’پی ڈی ایم 2.0‘: مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے اتحاد کی صورت میں کن آپشنز پر غور؟

اگرچہ وفاق میں الیکشن کے اب تک کے غیر حتمی نتائج کے مطابق تحریک انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں نے برتری حاصل کی ہے تاہم پاکستان مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطے شروع ہوچکے ہیں۔

الیکشن کمیشن کے مطابق پاکستان تحریکِ انصاف کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار اب تک قومی اسمبلی کی 93 نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں جبکہ پاکستان مسلم لیگ ن کو 74 نشستوں پر کامیابی ملی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی ملک بھر میں اب تک 54 قومی اسمبلی کی نشستوں پر کامیابی حاصل کر چکی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان 17 نشستیں جیت چکی ہے۔

اب جبکہ کسی بھی جماعت کے پاس سادہ اکثریت موجود نہیں ہے تو آئندہ بننے والی ممکنہ مخلوط حکومت کا خاکہ کیا ہو گا؟

پاکستان مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف نے انتخابات میں جیت کا اعلان کیا تھا اور کہا تھا کہ وہ اپنے چھوٹے بھائی شہباز شہریف کو پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ پاکستان، جمیعت علما اسلام اور دیگر جماعتوں سے حکومت سازی کے لیے بات چیت کرنے کا ٹاسک دے رہے ہیں۔

دوسری جانب پاکستان تحریکِ انصاف کے چیئرمین بیرسٹر گوہر خان نے بھی قومی اسمبلی میں اکثریتی نشستیں جیتنے کا دعویٰ کرتے ہوئے اعلان کیا ہے کہ ان کی جماعت وفاق، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں حکومت بنائے گی۔

مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی دونوں کی جانب سے یہ کہا گیا ہے کہ تاحال حکومت سازی کے لیے باقاعدہ بات چیت کا آغاز نہیں ہوا ہے۔

خیال رہے کہ انتخابات سے قبل الیکشن کمیشن نے پاکستان تحریکِ انصاف کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیا تھا جس کے بعد سابق وزیر اعظم عمران خان کی جماعت سے ان کا انتخابی نشان لے لیا گیا تھا اور ان کے لوگوں نے انتخابات میں بطور آزاد امیدوار حصہ لیا ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے یہ عندیہ دیا گیا ہے کہ ان کے جیتنے والے آزاد امیدوار کسی چھوٹی سیاسی جماعت کو اسمبلیوں میں جوائن کر سکتے ہیں تاکہ انھیں (خواتین اور اقلیتوں کی) مخصوص نشستیں مل سکیں اور وہ حکومتیں بھی بنا سکیں۔

پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، جمعیت علما اسلام اور دیگر جماعتیں 2022 میں بھی پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد تقریباً ڈیڑھ سال حکومت میں رہی ہیں۔

اس حکومت کو پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے نام سے بھی پکارا جاتا تھا۔ اب تک کسی بھی جماعت نے پاکستان مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر حکومت بنانے کا اعلان نہیں کیا ہے۔

انتخابی مہم کے دوران پاکستان مسلم لیگ ن، پاکستان پیپلز پارٹی، جمعیت علما اسلام اور متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ایک دوسرے پر تنقید کرتی ہوئی نظر آئی تھیں۔

تاہم اب جبکہ کسی بھی جماعت کے پاس سادہ اکثریت موجود نہیں ہے تو آئندہ بننے والی ممکنہ مخلوط حکومت کا خاکہ کیا ہو گا؟

bilawal

پی ٹی آئی کے بلاک کے ساتھ ہمارا اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا: بلاول بھٹو

لاہور میں آصف زرداری اور شہباز شریف کی ملاقات پر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ اُن کی حکومت سازی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن سمیت کسی سیاسی جماعت سے کوئی گفتگو نہیں ہوئی ہے۔

سنیچر کو نجی چینل جیو نیوز سے بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ’ابھی تک پاکستان پیپلز پارٹی کی کوئی باضابطہ گفتگو نہ ن لیگ کے ساتھ، نہ پی ٹی آئی کے ساتھ اور نہ کسی اور سیاسی جماعت کے ساتھ ہوئی ہے۔‘

بلاول بھٹو زرداری کا مزید کہنا تھا کہ ’ہم انتظار کر رہے ہیں کہ پہلے تمام حلقوں کی گنتی پوری ہو جائے اور نتائج سامنے آ جائیں۔‘

انتخابات سے قبل پاکستان پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی نے بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم کا امیدوار نامزد کیا تھا۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’اگر ہمیں یہ فیصلہ تبدیل کرنا ہے تو ہم ایک بار پھر سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کو بُلا کر سب مل کر اتفاق کے ساتھ یہ فیصلہ کریں گے۔‘

بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ ان کی خواہش ہے کہ ملک میں ’سیاسی اتفاق‘ قائم کرنے کی کوشش کی جائے کیونکہ ان کے نزدیک بغیر اتفاق قائم کیے کوئی بھی حکومت ڈلیور نہیں کر پائے گی۔

انھوں نے مزید کہا کہ ’کچھ آزاد ہمارے رابطے میں ضرور ہیں لیکن پی ٹی آئی کے بلاک کے ساتھ ہمارا اب تک کوئی رابطہ نہیں ہوا۔‘

حکومت سازی کے حوالے سے پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب نے میڈیا کو بتایا کہ ان کی جماعت کی پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ مل کر حکومت بنانے پر کوئی حتمی بات نہیں ہوئی ہے اور ’گفتگو ابھی ابتدائی مراحل‘ میں ہے۔

nawaz

نئی حکومت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پچھلے دورِ اقتدار سے کتنی مختلف ہو گی؟

کسی سیاسی جماعت کی جانب سے ابھی تک حکومت سازی کے حوالے سے کوئی باضابطہ اعلان نہیں کیا گیا ہے۔ ایسے میں سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ انتخابی مہم کے دوران ایک دوسرے پر تنقید کرنے والی یہ جماعتیں کیا ایک بار پھر اتحادی حکومت میں نظر آئیں گی اور نئی حکومت پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے پچھلے دورِ اقتدار سے کتنی مختلف ہو گی؟

متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے رہنما حیدر عباس رضوی نے حکومت سازی کے معاملات پر بات کرتے ہوئے بی بی سی اردو کو بتایا کہ ’کل رات شہباز شریف صاحب کا فون خالد مقبول صدیقی بھائی کے پاس آیا تھا اور انھوں نے بات چیت کی دعوت دی ہے۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت میں شامل ہونے کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال پر حیدر عباس رضوی کا کہنا تھا کہ ’پہلے یہ تو طے ہو جائے کہ واقعی ن لیگ حکوت بنانے بھی جا رہی ہے یا نہیں؟‘

انھوں نے مزید کہا کہ ان کے لیے کچھ بھی کہنا ابھی قبل از وقت ہو گا کیونکہ ابھی آزاد امیدواروں کو بھی دیکھنا ہو گا کہ وہ کہاں جاتے ہیں اور ’صورتحال ابھی غیر واضح ہے۔ دلّی ہنوز دور است۔‘

پاکستان میں سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتے کہ پاکستان تحریکِ انصاف سے بات چیت کیے بغیر کوئی بھی حکومت کامیاب ہو پائے گی۔

لاہور میں مقیم صحافی و تجزیہ کار اجمل جامی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’نواز شریف کی تقریر کے بعد ایسا ہی معلوم ہوتا ہے کہ پی ڈی ایم 0۔2 بننے جا رہی ہے، لیکن یہاں اہم سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈیم ایم کی پہلی حکومت ملک میں سیاسی اور معاشی استحکام لا سکتی تھی؟ اس کا جواب ہے نہیں۔‘

ان کے مطابق عمران خان کی جماعت کے حمایت یافتہ اراکین اکثریتی نشستیں جیتنے میں کامیاب ہوئے ہیں اور وہ پی ڈی ایم کی حکومت کو تنگ کرتے رہیں گے۔

اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریکِ انصاف کی حکومت ہو گی اور دیگر صوبوں کو جو شخصیات مطلوب ہوں گی وہ وہاں شاہی مہمان بن کر رہیں گے۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ملک میں دو حکومتیں چل رہی ہوں۔‘

zardari

’گیند آصف زرداری کے کورٹ میں ہے‘

اجمل جامی سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت بنانے میں سابق صدر آصف علی زرداری کا بڑا کردار ہو گا۔

’ابھی گیند آصف علی زرداری کے کورٹ میں ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا وہ اپنے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری کے لیے وزارتِ اعظمیٰ مانگیں گے؟ میری اطلاع ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے۔‘

اجمل جامی کے مطابق اس وقت حکومت سازی کے کئی فارمولے گردش کر رہے ہیں جن میں ایک یہ بھی شامل ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن ڈھائی، ڈھائی برس حکومت کریں۔

وہ کہتے ہیں کہ یہ فارمولا بھی گردش کر رہا ہے کہ بلاول بھٹو زرداری کو وزیراعظم بنا دیا جائے اور شہباز شریف یا مریم نواز کو وزیراعلیٰ پنجاب بنا دیا جائے۔

پاکستان تحریکِ انصاف کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ ’سیاسی رہنماؤں کو عمران خان سے بھی بات کرنی ہو گی اور اُن پر بھی لازم ہے کہ وہ ملک کے بہتر مفاد میں باقی لوگوں سے بات کریں۔

کیا پی ڈی ایم کی حکومت ملک میں سیاسی استحکام لا سکے گی؟

پنجاب کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے ایک اور تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ان کے خیال میں ملک میں نئی پی ڈی ایم حکومت آنے کے بعد بھی سیاسی استحکام نہیں آئے گا۔

انھوں نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘بیرسٹر گوہر نے ریٹرنگ افسران کے دفاتر کے باہر احتجاج کا اعلان کیا ہے اور یہ اُن کی ذاتی نہیں بلکہ پارٹی کی رائے ہے۔’

‘اگر سیاسی استحکام کا یہی عالم رہا تو یہ میرے صحافتی رائے ہے کہ انتخابات پھر جلدی آ جائیں گے۔’

پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ ن کے درمیان بات چیت پر رائے دیتے ہوئے سلمان غنی کا کہنا تھا کہ ‘میری معلومات کے مطابق دونوں جماعتوں کے درمیان معاملات طے ہو چکے ہیں لیکن شہباز شریف کا کہنا تھا کہ وہ نواز شریف سے ان معاملات کی منظوری لیں گے۔’

انھوں نے مزید کہا کہ ‘ایسا ہوسکتا ہے کہ شہباز شریف وزیراعظم ہوسکتے ہیں اور آصف زداری صد ہوسکتے ہیں۔’

‘یا پھر یہ بھی ہوسکتا ہے کہ نواز شریف صدر ہوں اور وزیراعظم پاکستان پیپلز پارٹی کا ہو۔’

وہ سمجھتے ہیں کہ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے امکانات زیادہ روشن ہیں۔

شہباز شریف ماضی میں کہہ چکے ہیں کہ اگر ان کی جماعت کو سادہ اکثریت ملی تو وزیراعظم نواز شریف ہوں گے۔

ڈان نیوز سے منسلک صحافی و تجزیہ کار عارفہ نور کہتی ہیں کہ ’شہباز شریف خود کہہ چکے ہیں کہ اگر اتحادی حکومت بنی تو وزارتِ اعظمیٰ کے امیدوار کا فیصلہ مشاورت سے ہو گا۔‘

پاکستان مسلم لیگ ن اور پاکستان پیپلز پارٹی کے اتحاد پر عارفہ نور کہتی ہیں کہ ’ایسا لگ رہا ہے کہ یہ خود سے نہیں بلکہ کسی کے کہنے پر ساتھ آ رہے ہیں۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں