کچھ کرتے ہیں نہ دوسروں کو کچھ کرنے دیتے ہیں بلکہ ہمیشہ سستی، کاہلی ، بے عملی اور تنقید سے حوصلے پست کرنے کی کوشش کرتے رہتے ہیں اور انجام سے ڈراتے رہتے ہیں لہٰذا وہ ان سے دوری میں ہی عافیت سمجھتے ہیں۔
مستقل مزاجی کے ساتھ ساتھ وہ خوامخواہ کے جھگڑوں ، نا اتفاقیوں، بد مزگیوں اور دوسروں کو نیچا دکھانے جیسی روش سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہیں۔ ان کا یہ ماننا ہے کہ جتنا وقت لڑنے جھگڑنے میں صرف کرنا ہے اسے تعمیری کام میں بروئے کار لایا جائے۔ خود کی زندگی بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے ساتھیوں کے حالات بھی بہتر کیے جائیں۔ کسی کو گرانے کی بجائے اسے سہارا دیا جائے۔ وہ دل جیتتے ہیں اور افراد کو اپنا قیمتی اثاثہ سمجھتے ہیں۔
اپنا ہدف اور مقصد حاصل کرنے کے بعد خوشی کا اظہار سجدہ شکر سے کرتے ہیں اور سب کو اپنی خوشی میں شریک کرتے ہیں۔اپنی کامیابی کا سہرا اپنے سر پر باندھنے کے بجائے پوری ٹیم ، گھر کے افراد ، دوستوں اور عزیز رشتہ داروں کے سر پر باندھتے ہیں۔ اس طرح ایک ہدف کے حصول کے بعد ایک اور ہدف اور پھر کئی اہداف پر ایک ہی وقت میں کام کر رہے ہوتے ہیں۔ ہر ہدف کیلئے وہ طریقہ کار یہی اپناتے ہیں کہ ارادہ کرنا، سوچنا، منصوبہ بندی کرنا ، جہد مسلسل کرنا، مستقل مزاج رہنا اور آخر پر کامیابی کی خوشی کے جشن میں سب کو شامل کرنا۔ یوں وہ ایک پوری چین بنا کر برانڈ بن جاتے ہیں۔ لہٰذا سوچنا شروع کیجیے، اہداف کا تعین کیجیے اورچند سالوں میں برانڈ بن جائیے۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں