آرگیزم: خواتین ہیجان شہوت کیسے حاصل کر سکتی ہیں؟

’آپ کو آرگیزم (ہیجان شہوت) ہوتا نہیں ہے بلکہ (یہ عمل) آپ کو سیکھنا پڑتا ہے، یا یوں کہیے کہ آپ کو اس عمل سے گزرنے کے لیے خود کو اجازت دینی پڑتی ہے۔‘

فرانسیسی محقق ولیری ٹاسو کا یہ جملہ بہت سے ماہرین کی اس سوچ کی عکاسی کرتا ہے جس کے بارے میں وہ طویل عرصے سے خبردار کرتے آئے ہیں کہ کسی خاتون کے سیکس پارٹنر کی جنسی کارکردگی سے زیادہ اہم یہ چیز ہے کہ اس خاتون کا آرگیزم یا ہیجان شہوت کے حوالے سے رویہ کیسا ہے۔

بہت سی خواتین کے لیے ہیجان شہوت حاصل کرنا ممکن نہیں ہوتا اور ایسی خواتین کے لیے یہ صرف ایک ایسے تصور یا منظر کے طور پر وجود رکھتا ہے جو صرف فلموں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لیکن فلم کے پردے نے بہت سے افسانوں کو بھی جنم دیا ہے جن میں سے ایک یہ ہے کہ آرگیزم صرف سیکس کے ذریعے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔ تاہم تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ صرف 25 فیصد خواتین ہی اس طریقے سے آرگیزم حاصل کر پاتی ہیں۔

تحقیق سے ایک اور بات یہ بھی ثابت ہوتی ہے کہ سیکس کے دوران خواتین میں ہیجان شہوت کی شرح مردوں سے کہیں کم ہوتی ہے اور اس صورتحال کو ’آرگیزم گیپ‘ کا نام دیا گیا ہے۔ سائنسی ادب میں یہ نام 20 سال قبل ہی آ چکا تھا۔

اپنے آپ سے پوچھیے: آپ کے لیے آرگیزم کیا ہے؟

کیا آپ نے کبھی یہ سوچا کہ آپ کے نزدیک آرگیزم کیا ہے؟ ماہرین کے مطابق یہ سادہ سوال ہی سیکس کے دوران کلائمیکس (عروج) حاصل کرنے کی کنجی ہے۔

فیبیولا ٹریہو میکسیکو میں سیکشوئل پلیژر (جنسی لذت) کی ماہر ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ ’یہ ضروری ہے کہ خواتین خود سے سوال کریں کہ اُن کے لیے آرگیزم کیا ہے اور وہ اسے کیوں حاصل کرنا چاہتی ہیں۔ بہت سی خواتین صرف پارٹنر (یا شوہر) کو اپنی محبت دکھانا چاہتی ہیں لیکن ایسا کرنے سے وہ اپنے اوپر توجہ نہیں دے پاتیں اور نہ اس بات پر غور کرتی ہیں کہ ان کو کیا اچھا لگتا ہے۔‘

ان کے مطابق آرگیزم کا تعلق ذہن میں موجود اُن خیالات سے ہوتا ہے جو وقت کے ساتھ ٹھوس شکل اختیار کر چکے ہوتے ہیں کہ سیکس کیسا ہونا چاہیے۔

’بہت سی خواتین سیکس کے دوران آرگیزم حاصل کرتی ہیں لیکن اُن کو پتہ نہیں ہوتا کیوں کہ ان کا آرگیزم ویسا نہیں ہوتا جیسا اُن کو بتایا گیا ہوتا ہے۔ اس لیے پہلا قدم یہ سمجھنا ہوتا ہے کہ آرگیزم کیا ہے اور کسی کا جسم ہیجان شہوت کیسے حاصل کرتا ہے، چاہے وہ ویسا نظر نہ آئے جیسا کہ بتایا گیا ہے۔‘

چلی سے تعلق رکھنے والی ماہر نفسیات ٹرینیڈیڈ فورٹیس بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔

وہ کہتی ہیں کہ ’ہمیں پہلے سے موجود تصورات کو بدلنا ہو گا، ان تصورات کو جو ہماری جنسی زندگی کو متاثر کرتے ہیں۔‘

’خود سے یہ سوال کرنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے لیے جنسی لذت کیا معنی رکھتی ہے، آرگیزم کیا ہے اور اس طرح ہم اپنی جنسی شناخت قائم کر سکتے ہیں۔‘

