پاکستان کے حالیہ انتخابات سے چند روز قبل تک ملک کے سیاسی منظر نامے پر سابق وزیراعظم عمران خان اور اُن کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو مشکل صورتحال کا سامنا تھا۔
جہاں عمران خان کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں قید اور جرمانوں کی سزائیں سُنائی جا رہی تھیں وہیں اُن کی جماعت کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو آزادانہ طریقے سے اپنی انتحابی مہم چلانے میں مشکلات کا سامنا تھا۔
اس صورتحال کے پیشِ نظر پاکستان میں 8 فروری کو ہونے والے انتخابات سے قبل سیاسی تجزیہ کاروں میں عمومی تاثر یہی تھا کہ پی ٹی آئی کے ’حمایت یافتہ‘ امیدوار شاید کچھ ہی سیٹیں نکال پائیں گے تاہم جیسے جیسے انتخابات کے نتائچ آنا شروع ہوئے تو یہ تاثر تیزی سے بدلنا شروع ہو گیا۔
اب انتخابات سے چند روز بعد مکمل نتائج سامنے آنے پر منظر نامہ یکسر بدل چکا ہے۔ عمران خان اور اُن کی جماعت کے حمایت یافتہ امیدوار بڑی تعداد میں کامیاب ہو کر وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں پہنچنے کے لیے تیار ہیں۔
مرکز میں اِن آزاد امیدواروں کی تعداد کسی بھی دوسری سیاسی جماعت کے کامیاب قرار پانے والے امیدواروں سے زیادہ ہے۔ صوبہ پنجاب میں وہ دوسرے نمبر پر ہیں جبکہ صوبہ خیبرپختونخوا میں آزاد امیدوار دو تہائی اکثریت رکھتے ہیں۔ اس کے علاوہ تحریک انصاف کے حمایت یافتہ صوبائی اور قومی اسمبلی کے درجنوں امیدواروں نے اپنی ناکامی کو الیکشن کمیشن آف پاکستان میں چیلنج کر رکھا ہے اور تحریک انصاف کی موجودہ قیادت کا دعویٰ ہے کہ ان شکایات پر شفاف تحقیقات صورتحال کو تحریک انصاف کے حق میں مزید بہتر کرے گی۔
فی الحال تحریک انصاف کی قیادت کو یہ سوال درپیش ہے کہ وہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں اپنی ’اکثریت‘ کیسے ثابت کریں اور حکومتیں کیسے بنائیں اور اپنے ’آزاد‘ امیدواروں کو دوسری سیاسی جماعتوں سے ’بچا‘ کر کیسے رکھیں؟ آئندہ چند روز ملک میں حکومت سازی کی اسی مشق پر کام ہو گا۔
تاہم جیل میں بند پاکستان تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کے سامنے یہ سوال ہو سکتا ہے کہ وہ انتخابات میں اپنے حمایت یافتہ امیدواروں کو ملنے والی اس عوامی پزیرائی کا ذاتی طور پر کس حد تک اور کس وقت فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
فری اینڈ فیئر الیکشن نیٹ ورک (فافن) کے ابتدائی تجزیے کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کو مجموعی طور پر ملک بھر سے ایک کروڑ 68 لاکھ سے زیادہ ووٹ ملے ہیں۔ تو کیا یہ عوامی پزیرائی ملک کی مقتدرہ قوتوں کو عمران خان کے حوالے سے فی الوقت رائج سوچ اور پالیسی کی تبدیلی میں مدد دے سکتی ہے؟
ذیل میں ہم نے انھی اہم سوالات کا جائزہ لیا ہے۔
کیا عمران خان جیل سے باہر آ جائیں گے؟
قانونی ماہرین سمجھتے ہیں کہ مستقبل قریب میں اس کے امکانات بہت کم ہیں۔ ماہر قانون حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ اس کے لیے عمران خان کو قانونی جنگ لڑنا جاری رکھنا ہو گی۔
’انھیں عدالتیں کئی مقدمات میں سزائیں دے چکی ہیں۔ یہ سزائیں معطل یا ختم کروانے کے لیے بھی انِھیں عدالتوں ہی میں جانا پڑے گا۔ بدلی ہوئی صورتحال کا انھیں سیاسی فائدہ تو ہو سکتا ہے لیکن اس سے عدالتوں میں کوئی ریلیف ملتا نظر نہیں آتا۔‘
