لیکن ناصرف حماس کے ارکان بلکہ سینیئر اسرائیلی حکام دونوں اس نوعیت کے دعوؤں کو مسترد کرتے ہیں اور انھیں ’بے بنیاد‘ قرار دیتے ہیں۔
مگر اس دعویٰ کی حقیقت کیا ہے، اسے کس بنیاد پر اٹھایا گیا اور حماس کی عسکری تاریخ میں کس موڑ پر یہ شبہ پیدا ہوا؟
حماس کی تشکیل
واضح رہے کہ سنہ 1987 میں قائم ہونے والی اسلامی مزاحمتی تحریک یا حماس راتوں رات نمودار نہیں ہوئی بلکہ اس کی تشکیل کی ایک طویل تاریخ تھی۔ اس عمل کو دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے:
حصہ اول: فلسطینی علاقوں میں تحریک کی جڑیں، جس کی پہلی علامات 1940 کی دہائی کے وسط میں غزہ، یروشلم کے علاقے شیخ جراح اور دیگر شہروں میں اخوان المسلمون کی پہلی فلسطینی شاخوں کے قیام کے ساتھ نمودار ہوئیں۔
دوسرا حصہ: سنہ 1967 کی جنگ میں عرب ممالک کی شکست کے بعد اس گروہ کے عرب شیخوں اور قائدین کے ساتھ اخوان المسلمین کے نوجوانوں کے درمیان اختلاف اور نوجوانوں میں منظم عسکری سرگرمیوں سے متعلق خیالات کی پہلی علامات کا ظہور ہے۔
مؤرخین کے مطابق فلسطینی علاقوں میں اخوان المسلمون کی سرگرمیوں کا ایک بڑا حصہ مذہبی، سماجی اور معلوماتی نوعیت کا تھا اور اس کی توجہ مذہبی اور سماجی اداروں اور مساجد کی تعمیر پر مرکوز تھی۔ فلسطینی علاقوں میں اپنی سرگرمیوں کے دوران اخوان المسلمین نے واضح کیا کہ اس کی توجہ عسکری نہیں بلکہ فلسطینیوں کی فکری، ثقافتی اور روحانی تربیت پر تھی۔
اسی تناظر میں حماس کے سینیئر رہنماؤں میں سے ایک خالد مشعل بتاتے ہیں 1950 کی دہائی کے آخر میں اور 1960 کی دہائی کے دوران کمیونسٹ رہنما فلسطین میں برسراقتدار آئے اور اسلام پسندوں کو مشکل اور دباؤ والے حالات کا سامنا کرنا پڑا۔
مشال کے مطابق اسلام پسندوں کی اس خطے میں موجودگی کا خیر مقدم نہیں کیا گیا اور ان کے لیے ملازمت کا کوئی موقع نہیں تھا۔
اس مضمون کے اگلے حصے میں ہم حماس کی تشکیل کا باعث بننے والے حالات کے دوسرے دور پر بات کریں گے، جس کا تعلق 1967 کے بعد 1987 میں اس کے باضابطہ قیام تک کے عرصے سے ہے۔
’ریڈ ٹاور‘: ’مسلح جنگ‘ کی نشانیاں
ایسا لگتا ہے کہ ’اسرائیل کے ساتھ جدوجہد‘ کی شکل اور طریقہ کار کو تبدیل کرنے والے عوامل میں سے ایک 1967 کی جنگ میں عرب ممالک کی شکست تھی۔
حماس کے پہلے ترجمان اور اس گروہ کے سابق رہنماؤں میں سے ایک ابراہیم غوثہ نے ’ریڈ ٹاور‘ نامی اپنی یادداشتوں میں اخوان المسلمین کے نوجوانوں پر اس شکست کے اثرات کے بارے میں وضاحت کی ہے۔
غوثہ نے لکھا ہے کہ اردن میں اخوان المسلمون کے رابطہ کار محمد عبدالرحمٰن خلیفہ نے اس وقت ایک اسلامی کانفرنس منعقد کی تھی جس کے نتائج سے غوثہ اور اس نسل کے نوجوانوں کو مطمئن نہیں کیا گیا تھا، کیونکہ اس نے واضح طور پر ’فلسطین کے مستقبل کا حل اور جہادی اسلام کی تشکیل شروع نہ کرنے کی وجوہات کو پیش نہیں کیا تھا۔‘