آرگیزم

اپنے جسم کو جانیں

ماہرین کی جانب سے آرگیزم حاصل کرنے کے لیے خواتین کو جو دوسرا مشورہ دیا گیا ہے وہ یہ کہ ان کے پاس اپنے جسم کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہیے۔

فیبیولا ٹریہو کا کہنا ہے کہ ’خصوصی طور پر جسم میں موجود جنسی اعضا کے بارے میں۔ یہ ایک بنیادی قدم ہے کہ خواتین یہ جان سکیں کہ جنسی لذت کا عمل کیسے کام کرتا ہے۔اور یہ صرف خود کو آئینے میں دیکھنے سے نہیں ہو سکتا بلکہ خود کو چُھو کر اور شناخت کرنے سے پتہ چلتا ہے۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’بہت سی خواتین کو یہ علم ہی نہیں ہوتا کہ اُن کے جسم میں کلائٹورس (اندام نہانی کے اوپر موجود حساس حصہ) کہاں ہوتا ہے کیوں کہ انھوں نے کبھی خود لذتی یا میسٹربیشن نہیں کی ہوتی اور یوں جسم سے لاتعلقی کا احساس جنم لیتا ہے۔‘

ٹرنیڈیڈ فورٹیس کے مطابق ’کم عمری میں ہی خواتین کو بتایا جاتا ہے کہ خود کو چھونا ممنوع ہے اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سی خواتین اپنے جسم کے بارے میں ہی نہیں جانتیں۔‘

اُن کا کہنا ہے کہ ’جو خواتین اپنے جنسی اعضا کے بارے میں نہیں جانتیں ان کے لیے خود کو دریافت کرنے کی میں حامی ہوں کیوں کہ اس سے اپنے بارے میں علم کے ساتھ ساتھ جنسی خواہشات میں اضافہ ہوتا ہے۔‘

’یہ ایک صحتمندانہ جنسی عمل ہے جس کا بھرپور سیکس حاصل کرنے سے گہرا تعلق ہے۔‘

ہسپانوی سیکسالوجسٹ تیچل گرانا کہتی ہیں کہ جسم سے تعلق قائم کرنے کے اس عمل میں خود کو جاننا بھی ضروری ہے۔

’ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا جسم روزانہ کی بنیاد پر ایک ہی طرح سے پیش آئے جبکہ خواتین کا جسم ایک دائرے میں سفر کرتا ہے جس کے دوران ماہواری سمیت مختلف مراحل ہوتے ہیں اور ان سب کو جاننا بہت ضروری ہے۔‘

آرگیزم

کلائٹورس کا کردار

ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ سیکس کے دوران کوئی ایک پوزیشن ایسی نہیں ہے جو کسی عورت کو ہیجان شہوت کے حصول میں مدد دے۔ ان کے مطابق اہم بات یہ ہے کہ کلائٹورس (اندام نہانی کے اوپر موجود حساس حصہ) کو دباؤ کے ساتھ متحرک کیا جائے۔

فیبیو ٹریہو کا کہنا ہے کہ ’یہ بات سمجھنی چاہیے کہ جسم کی پوزیشن سے زیادہ کلائٹورس کو متحرک کرنا اہم ہے۔ آرگیزم حاصل کرنے کے مختلف طریقے ہوتے ہیں لیکن اگر ہم بنیادی امور کی بات کریں تو سب سے بہتر طریقہ اسے ملنا ہوتا ہے۔‘

ان کا کہنا ہے کہ ’مرد آرگیزم سیکس کے ذریعے یا میسٹربیشن سے حاصل کرتے ہیں اور خواتین میں فرق یہ ہے کہ ان کے لیے سیکس زیادہ مروجہ طریقہ ہے لیکن زیادہ تر اس سے آرگیزم حاصل اس لیے نہیں ہوتا کیوں کہ اس میں کلائٹورس کو تحریک نہیں مل رہی ہوتی۔ یہ ایسا ہی ہے کہ مرد سے یہ کہا جائے کہ عضو تناسل کو چھوئے بغیر آرگیزم حاصل کرے۔‘

تاہم اُن کے مطابق ایسی سیکس پوزیشن ضرور ہوتی ہیں جن میں کلائٹورس کو سیکس کے دوران تحریک ملنے کے امکانات زیادہ ہوتے ہیں جیسا کہ اگر عورت سیکس کے دوران اوپر موجود ہو۔ ریچل بھی اس سے اتفاق کرتی ہیں۔

