پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وفاقی وزیر خزانہ سرتاج عزیز منگل کی شام کو 94 برس کی عمر میں وفات پا گئے ہیں۔ سرتاج عزیزسات فروری 1929 کو خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں پیدا ہوئے۔ ان کی زندگی کے ابتدائی دن پشاور، ہری پور اور اور ایبٹ آباد میں گزرے اور انھوں نے ابتدائی تعلیم بھی ہزارہ سے حاصل کی، جہاں ان کے والد بطور تحصیلدار خدمات سرانجام دے رہے تھے۔
اس کے بعد انھوں نے اسلامیہ کالج لاہور، ہیلے کالج آف کامرس اور دیگر تعلیمی اداروں سے تعلیم حاصل کی۔ سنہ 1949 میں پنجاب یونیورسٹی سے اقتصادیات کے شعبے میں ڈگری حاصل کی۔
امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں ماسٹرز کیا۔
وہ تحریک پاکستان کے کارکن تھے اور پھر مرتے دم تک پاکستان کو آگے لے جانے کے لیے متحرک رہے۔
سرتاج عزیز نے سنہ 2009 میں شائع ہونے والی اپنی سوانح عمری میں اپنی زندگی کو چار ابواب میں تقسیم کیا۔ مگر ایک باب جو اس کے بعد کا تھا وہ ان کے زندگی کے نئے پہلوؤں کو اجاگر کر گیا۔ جب سنہ 2013 میں مسلم لیگ کی حکومت آئی تو انھیں خارجہ امور جیسے شعبے کی دیکھ بھال کا فریضہ سونپا گیا۔
اس عرصے میں نہ صرف انھوں نے دنیا بھر کے اہم ممالک کے دورے کیے، وہاں پاکستان کا مؤقف رکھا بلکہ اندرونی پالیسیوں اور قانون سازی کے عمل میں بھی خاصے متحرک رہے۔
ان کی سربراہی میں بنائی گئی کمیٹی کی سفارشات پر فاٹا کو خیبرپختونخوا میں ضم کیا گیا۔ انھوں نے گلگت بلتستان اور کشمیر سے متعلق بھی وفاقی حکومت کو اہم رپورٹس مرتب کر کے پیش کیں۔
سرتاج عزیز نے اپنی زندگی کو کن چار ابواب میں بانٹا؟
اپنی کتاب ’بِٹوین ڈریمز اینڈ ریئلٹیز‘ میں انھوں نے اپنی زندگی کے چار مراحل کا تفصیل سے ذکر کیا ہے۔ وہ تحریک پاکستان کا حصہ رہے۔ مسلم سٹوڈنٹ فیڈریشن کے رہنما کے طور پر وہ بانی پاکستان قائد اعظم سے بھی ملے اور پھر پھر زندگی ایسے گزاری جیسے ان کی نصیحتیں اپنے دل سے لگا رکھی تھیں۔
انھوں نے سنہ 1950 میں حکومتی ملازمت اختیار کی۔ ان کے کریئر کے ابتدائی 20 سال یعنی سنہ 1950 سے لے کر 1970 تک وہ بطور سول سرونٹ خدمات سرانجام دیتے رہے۔
سنہ 1971 سے سنہ 1984 تک وہ انٹرنیشنل سول سرونٹ کے طور پر متحرک رہے۔ اس عرصے میں انھوں نے اقوام متحدہ، ورلڈ فوڈ کونسل، انٹرنیشنل فنڈ فار ایگریکلچر ڈویلپمنٹ اور دیگر اداروں میں کام کیا۔
اس کے بعد سنہ 1984 سے لے کر سنہ 1999 تک وہ سیاسی میدان کے شہسوار ٹھہرے۔ سرتاج عزیز نے سنہ 1984 میں وطن واپسی پر پاکستانی سیاست میں حصہ لیا اور وزیر مملکت خوراک و زراعت کی حیثیت سے وفاقی کابینہ میں شامل ہوئے۔
سنہ 1985 اور 1994 میں خیبر پختونخوا سے سینیٹر منتخب ہوئے۔ اکتوبر 1985 میں وزیر اعظم کے خصوصی مشیر برائے خوراک و زراعت مقرر ہوئے۔ جنوری 1986 میں وفاقی وزیر خوراک، زراعت و دیہی ترقی کے عہدے پر فائز ہوئے۔
اگست 1990 سے جولائی 1993 تک وفاقی وزیر خزانہ، منصوبہ بندی و معاشی امور کے وزیر بھی رہے۔
مسلم لیگ ن کی سنہ 2013 میں حکومت آنے سے قبل وہ اپنی زندگی کے چوتھے فیز میں تعلیمی شخصیت کے طور پر سامنے آئے اور نجی تعلیمی ادارے بیکن ہاؤس نیشنل یونیورسٹی کے وائس چانسلر بن گئے۔
’وہ تحریک پاکستان کی نشانی تھے‘
سرتاج عزیز اپنی کتاب میں قائد اعظم سے پاکستان بننے اور پھر ایوب خان کی کابینہ سے لے کر ضیا الحق کے دور تک اور محمد خان جونیجو سے نواز شریف اور پرویز مشرف، پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن کے دور کا احاطہ کرتے ہیں۔
سابق وفاقی وزیر احسن اقبال نے بی بی سی کو بتایا کہ سرتاج عزیز ان کے پاس تحریک پاکستان کی نشانی تھے۔ وہ آخری دم تک تمام امور میں سرگرم حصہ لیتے رہے۔ ان کے مطابق وہ ایک بہترین پالیسی ساز ہونے کے ساتھ ساتھ ایک نہایت سچے انسان تھے۔
ان کے مطابق سرتاج عزیز بہت غیر متنازع شخصیت کے مالک تھے۔ ان میں کوئی گروپ بندی نہیں تھی، جو اسائنمنٹ ملتی اسے بخوبی انجام دیتے۔ سرتاج عزیز سنہ 1993 سے سنہ 1997 تک پاکستان مسلم لیگ ن کے سیکریٹری جنرل رہے۔ ان کے ذمے معاشی اصلاحات پرعملدرآمد یقینی بنانا بھی شامل تھا۔
احسن اقبال کے مطابق سرتاج عزیز نظم و ضبط کا بہت خیال رکھتے تھے اور پارٹی کا سیکریٹریٹ بھی انھوں نے احسن انداز میں چلایا۔ سنہ 1967 میں وہ پلاننگ کی وزارت میں آئے اور پھر ملک کے لیے کئی اہم معاشی منصوبے تیار کیے۔
احسن اقبال کے مطابق پیرانہ سالی کے باوجود سرتاج عزیز کا حافظہ بہت تیز تھا- وہ 30 سال پہلے والی بات کو دن، وقت اور درست پس منظر کے ساتھ بتا دیتے تھے۔
آپ سیاستدان نہیں مگر سیاستدانوں کو آپ کی طرح کا ہونا چائیے
سرتاج عزیز کے قریبی دوست شعیب سلطان نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ سرتاج عزیز کو کہتے تھے ’آپ سیاستدان نہیں ہو، مگر جس طرح آپ کام کرتے ہیں سیاستدانوں کا بالکل آپ کی طرح کا ہونا چائیے۔ وہ بہت شش جہت شخصیت کے حامل تھے۔‘
ان کے مطابق ہمیں جب کوئی مشورہ یا رہنمائی درکار ہوتی تو ہم ان کی طرف ہی رخ کرتے۔ سابق سیکریٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے بی بی سی کو بتایا کہ سرتاج عزیز بہت متوازن، شائستہ، ادب آداب کا دھیان رکھنے والے، گہری اور ہمیشہ مثبت سوچ رکھنے والی شخصیت تھے۔
ان کے مطابق طویل عمری ان کے کام پر بالکل اثر انداز نہیں ہوئی۔ وہ بڑی دلجمعی سے کام کرتے تھے۔ یادداشت بہت مضبوط تھی اور حقائق پر بات کرتے تھے۔
دفتر خارجہ میں ایک واقعے کا احوال بتاتے ہوئے انھوں نے کہا کہ جب بیوروکریسی میں اصلاحات سے متعلق بات ہوئی تو سرتاج عزیز نے فوراً کہا کہ یکم جنوری 1959 میں جو کمیشن بنا تھا اس میں یہ اور یہ سفارشات کی گئی تھیں۔
اعزاز احمد چوہدری کے مطابق سرتاج عزیز کا وزارت خزانہ کا تجربہ خارجہ پالیسی میں بھی کام آتا تھا۔ وہ چیزوں کو سیاسی نہیں بلکہ معاشی اعتبار سے بھی دیکھتے تھے اور ان کے اس پہلو سے بھی اثرات کا جائزہ لیتے تھے۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ دفتر خارجہ میں کچھ امور بہت حساس ہوتے ہیں، جس میں دیگر ادارے بھی اپنا ایک مؤقف رکھتے ہیں تو انھیں سرتاج عزیز کیسے ڈیل کرتے تھے۔ اس کے جواب میں اعزاز چوہدری نے بتایا کہ وہ بڑی توجہ سے بات سنتے تھے، سمجھا دیتے تھے یا ’ان‘ کا نکتہ لے لیتے تھے۔
سرتاج عزیز نے اپنی کتاب میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کی خارجہ امور میں مداخلت پر بھی لکھا۔ انھوں نے کہا سنہ 1997 میں افغانستان میں طالبان حکومت کو تسلیم کرنے سے متعلق دفتر خارجہ کو جو احکامات موصول ہوئے تھے وہ بظاہر آئی ایس آئی کے سربراہ یعنی ڈی جی آئی ایس آئی کی طرف سے تھے۔
انڈیا کے ساتھ ’لاہور پراسس‘ پر لکھتے ہوئے انھوں کہا کہ چناب فارمولا اور لاہور ڈکلریشن پر تفصیل سے مذاکرات ہوئے۔ انھوں نے کہا کہ یہ بدقسمتی ہوئی کے انڈیا میں واجپائی حکومت کے اقتدار سے بے دخل ہونے سے مسئلہ کشمیر پھر کھٹائی میں پڑ گیا۔ انھوں نے کہا کہ جب میں 12 جون 1999 کو نیو دہلی میں واجپائی کو ملا تو مجھ سے بات کرتے ہوئے جذبات میں ان کی آواز رندھ گئی اور انھوں نے کہا کہ ’میں دونوں ممالک کے درمیان پائیدار امن کے لیے بڑی نیک نیتی اور بڑی امید سے پاکستان گیا تھا۔ مگر کارگل بحران نے سب تہس نہس کر دیا۔‘
سرتاج عزیز نے لکھا کہ یہ بات سن کر میں نے خود بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو پایا۔ ان کے مطابق جب وہ مارچ 2005 اور 2006 میں انڈیا میں مختلف کانفرنسز میں گئے تو انڈیا کے وزیراعظم من موہن سنگھ نے انھیں ذاتی حیثیت میں کھانے پر بلایا اور ان سے خوب دل کی باتیں کیں اور کہا کہ وہ دو طرفہ مذاکرات کے ذریعے پاکستان کے ساتھ پائیدار امن کے خواہاں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ ’اگر میں اپنے دور حکومت میں اس بڑے ایجنڈے کی تکمیل میں کامیاب ہو گیا تو شاید تاریخ میں میرا نام رقم ہو جائے۔‘
سرتاج عزیز نے کارگل پر پورا باب لکھ دیا اور کہا کہ عسکری قیادت نے اس وقت کے وزیراعظم نواز شریف کو جو بریفنگ دی تھی اس میں کارگل کا بالکل کوئی ذکر نہیں تھا۔ انھوں نے پرویز مشرف کے دور میں کارگل کو سانحہ قرار دیا۔
انھوں نے کہا کہ کارگل نے جہاں ملک پر فوجی حکومت مسلط کی وہیں اس واقعے سے پاکستان کے کشمیر پر مؤقف کو ٹھیس پہنچی۔
سرتاج عزیز نے انڈیا کے جواب میں ایٹمی دھماکے کرنے کے فیصلے پر بھی تفصیل سے کتاب میں لکھا۔ ان کے مطابق وفاقی کابینہ میں چند آوازیں ہی جلد انڈیا کو جواب دینے کے لیے بے تاب تھیں۔ ان کے مطابق وفاقی کابینہ نے یہ کہہ کر معاملہ وزیراعظم پر چھوڑ دیا کہ اگر دھماکے کرنے پڑتے ہیں تو پھر پلان بی بھی تیار کر لیں جس میں یہ واضح ہو کہ امریکہ اور عالمی پابندیوں کا ہم نے کیسے مقابلہ کرنا ہے۔
سرتاج عزیز کے مطابق دھماکوں سے قبل نواز شریف نے امریکی صدر کو بڑے اطمینان سے بتا دیا کہ اب کوئی اور چارہ نہیں رہ گیا ہے۔ ان کے مطابق چار برس بعد سنہ 2002 تک ان کے ذہن میں یہ تھا کہ اگر پاکستان ایٹمی دھماکے نہ کرتا تو کیا ہو جاتا۔
مگر ان کے مطابق جب 13 دسمبر 2001 میں انڈین پارلیمنٹ پر حملے کے بعد جس طرح دس مہینے تک پانچ لاکھ کی تعداد میں انڈین فوج پاکستان کی سرحد پر تعینات رہی تو اس سے ایٹمی دھماکوں کی اہمیت بھی واضح ہو گئی۔ سرتاج عزیز کے مطابق پاکستان پیپلز پارٹی کی چیئرپرسن اور اس وقت اپوزیشن لیڈر بینظیر بھٹو نے بھی حکومت پر ایٹمی دھماکے کرنے کے لے دباؤ ڈالا تھا۔ مگر سرتاج عزیز دھماکوں کا مطالبہ کرنے والوں پر تنقید کرتے رہے۔