کتاب میں کہا گیا ہے کہ اس نے اخوان المسلمون کے نوجوانوں (جو اسرائیل سے لڑنے کے خواہشمند تھے) کو گروپ کے اندر ایک ’اصلاحی تحریک‘ پر کام شروع کرنے اور گروپ کے لیڈروں کے علم کے بغیر خود کو مسلح کرنے پر اُکسایا۔
اس کے بعد انھوں نے خفیہ طور پر الفتح تحریک سے اتفاق کیا کہ اردن میں اخوان المسلمون کے نوجوان ارکان کو فوجی تربیت دی جائے اور انھیں مسلح کارروائیوں کے لیے تیار کیا جائے۔
یہ تربیتی مشقیں 1968 میں شروع ہوئیں اور 1970 میں اسی وقت ختم ہوئیں جب اردن میں ’بلیک ستمبر‘ کے واقعات پیش آئے تھے، کیونکہ جیسا کہ غوثہ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اخوان المسلمین کے رہنما اپنے اندر ایک ’اصلاحی تحریک‘ کے وجود سے آگاہ ہو گئے تھے۔
اِن ادوار کے دوران اخوان المسلمون نے ’روایتی رہنماؤں‘ اور ’نوجوان نسل‘ کے درمیان شدید تنازعات اور اختلافات دیکھے۔ نوجوانوں نے اسرائیل کے خلاف مسلح جدوجہد کے لیے دباؤ ڈالا، جبکہ گروپ کے لیڈروں یعنی روایتی رہنماؤں کا اصرار تھا کہ ’حکومت بنانے‘ کو اسرائیل کے ساتھ جنگ پر ترجیح دینی چاہیے۔
اس کی وجہ سے گروپ کے کچھ اراکین نے اس کو چھوڑ دیا اور ’قومی اور مسلح تحریکیں تشکیل دیں جو مسلح جدوجہد کے لیے تیار تھیں۔‘ ان پیش رفتوں نے اخوان المسلمون پر دباؤ بڑھایا جو خود متعدد دشمنوں اور دیگر فلسطینی قومی اور نظریاتی تحریکوں کے غلبے کی وجہ سے کمزور پوزیشن میں تھی۔
یاسر عرفات کا سامنا کرنے کے لیے حماس کو بنایا گیا؟
1970 اور 1980 کی دہائیوں میں اسرائیل اور اس وقت کے اسلام پسند رہنماؤں کے درمیان ’تعلقات کے شبے‘ کی وجہ سے اس تحریک نے جنم لیا۔
مصر کے صدر حسنی مبارک ان لوگوں میں سے ایک تھے جنھوں نے یہ الزام لگایا تھا، انھوں نے حماس تحریک کو ’اسرائیلی تخلیق‘ قرار دیا تھا۔
مصری فوج کے ساتھ ایک ملاقات میں مبارک کی ایک پرانی ویڈیو ہے جس میں وہ یہ کہہ رہے ہیں کہ ’اسرائیل نے حماس کو پی ایل او تنظیم کے خلاف کام کرنے کے لیے بنایا۔‘ ان الفاظ میں وہ فلسطین لبریشن آرگنائزیشن (PLO) کا حوالہ دیتے ہیں، جس کے سربراہ یاسر عرفات تھے۔
یہ الزام صرف حسنی مبارک نے نہیں لگایا تھا بلکہ امریکی ایوان نمائندگان کے سابق رکن رون پال جو کہ 1988 میں صدارتی انتخابات کے لیے امیدوار بھی تھے، نے 2009 میں امریکی کانگریس میں کہا تھا کہ ’اگر آپ تاریخ میں پیچھے جائیں تو آپ کو معلوم ہو گا کہ اسرائیل حماس کو تشکیل دینا چاہتا تھا جس کا مقصد یاسر عرفات کا سامنا کرنا تھا اور اس (اسرائیل) نے اسے بنانے میں مدد کی۔‘
سابق فلسطینی وزیر اور 1993 میں اوسلو کے خفیہ مذاکراتی پینل کے رکن، حسن عسفور نے ستمبر 2023 میں بی بی سی کو بتایا تھا کہ ’حماس ایک امریکی منصوبے کے تحت اور بعض عرب ممالک اور اسرائیل کے درمیان ایک معاہدے کے تحت پی ایل او کی ایک متوازی تنظیم کے طور پر قائم کی گئی تھی۔‘
ہم نے اس معاملے پر قطر یونیورسٹی کے بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر احمد جمیل اعظم سے بات کی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ الزامات نئے نہیں ہیں اور ’ان الزامات میں خود اسرائیلیوں نے بھی کردار ادا کیا ہے تاکہ فلسطینیوں کے درمیان اندرونی تقسیم کے دعوؤں کو ہوا دی جائے۔‘
احمد جمیل اعظم نے بی بی سی کو حسنی مبارک کے کئی دہائیوں پہلے کے بیانات کے بارے میں بتایا کہ ’مصری حکومت کے موقف اپنے مفادات کے مطابق بدلتے رہے۔۔۔ اور ہو سکتا ہے کہ یہ الزامات مصری حکومت کی اخوان المسلمون سے دشمنی کی وجہ سے لگائے گئے ہوں۔ حماس کے ساتھ کشیدگی۔۔۔ حسنی مبارک اور صدر ان کے مخبر عمر سلیمان کے بعض ادوار میں حماس کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے، اس حد تک کہ انھوں نے غزہ کی پٹی میں ہتھیاروں کا داخلہ ممکن بنایا۔‘
یہ کہا جا سکتا ہے کہ اسرائیل کے ساتھ حماس کے ’حرام تعلقات‘ کا الزام 1967 کی جنگ کے بعد کے ادوار میں لگایا گیا تھا، جب اخوان المسلمون نے فلسطینی علاقوں میں ’مساجد کا دور‘ شروع کیا تھا۔
خالد ہاروب نے کتاب ’حماس: سیاسی فکر اور عمل‘ میں لکھا ہے وہ ’ان سر زمینوں میں مساجد کی تعمیر، نوجوان نسل کو مربوط کرنے اور انھیں متحرک کرنے اور صہیونیوں کا مقابلہ کرنے کے لیے اس گروہ کی تعلیمات کو سرایت کرنے اور ان پر توجہ مرکوز کرنے سے جانا جاتا ہے۔‘
اور یہ تحریک سنہ 1975 تک جاری رہی۔
ہاروب اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ اسلام پسندوں نے 1967 کی جنگ کے بعد جو موقع ملا اس کا بھرپور فائدہ اٹھایا، کیونکہ اسرائیل کے ساتھ جنگ میں عربوں کی شکست کے ساتھ ہی ناصریوں کا قوم پرستانہ نظریہ بُری طرح کمزور ہو گیا تھا، اور ان کے لیے خلا پیدا ہو گیا تھا۔ اسلامی نعروں کو متبادل کے طور پر اس کو تیار کیا گیا تھا۔
خالد ہاروب لکھتے ہیں کہ ’اگلا تنظیمی مرحلہ 1970 کی دہائی کے وسط میں شروع ہوا اور 1980 کی دہائی کے آخر تک جاری رہا۔ اس مرحلے میں اسلامی طلبہ کور، کلب، خیراتی انجمنیں اور دیگر ادارے بنائے گئے، جو نئے اور نوجوان اسلامی گروہوں کے درمیان ملاقات اور مباحثے کے مراکز بن گئے۔‘
’میں شن بیٹ کا سربراہ تھا اور میں نے دیکھا کہ حماس کیسے بنی‘
1981 میں نیو یارک ٹائمز نے ایک مضمون شائع کیا جس میں اخبار نے اُس وقت غزہ کے فوجی گورنر اسحاق سیگیو سے بات کی۔ انھوں نے اخبار کو بتایا تھا کہ ’اسلامی بنیاد پرستوں کو اسرائیل سے امداد ملتی ہے۔۔۔ اسرائیلی حکومت نے مجھے فنڈز فراہم کیے ہیں، اور فوجی حکومت (اس وقت فلسطینی علاقوں کا انتظام سنبھالنے والی) مساجد کی تعمیر میں مدد کر رہی ہے۔‘
اس مضمون کے مطابق ان فنڈز کا مقصد فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کی حریف قوتوں کو مضبوط کرنا تھا۔
حال ہی میں اسرائیلی ٹیلی ویژن پر نشر ہونے والے ایک انٹرویو میں، اسرائیل کی سکیورٹی ایجنسی شن بیٹ کے سابق سربراہ یاکوف پیری نے کہا کہ ’میں 1988 سے 1995 تک ایجنسی کا سربراہ رہا۔ میں نے حماس کی تحریک کو ابھرتے ہوئے دیکھا اور مجھے یاد ہے کہ اس وقت ہمارا اندازہ یہ تھا کہ یہ ایک سماجی تحریک کی طرح تھی۔۔۔ اس نے لوگوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کام کیا۔۔۔ بہت سے اسرائیلیوں نے شن بیٹ پر الزام لگایا کہ اس نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے حریف کے طور پر حماس کے سیاسی ڈھانچے کی تشکیل میں مدد کی، لیکن یہ درست نہیں تھا۔‘
حماس کے بانی شیخ احمد یاسین کے 1999 میں الجزیرہ ٹی وی کے ’شہید روزگار‘ پروگرام میں انٹرویو دیتے ہوئے یہ بات ظاہر ہوئی کہ ان کے خیال میں اس وقت اسرائیل کو بجٹ کا ’مسئلہ‘ نہیں تھا۔ اس انٹرویو میں انھوں نے تصدیق کی کہ اسرائیل اس وقت ایک قابض طاقت کے طور پر تنخواہیں ادا کر رہا تھا۔
انھوں نے اپنے انٹرویو میں مزید کہا کہ ’اسرائیل نے ایسے ملازمین کو اجرت اور پنشن دینا شروع کر دی جو کام پر واپس آنے پر راضی ہو گئے، پہلے بغیر تنخواہ اور پھر تنخواہ کے ساتھ۔‘
یاسین نے یہ بھی کہا کہ اسرائیل نے غزہ میں قبضے کی مدت کے بعد زندگی کو معمول پر لانے کے مقصد سے تنخواہیں دی ہیں۔ ’مجھے ایک استاد کے طور پر اپنے کام کے لیے ماہانہ 240 اسرائیلی پاؤنڈ ملتے ہیں۔۔۔ اور 40 پاؤنڈ ایک مسجد کے مبلغ کے طور پر۔‘
’غیر ارادی مفادات کا ٹکراؤ‘
بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے عبرانی یونیورسٹی کے ٹرومین انسٹیٹیوٹ کی محقق رانی شیکڈ نے کہا کہ اس وقت اخوان المسلمون کو اسرائیل کے لیے خطرہ نہیں سمجھا جاتا تھا۔
شیکڈ جو خود 1970 کی دہائی میں شن بیٹ تنظیم کے افسر تھے، کہتے ہیں کہ اسرائیل نے کبھی بھی اسلام پسند گروپوں کی مالی معاونت نہیں کی ہے اور اس کی مدد صرف اجازت نامے دینے تک محدود رہی ہے، اسلام پسند گروپوں کو رقم نہیں دی گئی۔
رانی شیکڈ اور احمد اعظم دونوں ان گروہوں کی ’سپورٹ‘ کرنے اور ان کی سرگرمیوں سے ’آنکھیں موڑنے‘ کے درمیان فرق کرنے پر متفق ہیں۔ دونوں محققین کا خیال ہے کہ اسلامی گروہوں کا اسرائیل کے ساتھ تصادم سے گریز درحقیقت ایک ایسے موڑ کی طرف لے گئے تھے جہاں دونوں فریقوں کے مفادات ’غیر ارادی‘ تھے۔ یہیں پر اسرائیل نے ان گروہوں کی سرگرمیوں پر آنکھیں بند کر لیں، اور یہی وہ نقطہ نظر تھا جسے اسرائیل کی طرف سے اخوان المسلمون کی ’حمایت‘ سے تعبیر کیا گیا۔
ایک برطانوی مصنف مائیکل ڈیمپر نے 1992 میں شائع ہونے والی ’فلسطین میں اسلامی اوقاف کی طرف اسرائیل کی پالیسی‘ نامی کتاب میں اسلامی برادریوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی نوعیت کے بارے میں اور اس سوال کے بارے میں کہ آیا اسرائیل نے مساجد کی تعمیر کی مالی حمایت کی یا صرف اجازت نامے جاری کیے سے متعلق لکھا ہے۔
وہ لکھتے ہیں کہ 1967 میں فوجی گورنر کے پہلے اقدامات میں سے ایک اسرائیلی افسر کی غزہ کی پٹی میں مذہبی امور کے انچارج کی تقرری تھی، جس کا کام فوجی کمانڈ اور اسلامی اور مسیحی گروہوں کے درمیان رابطہ قائم کرنا تھا۔
مصنف نے کہا کہ 1970 کی دہائی کے اواخر سے 1980 کی دہائی کے وسط تک، اسرائیل نے فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے خلاف توازن پیدا کرنے کے مقصد سے مساجد کی تعمیر کی اجازت جاری کی۔ لیکن انھوں نے مسجد بنانے والوں اور اسرائیل کے درمیان مالیاتی تعلقات کا ذکر نہیں کیا۔
’ہم نے حماس کو کبھی مالی امداد نہیں دی‘
اسرائیلی حکام غزہ کی پٹی میں حماس کی توسیع کے دوران تحریک کے ساتھ نمٹنے کے بارے میں کسی ایک بیانیے پر متفق نہیں رہے۔ جب کہ کچھ سابق اسرائیلی حکام نے ’حماس کی حمایت اور تخلیق‘ پر افسوس کا اظہار کیا۔
سنہ 2009 میں نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں شالوم ہراری کا حوالہ دیا گیا، جو حماس کی تشکیل کے وقت غزہ میں اسرائیلی ملٹری انٹیلیجنس افسر تھے۔
اس میں ان کے حوالے سے کہا گیا کہ ’حماس کی کسی بھی طرح حمایت نہیں کرتے ہیں، اور اسرائیل نے کبھی بھی حماس کو مسلح نہیں کیا۔۔ اسلام پسندوں کے بارے میں انتباہات تھے جنھیں نظر انداز کیا گیا، لیکن یہ غفلت اور دور اندیشی کی وجہ سے تھا، نہ کہ اسلام پسندوں کی پوزیشن مضبوط کرنے کی خواہش۔‘
شیخ احمد یاسین اس مسئلے کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’اسرائیل نے تمام دیگر تنظیموں کی طرح اسلام پسند تنظیموں کی نگرانی کی۔۔۔ اور معاشرتی شعبوں کے اندر توازن قائم کرنے کی کوشش کی۔۔۔ ان سب کو اپنے طریقے سے ترقی کرنے کی اجازت دی اور جب وقت آیا تو انھیں مار کر پھینک دیا۔‘
’نتیجہ قابو سے باہر ہے‘
جو لوگ اسرائیل پر حماس کو بنانے کا الزام لگاتے ہیں، وہ خاص طور پر 1970 کی دہائی میں غزہ میں ’اسلامک کمیونٹی‘ اور ’اسلامک اسمبلی‘ کے قیام کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ پچھلی صدی میں اس دور کے اخوان المسلمون کے بیانیے کے مطابق اس کی تشکیل ’اسرائیلی قوانین کی چھتری‘ تلے ہوئی تھی اور یہ کہ ’ان کی سرگرمیاں صرف مذہبی پہلوؤں تک محدود تھیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ان اداروں نے قانون کی خلاف ورزی نہیں کی اور اسرائیلی حکومت کے ساتھ محاذ آرائی نہیں کی۔
تحریک حماس کے روحانی پیشوا احمد یاسین نے ’شہید روزگار‘ پروگرام میں کہا کہ ’ہم قابض قوتوں کے ساتھ جنگ میں نہیں اتر سکتے تھے۔۔۔ اور اسی وجہ سے اسلامی اداروں کا خیال آیا۔‘ سنہ 1976 میں ’اسلامک کمیونٹی‘ کا دفتر ایک مسجد میں ایک کمرہ تھا۔۔۔ اور اس کی بنیادی توجہ کھیلوں کی سرگرمیوں پر تھی۔