حافظ احسن کھوکھر کے خیال میں عدالتوں سے ریلیف حاصل کرنے میں عمران خان کو اس لیے بھی مشکلات کا سامنا ہو گا کہ ’وہ کئی مقدمات جیسے سائفر کیس، توشہ خانہ یا اثاثہ جات کا کیس ہو ان میں بظاہر غلطی تسلیم کر چکے ہیں۔‘
وکیل حافظ احسن کھوکھر کہتے ہیں کہ سابق وزیراعظم عمران خان کو سزاؤں پر عدالتی ریلیف ملنے کے امکانات اس لیے بھی کم نظر آتے ہیں کہ مرکز میں اُن کی جماعت حکومت بناتی نظر نہیں آ رہی۔
تاہم سیاسی تجزیہ کاروں کی رائے یہ ہے کہ وفاق اور صوبائی اسمبلیوں میں عمران خان کے حمایت یافتہ امیدواروں کی موجودگی سے فی الفور اس حد تک فائدہ ضرور ہو گا کہ اب اس طرح کے فورمز پر سابق وزیراعظم کے حق میں آوازیں متواتر بلند ہوں گی اور اُن کیسز اور اس طریقہ کار پر بھی دوسری رائے سامنے آئے گی جن کے تحت عمران خان کو سزائیں ہوئی ہیں۔
عمران خان کی سزائیں ختم ہونے کا کوئی راستہ نکل سکتا ہے؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے بیرسٹر اور آئینی قوانین کے ماہر ایک وکیل اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے تاہم بی بی سی سے بات کرتے ہوئے انھوں نے بتایا کہ عمران خان کی سزا ختم ہونے اور جیل سے باہر آنے کے دو راستے ہو سکتے ہیں۔
ایک یہ کہ ان کی جماعت مرکز میں حکومت بنا لے، ان کا وزیراعظم بن جائے، وہ صدر کو ایڈوائس کرے کہ عمران خان کی سزائیں ’کمیوٹ‘ یعنی کم کر دی جائیں۔
’اس صورت میں وہ باہر تو آ جائیں گے لیکن ان کا لیگل سٹیٹس بری ہونے کا نہیں ہو گا۔ یعنی اخلاقی طور پر وہ عدالتی عمل سے گزر کر اور بری ہو کر رہائی نہیں پا رہے ہوں گے۔‘
اُن کے خیال میں دوسرا راستہ یہ ہو سکتا ہے کہ ’ان کی جماعت کی حکومت بن جائے اور پھر وہ ادارے جو ان کے خلاف مقدمات میں استغاثہ ہیں وہ عدالتوں سے اپنے مقدمات یا درخواستیں واپس لے لیں۔ ہم نے دیکھا ہے کہ ماضی میں بھی سیاسی رہنماؤں کے کیسوں میں ایسا متعدد مرتبہ ہو چکا ہے۔‘
وکیل اور قانونی ماہر اسد جمال بھی سمجھتے ہیں کہ یہ ایک راستہ ہو سکتا ہے تاہم ان کے خیال میں استغاثہ کیس واپس نہ بھی لے تو سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس راستہ ہو گا۔
’وہ اپنی سزاؤں کے خلاف اپیلیں کر سکتے ہیں اور ان کے خلاف مقدمات کمزور قانونی بنیادوں پر قائم ہیں، ان میں بہت سی بے ضابطگیاں ہیں، اس لیے عدالتیں ان کی سزائیں فوری طور پر معطل کر سکتی ہیں بلکہ ختم بھی کر سکتی ہیں۔‘
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس کے امکانات اسی وقت ہوں گے اگر مرکز میں پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے جس کا امکان دیگر بڑی پارٹیوں کے اتحاد کے باعث کم نظر آ رہے ہیں۔
’ایک راستہ ہو سکتا تھا مگر۔۔۔‘
صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ جیل میں قید سابق وزیراعظم عمران خان کے پاس موجودہ صورتحال میں بھی جیل سے باہر آنے کا ’ایک راستہ ہو سکتا تھا مگر جیل سے ان کے حالیہ بیانات کے بعد ایسا لگتا ہے کہ ایسا نہیں ہو پائے گا۔‘
سلمان غنی کہتے ہیں ’گذشتہ چند گھنٹوں میں اسلام آباد میں نیشنل گورنمنٹ کی بازگشت بھی تھی یعنی اکثریتی نشستیں رکھنے والی تمام جماعتیں مل کر حکومت بنا لیں۔‘
تاہم اُن کا دعویٰ ہے کہ ایسا اس لیے نہیں ہو پایا کہ مقتدروں حلقوں کے پاس اس بات کی کوئی گارنٹی نہیں تھی کہ ’عمران خان جیل سے باہر آ کر ایک مرتبہ پھر سب کچھ تلپٹ نہیں کر دیں گے۔‘
سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے جیل میں دیے گئے اس بیان سے کہ وہ کسی بڑی سیاسی جماعت سے اتحاد نہیں کریں گے یہ ظاہر کرتا ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست نہیں کرنا چاہتے۔