سرتاج عزیز نے اپنی کتاب میں بھی پیپلز پارٹی کے دور میں بدعنوانی کے واقعات کو موضوع بنایا ہے۔ انھوں نے سابق وزیراعظم نواز شریف کی قیادت پر بھی بے باک تبصرے کیے مگر مسلم لیگ ن پر قابل ذکر تنقید نہیں کی۔ انھوں نے محمد خان جونیجو کے دور سے مسلم لیگ کے دھڑوں کو ایک کرنے سے متعلق اپنی کوششوں پر بھی روشنی ڈالی ہے۔
سرتاج عزیز کے وہ خواب جو ادھورے رہ گئے
احسن اقبال کے مطابق سرتاج عزیز نے ذاتی طور پر بہت کامیابیاں سمیٹیں اور ہر شعبے میں انھوں نے ایک مقام حاصل کیا جس کا اعتراف بیرونی دنیا نے بھی کیا ہے۔
’تاہم ان کے ساتھ ایک المیہ ہوا۔ تحریک پاکستان کے کارکن کے طور پر وہ 75 سال انتظار کرتے رہے کہ ان کے خوابوں کی تعبیر ہو جائے۔ مگر جو خواب انھوں نے دیکھے تھے وہ ادھورے رہ گئے۔‘
انھوں نے اپنی سوانح عمری میں بھی لکھا کہ یہ درد ان کے لیے ناقابل بیان تھا۔
ان کے مطابق سرتاج عزیز یہ سمجھتے تھے کہ پاکستان کسی عسکری قوت کے نتیجے میں نہیں بلکہ جمہوری جدوجہد اور ووٹ کے ذریعے بنا مگر پھر یہاں جمہوری عمل اور ووٹ کا تسلسل 75 برسوں تک نہ دیکھ سکے۔
وہ کہتے ہیں کہ سرتاج عزیز جدید معاشی اصلاحات کے بانی تھے مگر بدقسمتی سے ملک میں جمہوری تسلسل نہ ہونے کی وجہ سے ان کے وژن پر عملدرآمد نہ ہو سکا۔
ان کے مطابق سنہ 1990 کی دہائی میں جو معاشی پالیسیاں پاکستان اختیار کیے ہوئے تھا وہی انڈیا اور بنگلہ دیش نے بھی کیا مگر ان کے آگے نکلنے کی وجہ وہاں جمہوری عمل کا تسلسل تھا۔
’درجہ چہارم کے ملازم سے لے کر سیکریٹری تک ہر ایک ان سے کھل کر بات کرنے میں آزاد تھا‘
ایک تھنک ٹینک اور وزارت پلاننگ میں سرتاج عزیز کے ساتھ کام کرنے والے عاصم نیازی نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ وقت کے بہت پابند تھے۔ انتہائی محتاط گفتگو کرتے تھے۔ ان کے مطابق وہ کبھی بھی بنا تیاری اور موضوع پر متعلقہ افسران اور ماہرین سے تازہ ترین معلومات لیے بغیر میٹنگ میں نہ جاتے۔‘
ان کے مطابق ’بطور ڈپٹی چیرمین انتہائی پیچیدہ موضوعات پر تیار ہونے والی دستاویزات پر زبانی بریفنگ پر اکتفا کرنے کے بجائے بچشم خود مطالعہ اور ضروری تحقیق کر کے ’نوٹ‘ ڈالنے کی صورت اپنی رائے کا تحریری اظہار کرتے۔‘
’فیصلہ سازی میں تاخیر ان کی فطرت کے خلاف تھی۔ فیصلوں پر عملدرآمد کی بابت باز پرس کرتے اور بروقت تنفید کے حوالے سے متعلقہ افسران سے باقاعدہ باز پرس کرتے اور ذرا سی تاخیر بھی گوارا نہ کرتے۔‘
وہ بتاتے ہیں سرکاری وسائل کا استعمال صرف سرکاری امور کی انجام دہی کی حد تک کرتے، کسی بھی سرکاری املاک کو ذاتی استعمال میں لانا ان کے مزاج میں شامل نہ تھا۔
عاصم نیازی کے مطابق ’عمومی رویوں کے برعکس دفتری اوقات کی پابندی ہی نہیں بلکہ بالخصوص صبح کے وقت پندرہ منٹ پہلے پہنچ جاتے۔ اگر کسی محفل میں ان کی تقریر یا گفتگو پندرہ منٹ کی رکھی گئی ہے تو سولہواں منٹ نہیں ہونے دیتے تھے۔ کسی بھی معاملے میں ان سے فون پر بات کرنا ہو یا رہنمائی لینا ہوتی تو نہایت شائستگی اور خندہ پیشانی سے پیش آتے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ درجہ چہارم کے ملازم سے لے کر سیکریٹری تک ہر ایک ان سے کھل کر بات کرنے میں آزاد تھا، ایک مرتبہ نام پوچھا تو ہمیشہ یاد رکھتے اور نام لے کر بلاتے۔