اسرائیلی مصنفین ایہود یاری اور زیو شیف نے 1990 میں شائع ہونے والی کتاب ’انتفادہ‘ میں لکھا کہ ’اسرائیلی سویلین کابینہ نے اسلامی تحریک کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا، جو پہلی انتفادہ کے آغاز کے ساتھ ہی پروان چڑھنا شروع ہوئی۔۔۔ اسرائیل نے مقامی کمیونٹیز میں طاقت اور اثر و رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے اور مختلف تنظیمیں قائم کر کے انھیں ان کی جگہ لینے کی اجازت دی۔
دونوں اسرائیلی مصنفین نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’اسرائیل اسلام پسندوں کو کنٹرول کرنے اور ان کی ترقی کو فلسطین لبریشن آرگنائزیشن کے اثر و رسوخ کو کم کرنے کے ایک موقع کے طور پر استعمال کرنے کے امکان کے بارے میں غلط فہمی میں تھا۔۔۔ اسرائیل کو آخر کار اپنی غلطی کا احساس ہوا، لیکن یہ بھی دیر سے ہوا۔‘
حماس کے سابق رہنماؤں میں سے ایک ابراہیم غوثہ نے اس حوالے سے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ ’یہ اخوان المسلمون یا شیخ یاسین کا قصور نہیں تھا کہ اسرائیل نے سوچا کہ غزہ میں ’اسلامی اسمبلی‘ کے قیام کی اجازت دینے سے پی ایل او میں سیکولر تحریک اور مذہبی تحریک کے درمیان توازن پیدا کریں، یہ اخوان کی طرف لے جائے گا۔۔۔ اگر صیہونیوں نے اپنے حساب کتاب میں غلطی کی تو اس کا نتیجہ وہ خود دیکھ چکے ہیں۔‘
’حماس: اس کی اصلیت اور سیاسی افکار‘ میں خالد ابو العمارین کہتے ہیں کہ اسرائیلی حکام نے اسلامی تحریک کو ادارے اور تنظیمیں بنانے کی اجازت نہیں دی بلکہ مختلف گروہوں کو کلب، انجمنیں، یونینیں بنانے کی بھی اجازت دی۔
وہ لکھتے ہیں کہ ’1980 میں اسرائیل نے فتح تحریک کو نوجوانوں کی ایک تحریک بنانے کی اجازت دی جو سیاسی اور سماجی منظر نامے پر سرگرم تھی۔‘
1988 میں شائع ہونے والی کتاب ’Charitable Associations in the West Bank and Gaza Strip‘ کے مصنف عبداللہ ہارونی کا کہنا ہے کہ 1987 میں پہلے انتفادہ سے قبل غزہ میں انجمنوں کی تعداد 62 تک پہنچ گئی تھی، جن میں اخوان المسلمون کے پاس صرف چار تھے۔ انجمنیں، جن میں سب سے اہم جمعیت اسلامی اور جماعت اسلامی تھی۔
’غلط حساب و اندازے‘
قطر یونیورسٹی میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر احمد جمیل اعظم کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ایک تزویراتی اور حکمت عملی کی غلطی کی ہے: ’کوئی واضح حکمت عملی نہیں تھی۔۔۔ اسرائیل نے ہمیشہ اپنی افواج کی برتری پر انحصار کیا۔ مثال کے طور پر 1967 میں غزہ پر قبضے کے بعد اس نے معاشی مواقع تلاش کرنے، مقامی کمیونٹیز کی قیادت کرنے والے خاندانوں سے رابطہ کرنے اور بلدیاتی انتخابات کے انعقاد جیسے طریقوں سے کمیونٹی تک پہنچنے کی کوشش کی۔ قبضے کے طول و عرض اور اس کے نتائج کی حقیقت پسندانہ سمجھ نہیں حاصل کی۔۔۔ یہ طریقے معاشرے کو قبضے کے خلاف مزاحمت کے متبادل کے طور پر مطمئن نہیں کر سکتے۔‘
یروشلم کی عبرانی یونیورسٹی کے ٹرومین انسٹیٹیوٹ کی ایک محقق رانی شیکڈ نے بی بی سی کو بتایا کہ اس وقت غزہ کے فوجی حکمرانوں کے خوف کے باوجود غزہ کے فوجی گورنر اسحاق سیگغو نے انھیں بتایا تھا کہ ’انقلاب سے پہلے تہران کے حالات سے غزہ کی صورتحال کی مماثلت تشویشناک ہے، اور اسرائیلی حکومت کو مستقبل میں اسلامی تحریک کے خطرے کے بارے میں انتباہ کے باوجود، اس تحریک کے بارے میں صحیح ادراک نہیں تھا اور وہ اس کا سامنا کرنے میں غیر فیصلہ کن تھی۔‘
شیکڈ کا کہنا ہے کہ ’شیخ احمد یاسین نے اسرائیل کو دھوکہ دیا اور کمیونسٹوں کے خلاف موقف اختیار کر کے انھیں دھوکہ دیا، جب کہ وہ ایک نرسری بنا رہے تھے، نسلوں کی پرورش کر رہے تھے اور انھیں اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لیے تیار کر رہے تھے۔‘
اس اسرائیلی محقق کا خیال ہے کہ اسرائیل اب بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ حماس کو ختم کرنا اور فلسطینیوں کے لیے روزگار کے مواقع اور معاشی فوائد پیدا کرنا استحکام اور سلامتی کا باعث بنے گا، ’لیکن یہ سچ نہیں ہے.۔۔۔ اگر حماس کا خاتمہ ہو گیا تو ایک نئی قومی مزاحمتی تحریک ابھرے گی۔‘
زیرو پوائنٹ: اسرائیل کے ساتھ جنگ
جیسا کہ حماس کے پہلے ترجمان ابراہیم غوثہ نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ اخوان المسلمون کے اسرائیل کے خلاف لڑنے کے انداز میں ایک بنیادی تبدیلی 1983 میں اس وقت ہوئی جب اس گروپ نے اُردن میں ایک کانفرنس منعقد کی اور فیصلہ کیا کہ ’اس تنظیم کے ارکان کو اسرائیل کے خلاف جنگ میں حصہ لینا چاہیے۔ مغربی کنارے اور غزہ انھیں فوجی تنظیم شروع کرنے کی اجازت دیں اور حالات بہتر ہوتے ہی یہ کام شروع کریں۔
اس کانفرنس کے ایک سال بعد اسرائیل نے غزہ کی پٹی میں پہلے فوجی مرکز پر حملہ کیا اور شیخ یاسین کی قیادت میں اس کے تمام ارکان کو گرفتار کر لیا۔ اس کے گھر سے 80 ہتھیار ملے ہیں، جو اس نے پہلے اسرائیل کے خلاف فوجی کارروائی کی تیاری کے لیے خریدے اور محفوظ کیے تھے۔
لیکن یاسین کو صرف چند ماہ کے لیے حراست میں رکھا گیا تھا اور اسے 1985 میں اسرائیل اور پاپولر فرنٹ فار لبریشن آف فلسطین – جنرل کمانڈ کے درمیان قیدیوں کے تبادلے کے ایک بڑے معاہدے کے تحت رہا کیا گیا تھا، جس نے تین اسرائیلی فوجیوں کو گرفتار کیا تھا۔
اس وقت، اگرچہ اسلام پسندوں کو اسرائیل کی طرف سے بڑا دھچکا لگا تھا، خاص طور پر اس حقیقت کو مدنظر رکھتے ہوئے کہ تحریک کا مسلح ونگ ابھی نوزائیدہ تھا اور بہت کم تجربے اور محدود صلاحیتوں کے ساتھ اس نے کام شروع کیا تھا۔ لیکن تحریک منہدم نہیں ہوئی، کیونکہ اس کا نظریہ طاقتور تھا اور اس کی وجہ سے وہ اپنے آپ کو زندہ کرنے کے قابل تھی۔ اس طرح عسکری سرگرمیاں دوبارہ شروع کر کے اور آزمائش اور غلطی کے ذریعے تجربہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہوئے ’فلسطینی مجاہدین‘ عسکری تنظیم اور ’مجد‘ سکیورٹی سروس تشکیل دی گئی۔