’سیکس کے دوران بہتر ہے اگر عورت اپنے جسم کی حرکت پر کنٹرول رکھ سکے اور ایسے میں اگر وہ آگے کی جانب جھک سکے تو زیادہ مناسب ہو گا۔‘

ٹرنیڈیڈ فورٹیس کا کہنا ہے کہ ’ہمیں سیکس کی تشریح کو عام فہم عمل سے ہٹ کر سمجھنا ہو گا کیوں کہ یہ اس سے کہیں زیادہ اور بڑھ کر ہے۔‘

سانس اور لُبریکینٹس کا استعمال

سیکس

فیبیو ٹریہو کے مطابق خواتین کے لیے آرگیزم حاصل کرنے کے لیے تیل یا اس سے ملتے جلتے لُبریکینٹس کا استعمال اہم ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ’آپ کو ہمیشہ اس کا استعمال کرنا چاہیے، چاہے آپ کو یہ لگے کہ آپ کو اس کی ضرورت نہیں۔ یہ اس لیے ضروری ہے کیوں کہ یہ حساسیت کو بڑھا دیتا ہے۔‘

’فرض کریں آپ مالش کروا رہے ہیں لیکن آپ نے تیل نہیں لگایا تو یہ ایک نرم اور آرام دہ عمل نہیں ہو گا اور اسی لیے یہ ضروری ہے۔‘

ماہرین کے مطابق سانس لینے کا عمل بھی آرگیزم حاصل کرنے میں اہمیت رکھتا ہے۔ فیبیو کے مطابق ’سانس لینے سے آرگیزم کا ردھم بنتا ہے اور اسی لیے میں آپ سے کہوں گی کہ سیکس پر توجہ دینے کے بجائے سانس لیں۔‘

سیکس کے کھلونوں کے بارے میں ماہرین کی رائے مختلف ہے۔ ریچل کا کہنا ہے کہ ہر شخص کو اپنی مرضی کا تجربہ کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

فیبیو کے مطابق ’بہتر یہ ہے کہ خواتین اپنے یا پارٹنر کے ہاتھ کی مدد سے آرگیزم حاصل کریں کیوں کہ ایسا کرنے کے بہت سے طریقے ہیں۔‘

پارٹنر سے بات کریں

آخری مشورہ جو ماہرین کی جانب سے دیا گیا وہ یہ کہ ان تمام طریقوں کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا اگر ان کی باقاعدہ پریکٹس نہ کی جائے۔

فیبیو کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی خاتون یہ مضمون پڑھنے کے بعد کوشش کرے گی کہ پارٹنر کے ساتھ فوری آرگیزم حاصل کر لے تو ایسا نہیں ہو گا۔ اس کے لیے وقت لگتا ہے اور تسلسل درکار ہوتا ہے۔ جیسے اپنے جسم کو جاننا ضروری ہے، ویسے ہی اس کی تربیت بھی اہم ہے۔‘

’آرگیزم اچانک سے نہیں ہو جاتا بلکہ آپ کو اس کے لیے محنت کرنا پڑتی ہے۔‘

وہ واضح کرتی ہیں کہ آرگیزم کا حصول نفسیاتی یا ذہنی نہیں، بلکہ مکمل طور پر ایک جسمانی عمل ہے۔ ’یہ سمجھنا ہو گا کہ آرگیزم کوئی ایسی چیز نہیں جو آپ کے دماغ میں ہو رہی ہے بلکہ اس کا تعلق آپ کے جسم سے ہے تو یہ سوچنا غلط ہے کہ یہ اس لیے حاصل نہیں ہو رہا کیوں کہ آپ توجہ نہیں دے رہے یا ریلیکس نہیں ہیں۔ آپ کے ساتھ کچھ غلط نہیں ہے۔‘

ماہرین کا کہنا ہے کہ جوڑوں کے درمیان بات چیت بھی بہت اہم ہے۔

ٹرینیڈیڈ کا کہنا ہے کہ ’یہ اہم ہے کہ جوڑے ایک دوسرے سے بات کر سکیں اور یہ بتا سکیں کہ ان کو کیسا محسوس ہوتا ہے، کسی قسم کی شرم یا احساس جرم کے بغیر۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں