ظاہری کشش یا اندرونی خوبصورتی۔۔۔ لوگ زیادہ کس چیز سے متاثر ہوتے ہیں؟
جتنی توجہ اور اہمیت ظاہری خوبصورتی کو دی جاتی ہے اور جتنی آسانی سے پہلی نظر میں لوگ کسی کو پسند کرلیتے ہیں، اس سے بظاہر تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے ظاہری خصوصیات پیار ڈھونڈنے میں سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہیں۔
مگر جہاں ظاہری کشش اپنی اہمیت رکھتی ہے، وہیں یہ بات بھی اٹل ہے کہ اصل میں لوگ آپ کی اندرونی خوبصورتی کی وجہ سے آپ کی جانب متوجہ ہوتے ہیں۔
جب لوگوں سے مختلف سروے کے دوران پوچھا گیا کہ وہ اپنا ساتھی چنتے وقت کن خصوصیات کو مدِنظر رکھتے ہیں تو ظاہری شکل اور جنسیت کی اہمیت درمیانی درجے کی پائی گئیں جبکہ مادی کامیابیاں، مالی تحفظ اور ایک اچھے گھر کا مالک ہونا، کم سے کم اہم پرکشش خصوصیات میں سے ہیں
جسمانی کشش کے برعکس، رضامندی، سماجی طور پر باآسانی گُھل مل جانا، اپنی بات منوانا اور ذہانت جیسی خصوصیات کو ہم جنس اور مختلف جنس والے جوڑے اپنے ساتھی میں تلاش کرتے ہیں۔
گریگ ویبسٹر امریکہ کی فلوریڈا یونیورسٹی میں نفسیات کے پروفیسر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اس طرح کے سروے کے نتائج 100 فیصد درست نہیں ہوتے کیونکہ اکثر سماجی دباؤ کی وجہ سے ایسے جوابات دینے کا رجحان جو ہمارے خیال میں ہمیں دوسروں کی نظروں میں اچھا بناتا ہو زیادہ ہوتا ہے اور ہو سکتا ہے یہ سروے کے نتائج پر بھی اثرانداز ہو رہے ہوں۔
لیکن اس کے باوجود، لوگ عام طور پر کہتے ہیں کہ وہ ظاہری شکل پر ذہانت جیسی خصوصیات کو ترجیح دیتے ہیں۔
لیکن جب حقیقی زندگی میں ساتھی کے انتخاب کا موقع آتا ہے تو کیا تب بھی شکل سے زیادہ لوگ شخصیت پر دھیان دیتے ہیں؟
جیس ایلڈرسن کا خیال ہے کہ حقیقتاً ایسا ہوتا ہے۔ ایلڈرسن ڈیٹنگ ایپ سو سنکڈ (So Syncd) کے شریک بانی ہیں جس میں صارفین کو شخصیت کی خصوصیات کی پیمائش کے لیے سائیکومیٹرک ٹیسٹ مکمل کرنا پڑتا ہے۔
بی بی سی فیوچر کو دستیاب 1,000 سے زیادہ صارفین کے نمونے میں سے تقریباً 90 فیصد نے شخصیت کو شکل پر ترجیح دی ہے تاہم کسی کی شخصیت کو جانچنا مشکل ہو سکتا ہے۔
سائیکومیٹرک ٹیسٹ، جو عام طور پر سوالنامے کی شکل میں ہوتے ہیں، کئی دہائیوں سے نفسیات میں لوگوں کی شخصیات کا اندازہ لگانے کے لیے استعمال ہوتا آرہا ہے۔
ماہر نفسیات اکثر بگ فائیو ٹیسٹ کا استعمال کرتے ہیں، جو لوگوں کو پانچ خصلتوں پر جانچتا ہے جس میں نئے تجربات کو کھلے دل سے تسلیم کرنا، دیانتداری، ایکسٹراورشن (وہ لوگ جو ملنسار، بات کرنے والے، اور زور آور ہوتے ہیں) حد سے بڑھنے، رضامندی اور جذباتی استحکام شامل ہیں۔
یہ پانچ خصلتیں کافی عام سمجھی جاتی ہیں لیکن بگ فائیو تنقید سے ماورا نہیں۔
ویبسٹر سمجھتے ہیں کہ صرف پانچ خصلتوں کو دیکھنا اس بات کا محدود نظریہ پیش کرتا ہے کہ لوگ کس چیز کی جانب باآسانی متوجہ ہوتے ہیں۔
ان خامیوں سے قطع نظر سائیکومیٹرک ٹیسٹ لوگوں کے درمیان مماثلت اور فرق کو ظاہر کر سکتے ہیں اور لوگوں کی شخصیتوں کی واضح تصویر پیش کر سکتے ہیں اور ہماری شخصیات کے کچھ حصے اس بات کے بہتر اشارے دے سکتے ہیں کہ آیا ہم سنجیدہ تعلقات کے لیے کتنے موزوں ہیں۔
بگ فائیو میں سے، رضامندی، جو اس بات کا اشارہ ہے کہ کوئی شخص کتنا خیال رکھنے والا اور ہمدرد ہے، ساتھی کے چناؤ کے ابتدائی مرحلے میں دونوں جنسوں کے لیے ایک مضبوط کردارادا کرتی ہے۔
ویبسٹر کا کہنا ہے کہ ایک اچھا انسان ہونا کسی بھی رشتے کو طویل مدت تک قائم رکھنے کے لیے ناگزیر ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ساتھیوں کے درمیان اتفاق ہونا ایک قسم کی ضرورت ہے۔ ویبسٹر کا مزید کہنا کہ کسی ایسے شخص کے ساتھ تعلقات شروع کرنا جس کے بارے میں آپ کو لگتا ہے کہ رحم دل نہیں، پریشانی کا باعث بن سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ہماری اپنی اور دوسروں کی شخصیتوں کے بارے میں ہماری رائے ہمارے تصورات سے تشکیل پاتی ہے۔ مثلاً وہ لوگ جو دوسروں سے آسانی سے راضی ہوجاتے ہیں، وہ دوسروں کو مہربان اور دوستانہ دیکھتے ہیں اور ہم ان لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو ہمارے جیسی اقدار رکھتے ہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہم اپنے ہی جیسے لوگوں سے تعلقات استوار کرنا پسند کرتے ہیں۔
امریکہ میں مشیگن یونیورسٹی کے ٹیری اوربچ اور الینوائے سٹیٹ یونیورسٹی کی سوسن سپریچر ماہر عمرانیات ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی خصوصیات جن کا تعلق شناسائی سے ہے، جیسے کہ دوسرا شخص جسمانی اور جینیاتی طور پر ہم سے کتنا ملتا جلتا ہے، وہ ہمارے کتنے قریب رہتا ہے، اور کیا ہم ان کے دوستوں کو قبول کرتے ہیں، ثابت کرتا ہے کہ مماثلت اتنی اہم کیوں ہے۔
ایسے جوڑے جو دیانتداری اور کھلے پن کی بگ فائیو شخصیتی خصوصیات میں اعلیٰ سطح کی مماثلت رکھتے ہیں، وہ دوسرے جوڑوں کی نسبت زیادہ آسانی سے مسائل کو حل کرپاتے ہیں اور روزمرہ کے کاموں کو منظم کرنے کی بہتر صلاحیت رکھتے ہیں۔
یونیورسٹی آف مینیسوٹا، منیپولس کے ایلن برشائیڈ آور نیویارک کی روچیسٹر یونیورسٹی کے ہیری ریڈ اس بات سے متفق ہیں کہ کشش کا سب سے بنیادی اصول ہے کہ ہم ایسے ساتھی کی تلاش کرتے ہیں جن میں ہماری اپنی شخصیت سی ملتے جلتے پہلو ہوں جیسے ظاہری شکل، جغرافیہ اور سماجی گروہوں کا اشتراک۔
ایلڈرسن، جن کی ایپ ایسے لوگوں کو ملاتی ہے جن کی پروفائلز آپس میں میل کھاتی ہیں، کہتے ہیں کہ یہ بات سمجھ میں آنے والی ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے ہیں جو کم از کم ہم سے تھورے بہت مختلف ہوں۔
ان کا کہنا ہےکہ ایسے پھر ایک مضبوط ٹیم بنتی ہے اور اس رشتے کے چلنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں لیکن پھر آپ کو اس قسم کی قربت کی بھی ضرورت ہوتی ہے جو آپ کو ساتھ رکھے۔
ڈیٹنگ ایپ ’سو سکنڈ‘ (So Syncd) میں استعمال ہونے والا سائیکومیٹرک ٹیسٹ بگ فائیو جیسا نہیں مگر وہ بھی صارفین سے اس سے ملتے جلتے سوالات پوچھتا ہے جیسے کہ وہ باہر جانا کتنا پسند کرتے ہیں یا اگر وہ آسانی سے جذباتی روابط بنا لیتے ہیں۔
ایلڈرسن کا کہنا ہے کہ ہم ایسے لوگوں کی جوڑیاں بناتے ہیں جن کے پاس ایک مضبوط تعلق قائم کرنے کے لیے کافی مماثلت ہوتی ہے مگر ان کی شخصیات میں اتنا فرق بھی ہو کہ ان کے درمیان کشش برقرار رہے۔
ویبسٹر کا کہنا ہے کہ تعلقات میں، دیگر پرکشش خصلتوں کے ساتھ اگر آسانی سے راضی ہونے والی عادت بھی ہو تو ایسے میں لوگوں کی بہترین صلاحیت باہرآ سکتی ہے۔
سماجی ماہر نفسیات انجیلا برائن اور امندا مہافے کے ساتھ مل کر ایک مطالعہ میں، ویبسٹر نے سماجی، جسمانی اور مالی طور پر غالب لوگوں پر تجزیہ کیا اوریہ بھی دیکھا کہ ان کی دوسروں کے ساتھ راضی رہنے اور ان کو راضی رکھنے کی قابلیت کا ان کے پرکشش سمجھے جانے پرکیا اثر پرتا ہے۔
ویبسٹر کا کہنا ہے کہ لوگ ایسا ساتھی ڈھونڈتے ہیں جو سماجی، جسمانی یا مالی طور پر غالب ہوں لیکن ضروری نہیں کہ ان کا یہ غلبہ اپنے ہی ساتھی کی طرف ہو۔
انھوں نے مزید کہا کہ اگر یہ غلبہ رضامندی کے ساتھ ہو تو یہ ایک دلکش امتزاج بن جاتا ہے۔
ویبسٹر کہتے ہیں کہ دوسروں پر غلبہ حاصل کرنے یا ان کو مرعوب کرنے کے صلاحیت ہونا الگ بات ہے لیکن سوال یہ ہے کہ کیا آپ ان وسائل کو اپنے رومانوی ساتھی کے ساتھ بانٹنے کے لیے تیار ہیں؟
ان کا خیال ہے کہ جب بات آئیڈیئل ساتھی تلاش کرنے کی آتی ہے تو ہماری دوسروں کے ساتھ راضی رہنے کی صلاحیت ہماری شخصیت کے دوسرے عوامل کو فائدہ پہنچاتی ہے اور اکثر مہربان واقعی آپ کے لیے فائدہ مند ہو سکتا ہے۔