بانی پاکستان محمد علی جناح کی جائے پیدائش کراچی میں واقع وزیر مینشن میں ہوئی یا علی منزل میں، اس حوالے سے تحقیق کرنے والے مختلف آرا کے حامل ہیں اور اپنی اپنی آرا کے حق میں مختلف تاریخی حوالے اور ثبوت پیش کرتے ہیں۔
بی بی سی نے اس حوالے سے موجود تاریخی کتب اور حوالوں کا جائزہ لیا ہے جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
محترمہ فاطمہ جناح اپنی کتاب ’میرا بھائی‘ میں لکھتی ہیں کہ ’میرے والدین (جناح پونجا اور مٹھی بائی) کی شادی سنہ 1874 کے لگ بھگ انجام پائی تھی۔ وہ اس وقت کاٹھیاواڑ کے شہر گونڈل میں قیام پذیر تھے مگر انھیں اپنے عزائم کی تکمیل کے لیے گونڈل ایک بہت چھوٹا شہر دکھائی دیتا تھا۔‘
’اگرچہ بمبئی میں تجارت کے بڑے مواقع تھے اور اُن کا ذہن بھی وہیں جانے کے لیے اُکساتا تھا لیکن قدرت نے اُن کے لیے کچھ اور ہی فیصلہ کیا تھا اور اسی فیصلے کے نتیجے میں وہ ہجرت کر کے کراچی آ گئے۔‘
وہ مزید لکھتی ہیں کہ ان کے والد نے کراچی میں کھارادر کے علاقے میں نیو نہام روڈ پر دو کمروں کا ایک چھوٹا سا فلیٹ کرائے پر حاصل کیا۔
’یہ علاقہ شہر کا تجارتی دل سمجھا جاتا تھا۔ یہاں متعدد تجارتی خاندان آباد تھے اور ان میں سے کچھ خاندان گجرات اور کاٹھیاواڑ سے آئے تھے۔ جس عمارت میں ہمارا فلیٹ تھا وہ پتھر کی بنی ہوئی تھی، اُس کی چنائی میں چونے کا مصالحہ استعمال ہوا تھا جبکہ اس کی چھت اور فرش میں چوبی تختے استعمال کیے گئے تھے۔‘
’ہمارا فلیٹ پہلی منزل پر تھا، اس میں خاصی گنجائش تھی۔ ایک آہنی بالکونی فٹ پاتھ کی طرف نکلے ہوئے چھجے پر بنی تھی، یہ بالکونی بہت ہوا دار اور ٹھنڈی جگہ تھی۔ اس بالکونی اور کمروں کا رُخ مغرب کی طرف تھا۔ کراچی میں یہ بہت اچھا رخ سمجھا جاتا ہے کیوںکہ اس سمت سے تمام سال سمندری ہوا کے تازہ اور ٹھنڈے فرحت بخش جھونکے آتے رہتے تھے۔‘
اقبال احمد مانڈویا نے اپنی کتاب ’اس دشت میں اک شہر تھا‘ میں اس حوالے سے مزید تفصیل فراہم کرتے ہوئے لکھا ہے کہ ’یہ وہی عمارت ہے جو اب ’وزیر مینشن‘ کہلاتی ہے۔ یہ عمارت کھارادر کے ماتھے کا جھومر ہے۔ یہ عمارت 1860-70 میں تعمیر ہوئی تھی۔ (بیسویں صدی کے ابتدائی نصف میں) اس کے مالک سیٹھ گوردھن داس تھے جو راجستھان کی مارواڑی قوم کی مشہور مہیشواری برادری سے تعلق رکھتے تھے۔‘
’اُن کی خاندانی شناخت موہٹہ تھی، وہ کپڑے کی تجارت کرتے تھے۔ وزیر مینشن سے چند قدموں کے فاصلے پر ان کی ملکیت کی عظیم الشان گوردھن داس مارکیٹ تھی جس کا نام اب لطیف کلاتھ مارکیٹ ہو گیا ہے۔ ان کے صاحبزادے شیورتن موہٹہ نے کراچی کا ہندو جم خانہ اور موہٹہ پیلس تعمیر کروایا۔ وزیر مینشن کی عمارت کے معمار ایچ سوہاک تھے۔ قائداعظم کے والد نے سنہ 1876 میں دوسری منزل کرائے پر حاصل کی تھی۔ 1876 میں اسی عمارت میں قائداعظم کی ولادت ہوئی تھی۔ جس مسہری پر ان کی ولادت ہوئی تھی وہ مسہری یادگار کے طور پر اس عمارت کی پہلی منزل کے ایک کمرے میں موجود ہے۔‘
سنہ 1892 میں بانی پاکستان محمد علی جناح برطانیہ چلے گئے جہاں انھوں نے لنکنز اِن میں داخلہ لیا اور قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ جناح کی برطانیہ روانگی کے بعد اُن کی والد کی زندگی میں کئی اتار چڑھاؤ آئے، اُن کا کاروبار ختم ہو گیا اور وہ انتہائی مقروض بھی ہو گئے۔
یہ صورتحال درپیش ہونے کے بعد وہ اپنے اہلخانہ کے ساتھ بمبئی منتقل ہو گئے، جہاں کچھ دن بعد سنہ 1896 میں اُن کی اہلیہ وفات پا گئیں۔ جناح نے وطن واپس آ کر رفتہ رفتہ والد کے تمام قرضے ادا کیے اور پھر 17 اپریل 1902 کو جناح پونجا بھی وفات پا گئے۔
رضوان احمد نے اپنی کتاب ’قائداعظم: ابتدائی تیس سال‘ میں تحریر کیا ہے کہ ’1919 میں محمد علی جناح کراچی آئے تو اُن کی ملاقات اپنے بچپن کے دوست سلیمان لالن کے والد سیٹھ نور محمد لالن سے ہوئی۔ جناح نے ان سے کہا کہ میں وہ جگہ دیکھنا چاہتا ہوں جہاں میں پیدا ہوا تھا، آپ کے سوا کوئی اور بتا نہیں سکتا۔‘
’نور محمد لالن نے اپنے پوتے عاشق لالن سے کہا کہ ’جا وہ جگہ ان کو دکھا دے‘ چنانچہ عاشق لالن نے جناح کو ساتھ لیا اور نیو نہام روڈ اور چھاگلہ سٹریٹ کے نکڑ پر واقع اس مکان تک پہنچایا جس کو اب آثار قدیمہ کے محکمہ نے بطور یادگار محفوظ کر لیا ہے۔ انھوں نے عاشق لالن سے مزید تصدیق کی کہ کیا تمہیں یقین ہے کہ یہ وہی گھر ہے؟ محمد علی جناح کو شبہ اس لیے ہوا کہ اس مکان کو انھوں نے جیسا دیکھا تھا ویسا اب نہیں تھا۔ اس میں بڑی تبدیلیاں ہو چکی تھیں۔‘
محمد علی جناح کی وفات کے بعد اکتوبر 1948 میں پاکستان کے سرکاری جریدے ’ماہ نو‘ نے بانی پاکستان نمبر شائع کیا۔ اس جریدے میں فضل حق قریشی کا ایک مضمون ’قائداعظم کا گھرانہ‘ بھی شامل تھا۔
اس مضمون کی اشاعت کے تقریباً 48 برس بعد 1996 میں انھوں نے خواجہ رضی حیدر کو اس مضمون کا پس منظر بتایا کہ محمد علی جناح کی وفات کے جب انھیں یہ مضمون لکھنے کے لیے کہا گیا تو انھوں نے کراچی میں مقیم جناح کے رشتے داروں کی تلاش شروع کی، اس تلاش کے دوران ان کی رسائی ایک خاتون فاطمہ بائی تک ہو گئی جو کھارادر میں واقع ایک عمارت کھلنانی بلڈنگ میں رہائش پذیر تھیں۔
’وہ جناح کے چچا والجی پونجا کے بیٹے کانگجی کی اہلیہ تھیں اور رشتے میں جناح کی بھاوج لگتی تھیں۔‘
’فاطمہ بائی کی شادی سنہ 1885 میں ہوئی تھی اور وہ رخصت ہو کر اسی گھر میں آئی تھیں جس میں جناح پونجا کی رہائش تھی۔ اس وقت محمد علی جناح کی عمر 8،9 سال کے درمیان تھی۔ انھی فاطمہ بائی نے فضل حق قریشی سے نیونہام روڈ کھارادر پر واقع اس عمارت کی نشاندہی کی جو وزیر مینشن کے نام سے پہچانی جاتی ہے۔‘
بقول فضل حق قریشی یہ عمارت تھوڑے سے تغیر و تبدل کے ساتھ پرانی بنیادوں پر قائم تھی اور اس کی بالائی منزل پر جناح کی ولادت ہوئی تھی۔ خواجہ رضی حیدر نے لکھا ہے کہ ’قیام پاکستان کے وقت تک اس عمارت کے مالک گوردھن داس نوتن داس تھے جنھوں نے یہ عمارت 25 ہزار روپے میں رنگ و روغن کا کاروبار کرنے والے ایک مسلمان تاجر وزیر علی پونا والا کو فروخت کر دی۔‘
’29 اکتوبر 1947 کو یہ عمارت وزیر علی کے نام منتقل ہو گئی جنھوں نے مرمت اور رنگ و روغن کروا کر اس کا نام وزیر مینشن رکھ دیا۔ سنہ 1948 میں اس عمارت کی نچلی منزل میں کپڑے کے آڑھتیوں کی دکانیں تھیں جبکہ بالائی منزل میں وزیر علی کے اہلخانہ اور رشتے دار رہتے تھے۔‘
فضل حق قریشی کے مطابق جب وزیر مینشن نامی عمارت کا سراغ مل گیا تو پاکستان کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر کرنل مجید ملک نے اپنے ادارے کے ایک فوٹو گرافر میاں ظہور سے کہا کہ وہ اس عمارت کی ایک تصویر کھینچ دیں تاکہ اسے ’ماہ نو‘ کے ’قائداعظم نمبر‘ میں شائع کیا جا سکے۔
ماہ نو میں اس تصویر کی اشاعت کے بعد کراچی کے کمشنر سید ہاشم رضا کو سرکاری طور پر جناح کی جائے پیدائش کی تصدیق کا حکم ملا۔ انھوں نے محترمہ فاطمہ جناح سے گزارش کی کہ وہ اس جائے پیدائش کی تصدیق یا تردید کریں، فاطمہ جناح اس مقام پر آئیں اور انھوں نے سرکاری افسران کی موجودی میں یہ علاقہ اور مکان پہچان لیا۔
اب حکومت نے فیصلہ کیا کہ Ancient Monuments کے پریزرویشن ایکٹ کے تحت یہ عمارت خرید لی جائے اور اس کے عوض اس کے مالک علاؤ الدین وزیر علی کو متبادل عمارت فراہم کر دی جائے۔ حکومت نے اس عمارت کا قبضہ حاصل کر کے پبلک ورکس ڈیپارٹمنٹ کے حوالے کیا جسے اس کے تحفظ اور تزئین و آرائش کی ذمہ داری سونپی گئی۔
14 اگست 1953 کو پاکستان کے گورنر جنرل غلام محمد نے اس تاریخی مکان (وزیر مینشن) کو قومی یادگار میں تبدیل کرنے کی تقریب کی صدارت کی۔ اس تقریب میں وزیر اعظم محمد علی بوگرا، گورنر سندھ حبیب ابراہیم رحمت اللہ اور مرکزی وزرا، سفرا، دستور ساز اسمبلی کے صدر، مسلح افواج کے سربراہان اور کراچی کے چیف کمشنر ابو طالب نقوی نے بھی شرکت کی۔
اس موقع پر تقریر کرتے ہوئے گورنر جنرل غلام محمد نے کہا کہ ’من حیث القوم عظمت حاصل کرنے یا اپنا وجود برقرار رکھنے کے لیے ہمیں اپنے کردار کو بانی پاکستان کے کردار کے نمونے پر ڈھالنا چاہیے۔‘
حکومت نے اس عمارت میں ایک چھوٹا سا کتب خانہ اور میوزیم قائم کیا۔ اس کتب خانے میں محمد علی جناح کی سوانح عمریوں اور تحریک پاکستان کے متعلق کتب کا ایک خوبصورت ذخیرہ موجود ہے اور جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے وہ مسہری بھی موجود ہے جس پر محمد علی جناح پیدا ہوئے تھے۔
سنہ 1976 میں محمدعلی جناح کے صد سالہ جشن ولادت کے موقع پر ممتاز محقق جناب رضوان احمد کی کتاب ‘قائداعظم ابتدائی تیس سال’ شائع ہوئی، جس میں انھوں نے دعویٰ کیا کہ جناح کی پیدائش وزیر مینشن میں نہیں بلکہ اس سے متصل عمارت میں ہوئی تھی۔
اس بات کی تائید 2016 میں ممتاز ماہر ثقافت ڈاکٹر کلیم لاشاری نے بھی کی۔ سوشل میڈیا پر شائع ہونے والے ان کے ایک انٹرویو کے مطابق ’ہوا تو یوں تھا کہ محترمہ فاطمہ جناح نے تقسیم ہند کے بعد کراچی کے ایک کمشنر کو یہ بتایا تھا کہ وزیر مینشن ہمارا مکان تھا۔ وہ اس گھر میں پیدا ہوئی تھیں اور ان کا بچپن اس میں گزرا تھا۔ تو لوگوں نے یہ معلوم کرنے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی یا مزید تحقیق نہیں کی کہ جناح صاحب بھی اسی مکان میں پیدا ہوئے تھے یا نہیں۔
اُن کے مطابق ’انھوں نے سوچا ہوگا کہ اگر محترمہ فاطمہ جناح اس گھر میں پیدا ہوئی ہیں تو یقیناً جناح صاحب بھی یہیں پیدا ہوئے ہوں گے۔ جناح صاحب نے خود یہ بھی فرمایا تھا کہ وہ کراچی میں پیدا ہوئے ہیں تو لوگوں نے اس مفروضے پر یقین کر لیا اور اسے بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔‘
کلیم لاشاری کے مطابق وزیر مینشن جس زمین پر واقع ہے، اس کا پلاٹ نمبر 14 ہے جو 1880 تک خالی تھا۔ اس زمین پر دو وکھار (آؤٹ ہاؤسز) واقع تھے اور ایک دو منزلہ مکان تھا۔ اس کے برابر والی زمین پر بھی ایک چھوٹا دو منزلہ مکان اور دو وکھار بنے ہوئے تھے۔ یہ دونوں پلاٹ دراصل مختلف مواقع پر عمر نامی شخص نے میونسپلٹی سے اور نیلام میں خریدے تھے۔
ان کے مطابق پلاٹ کی وہ سمت جس پر وزیر مینشن بنا ہوا ہے، اس پر موجود مکان میں مالک خود رہتا تھا، جبکہ دوسری سمت میں جو دو منزلہ مکان تھا اس میں جیونا اور پونجا دونوں کرائے پر رہتے تھے۔ اس جگہ آج کل علی منزل نامی اپارٹمنٹ بلڈنگ کھڑی ہے۔
وزیر مینشن نامی عمارت دراصل 1880 کے قریب تعمیر ہوئی اور اس زمانے میں دونوں پلاٹ جیونا بھائی کی ملکیت تھے۔ محمد علی جناح صاحب کی پیدائش کا سن 1876 سرکاری طور پر مانا جاتا ہے، کچھ لوگ اسے 1875 بھی مانتے ہیں۔
لاشاری صاحب اس معاملے کی تفصیل بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ محمد علی جناح صاحب کی پیدائش ہوئی تو وزیر مینشن تعمیر ہی نہیں ہوا تھا۔ پلاٹ نمبر 14 کا رقبہ خاصا بڑا تھا اس پر تین پلاٹ تھے اور 1874 کے سروے کے مطابق ان کو ملا کر ایک نمبر الاٹ کیا گیا تھا۔ اس پلاٹ کا ایک ٹکڑا عمر نے کراچی میونسپلٹی سے حاصل کیا تھا۔
سنہ 1874 کے سروے کے مطابق پلاٹ نمبر 3، 5، 13 اور 17 کو ملا کر نمبر 14 الاٹ کیا گیا جس جگہ آج وزیر مینشن قائم ہے۔
سنہ 1866 میں عمر نے عبد الرحیم چھاگلہ سے 2500 روپے قرض لیا تھا، جس کے بدلے میں انھوں نے اپنی یہ جائیداد، جس میں 3 جگہیں شامل تھیں اور اس وقت ان کے تین الگ الگ نمبر تھے، ایک میونسپل نمبر تھا، دوسرا ٹاؤن نمبر تھا، اور ایک وہ جو انھوں نے نیلام سے لیا تھا، یہ تینوں پلاٹ عمر نے عبدالرحیم چھاگلہ کے پاس گروی رکھ دیے۔
ان کی تحقیق کے مطابق ’سال بھر بعد عمر نے مزید کچھ رقم چھاگلہ صاحب سے ادھار لی توعبد الرحیم کی نظر میں قرضے کی رقم کے مقابلے میں یہ جائیداد چھوٹی تھی۔ تو ڈوسا ہیرجی کا ایک اور گودام جو ٹرانس لیاری کوارٹر میں تھا، وہ بھی اس میں شامل کیا گیا۔ کچھ سالوں کے بعد عمر رقم ادا نہ کرسکے تو انھوں نے اپنی ملکیت بیچ کر معاملہ صاف کیا، یہ تمام دستاویزات سب رجسٹرار کے دفتر میں موجود ہیں۔‘
’جس شخص نے یہ جگہ خریدی، اس نے یہ جائیداد جیونا بھائی ناتھا بھائی اینڈ کمپنی کے پاس گروی رکھ دیں۔ جیونا بھائی قائد اعظم محمد علی جناح کے والد تھے، ان کے دو اور بھائی بھی تھے جو کراچی میں کاروبار کرتے تھے، وہ شخص بھی رقم ادا نہ کرسکا اور یہ جائیداد جیونا بھائی کے ہاتھوں فروخت کر دی گئی۔‘
سنہ 1870 کی دہائی کے دوران پلاٹ نمبر 14 پر تعمیرات کی صورتحال، جب پونجا بھائی اور جیونا بھائی درمیان والی عمارت میں کرائے پر مقیم تھے۔ نونہم روڈ والا حصہ عمر پڑپیا اور بعد میں ڈوسا ہیرجی کی ملکیت میں رہا۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں 1883ء کے بعد نئی عمارت تعمیر کی گئی۔ پلاٹ نمبر 14 کو بعد میں نمبر 23 الاٹ کر کے دو حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا جو آج تک موجود ہے۔
سنہ 1880 میں جیونا بھائی اور ان کے بھائیوں نے اس جگہ پر مکان کی تعمیر کا آغاز کیا۔ 1880 سے 1886 کے دوران جیونا بھائی کی جائیداد کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا۔ اب یہ ہوا کہ جو ناتھا بھائی اور جیونا بھائی کی کمپنی تھی، جس نے اس جگہ یہ خوبصورت عمارت تعمیر کی تھی، کسی وجہ سے جیونا بھائی جو اس وقت تک جناح کہلائے جانے لگے، اب ان کی کمپنی کو خسارہ ہوا اور یہ تمام جائیداد نیلام کرنی پڑی، اور اس کی قیمت 18,500 روپے لگائی گئی۔ یہ 1890 کی بات ہے۔
انھی دستاویزات سے یہ بات سامنے آتی ہے کہ جہاں اس وقت وزیر مینشن ہے، اس کے ساتھ ایک اور چھے منزلہ عمارت ’علی پلازہ‘ موجود ہے لیکن اس وقت اس جگہ ایک چھوٹا سا گھر ہوتا تھا، جس کے گراؤنڈ فلور پر محمد علی کے دادا پونجا اور پہلے فلور پر محمد علی کے والد جیونا بھائی رہتے تھے۔
’یہ لگ بھگ وہی عرصہ ہے، جس عرصے میں جناح صاحب پیدا ہوئے تھے۔ اس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ جناح صاحب نا جھرک اور نا ہی وزیر مینشن، بلکہ اس جگہ پیدا ہوئے جو آج کل علی پلازہ کہلاتی ہے۔‘
ان کے مطابق اس میں شک نہیں کہ یہ عمارت جناح خاندان کے زیر استعمال رہی اور اس بات کے قوی امکانات ہیں کہ اسی خاندان نے یہ عمارت تعمیر کی ہو، لیکن وہ عمارت جو تعمیر ہی 1880 کے بعد ہوئی ہو اس کو قائداعظم کی جائے پیدائش کہنا تاریخی طور کیسے درست ہو سکتا ہے؟‘
محمد علی جناح کے پیدائش کے متعلق ایک دعویٰ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ وہ جھرک کے مقام پر پیدا ہوئے تھے۔
اس بات کا ذکر 1960 کی دہائی میں سندھی ادبی بورڈ کے اہتمام میں چھپنے والی ساتویں جماعت کی ایک نصابی کتاب میں کیا گیا ہے مگر اس دعوے کی تصدیق محمد علی جناح کی زندگی اور ان کی وفات کے بعد شائع ہونے والی کسی بھی سوانح عمری سے نہیں ہوتی۔