اس لیے ان کے خیال میں عمران خان کے لیے حالیہ مینڈیٹ کی وجہ سے ذاتی طور پر کوئی فائدہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔
کیا عمران خان وزیراعظم بن سکتے ہیں؟
وکیل اور قانونی ماہر حافظ احسن کھوکھر سمجھتے ہیں کہ ایسا ممکن ہوتا نظر نہیں آتا۔ اُن کے خیال میں اگر عمران خان کسی طریقے سے ضمانت یا سزائیں معطل ہونے پر جیل سے باہر بھی آ جائیں تو وہ سزا یافتہ مجرم ہوں گے۔
’وہ مجلسِ شوریٰ کے ممبر نہیں اور نہ بن سکتے ہیں کیونکہ انھیں دو مقدمات میں لمبی سزائیں ہو چکی ہیں۔ انھیں احتساب عدالت سے بھی سزا ہو چکی ہے اس لیے وہ انتخاب لڑنے یا عوامی منصب رکھنے کے لیے نااہل قرار دیے جا چکے ہیں۔‘
حافظ احسن کھوکھر کہتے ہیں کہ ان کی اس نااہلی کی مدت کم از کم پانچ برس ہے اور اس کے علاوہ وہ سزا یافتہ مجرم قرار دیے جا چکے ہیں۔
لاہور سے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بی بی سی سے بات کرنے والے آئینی ماہر بھی حافظ احسن کھوکھر کی بات سے اتفاق کرتے ہیں۔
ان کے خیال میں آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت اگر سزا کی مدت تین سال سے زیادہ ہو تو اس صورت میں پانچ سالہ نااہلی کی مدت عمران خان کی سزا ختم ہونے کے بعد شروع ہو گی۔ ’یعنی اس دن سے جس دن وہ سزا پوری کر لیں گے۔‘
تاہم وکیل اسد جمال سمجھتے ہیں کہ عمران خان وزیراعظم بن سکتے ہیں۔ ان کے خیال میں اگر پی ٹی آئی کی حکومت بن جائے اور عدالتوں سے عمران خان کی سزائیں ختم ہو جائیں ’تو ان کی نااہلی بھی ختم ہو جائے گی اور پھر وہ انتخاب لڑ کر وزیراعظم بن سکتے ہیں لیکن عملی طور پر ایسا ہوتا نظر نہیں آ رہا۔‘
کیا مقتدرہ قوتوں سے عمران خان کے تعلقات بہتر ہو سکتے ہیں؟
سابق وزیراعظم عمران خان کی جماعت کے حمایت یافتہ امیدواروں کی طرف سے بھاری تعداد میں انتخابی کامیابی حاصل کرنے کے بعد ایک تاثر یہ بھی سامنے آ رہا ہے کہ اس کے بعد ان کے اسٹیبلشمنٹ سے تعلقات میں بہتری کی گنجائش نکل سکتی ہے۔
صحافی اور تجزیہ کار سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ عمران خان کے پاس یہ ایک بہترین موقع ہو سکتا ہے کہ وہ اس مینڈیٹ کو استعمال کر کے اپنے اور اپنی پارٹی اور مشکل میں پھنسے اپنے کارکنوں کے لیے راہیں ہموار کر سکیں۔
’لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آتا۔ عمران خان اب بھی تصادم کی سیاست کے موڈ میں نظر آتے ہیں اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ بھی اس موڈ میں نظر نہیں آتی کہ ان سے کوئی بات چیت کرے۔‘
وکیل اسد جمال بھی سمجھتے ہیں کہ ایسا ہونا مشکل ہے۔ ان کے خیال میں عمران خان کے حالیہ بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ ان کے حمایت یافتہ امیدواروں کو جو کامیابی ملی ہے وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انھیں تصادم اور مخالفت کی سیاست ہی کی وجہ سے ملی ہے۔
’وہ خود اس وقت جس پوزیشن میں ہیں تو انھیں لگتا ہے کہ مفاہمت کی سیاست اس وقت اُن کو فائدہ نہیں دے گی اور ان کو اس کی ضرورت نہیں۔ تصادم کی سیاست سے وہ سمجھتے ہیں کہ وہ آئندہ کے لیے بھی اپنی سیاسی کامیابی کی راہ ہموار کر سکتے ہیں۔‘
وکیل اسد جمال کے خیال میں بظاہر ایسا نظر آتا ہے کہ عمران خان یہ سمجھ رہے ہیں کہ اس موقع پر تصادم کی سیاست کا اگر انھیں کوئی فوری فائدہ نہیں بھی ملتا تو چھ ماہ یا ایک سال بعد جا کر انھیں اس کا فائدہ مل سکتا ہے۔