لیکن ایسا لگتا تھا کہ اسرائیل نے ابھی تک فلسطینی علاقوں کے اندر اور باہر اپنے انضمام اور توسیع کے طریقوں کو تبدیل کرنے کی اہمیت کو نہیں سمجھا اور اسی کی وجہ سے اسلام پسند اپنی تنظیم سازی کرنے میں کامیاب ہو گئے، جس کی وجہ سے وہ بالآخر ایک ایسے مقام پر پہنچے جب ’مسلح جدوجہد‘ کے عوامی اعلان کے ساتھ ’اسلامی مزاحمتی تحریک‘ کی تشکیل کا اعلان کیا گیا۔
حماس نے 14 دسمبر 1987 کو پہلے انتفادہ کے آغاز کے چند دن بعد ہی کام شروع کیا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ تحریک حماس کی تاریخ ابہام سے جڑی ہوئی ہے اور اس کے بہت سے مراحل میں شواہد کی کمی ہے، یہ ایک حقیقت ہے کہ اس گروہ کے بہت سے ارکان نے اخوان المسلمون سے متعلق سیاسی اور سماجی پس منظر کو سکیورٹی کے حالات اور سیاسی اور سماجی پس منظر سے منسوب کیا ہے۔ اور فلسطینی علاقوں میں تحریک کی تشکیل کا آغاز کیا ہے۔
بہر حال، اس سوال کا جواب دینا آسان ہو سکتا ہے کہ کیا حماس کو اسرائیل نے ’بنایا‘ لیکن اس کے لیے اس سوال میں موجود تضاد پر غور کرنا ہو گا۔ اسرائیل نے حماس کو ’تخلیق‘ نہیں کیا، لیکن رانی شیکد اور احمد جمیل اعظم جیسے محققین کے مطابق اخوان المسلمون کی تحریک کے اندر سے اس کی تشکیل کے طویل عرصے سے متعلق پیچیدہ حالات، جو قابض افواج کی موجودگی سے پیدا ہوئے اور فلسطینی تنازعات نے ایک ایسی صورتحال پیدا کی جو بالآخر حماس کی ’تخلیق‘ کا باعث بنی۔
لیکن غزہ میں اسلامی تحریک کا تاریخی پس منظر اور جن حالات میں یہ پروان چڑھی، اس کو دیکھے ہوئے ایک اسرائیلی بند کمرے میں اس کی ’تخلیق‘ کا الزام اور حتیٰ کہ اسے ایک اسرائیلی ’پروجیکٹ‘ کے طور پر فنانس کرنے کا نظریہ بھی درست نہیں ہے۔
حماس کی تشکیل ’درحقیقت ایک اسرائیلی منصوبہ تھا۔۔۔‘
ماضی میں متعدد مواقع پر یہ دعویٰ بارہا کیا جاتا رہا ہے۔ اور گذشتہ سال اکتوبر میں حماس کے اسرائیل پر حملوں اور اس کے بعد غزہ پر اسرائیلی فوج کے زمینی اور فضائی حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں فلسطینیوں کی ہلاکت کے بعد ایک مرتبہ پھر یہ دعویٰ دہرایا گیا ہے۔
حماس کی اصلیت اور اسرائیل کے ساتھ اس کے مبینہ تعلق سے متعلق یہ دعویٰ شاید بہت سے لوگوں کے لیے حیران کُن ہو، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ الزام بہت پرانا ہے۔ ایک سابق فلسطینی وزیر نے حالیہ جنگ شروع ہونے سے تقریباً ایک ماہ قبل بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے اس معاملے کو اٹھایا جس کے بعد بہت سے غیر ملکی اخبارات اور سوشل نیٹ ورکس پر معروف شخصیات نے اسی دعوے کو مختلف الفاظ میں دہرایا ہے۔
درحقیقت یہ دعویٰ کئی دہائیوں قبل مصر کے سابق صدر حسنی مبارک نے عوامی سطح پر کیا تھا۔ اس کے علاوہ امریکی کانگریس کے ایک ریپبلکن سینیٹر نے اس بارے میں بات کی تھی جبکہ اسرائیل کی سکیورٹی ایجنسی ’شن بیٹ‘ کے حکام نے بھی اس کی طرف اشارہ کیا تھا۔