چنگ ویسے تو موسیقی کا آلہ ہے لیکن شاہین گل کے لیے یہ زندگی سے لڑنے کا ہتھیار بن چکا ہے اور وہ کہتی ہیں ان کی ’زندگی کی جنگ اب چنگ کے سنگ‘ ہے۔
شاہین گل کا تعلق سندھ کے ساحلی ضلع بدین سے ہے اور وہ پاکستان کی واحد خاتون ہیں جو عوامی سطح پر چنگ نامی ساز بجاتی ہیں۔ شاہین گُل کا تعلق بلوچ رند قبیلے سے ہے اور اُن کے والد چھوٹے کاشتکار ہیں۔
وہ بتاتی ہیں کہ چنگ سندھی اور بلوچ ثقافت کا حصہ ہے اور وہ اپنے بچپن میں ریڈیو پاکستان سے اس کی آواز سنتی تھیں جس کے بعد انھیں اس ساز سے انسیت ہوئی۔
چنگ کو جیوز ہارپ (Jews Harp) یا ماؤتھ ہارپ بھی کہا جاتا ہے اور تاریخ میں اس ساز کا ذکر تیسری صدی عیسوی سے ملتا ہے۔ قدیم چین سے سامنے آنے والی ایک تصویر میں بھی یہ ساز موجود ہے جبکہ برصغیر میں دھات سے بنائے گئے اس ساز کو ’مور چنگ‘ کہا جاتا ہے۔
چنگ چرواہوں کا ساز اور ساتھی ہوتا تھا۔ جب چرواہے اپنے جانوروں کو لے کر جنگل میں جاتے تو وہ چنگ بجایا کرتے تھے۔ چنگ بجانا اُن کا مشغلہ تھا اور جب وہ فطرت کے مناطر کے درمیان بیٹھ کر چنگ بجاتے تو وہ اس ماحول سے مکمل طور پر ہم آہنگ ہو جاتے۔ چونکہ میرا تعلق بھی گاؤں، اِس کی مٹی اور فطرت سے ہے اس لیے میں بھی اس ساز کے ساتھ جڑ گئی۔‘
’سکھانے والا کوئی نہیں‘
شاہین رند نے جب چنگ ساز کو بجانے کی تربیت حاصل کرنے کا سوچا تو انھیں اس ساز کے اسرار و رموز سکھانے کے لیے کوئی استاد موجود نہیں تھا۔
وہ بتاتی ہیں کہ ’یہ ساز اور اس کے جانکار اب نایاب ہو چکے ہیں، جو چند گنے چنے باقی بچے ہیں وہ بھی مرد ہیں کیونکہ اس ساز کو مردوں سے زیادہ منسوب کیا جاتا ہے۔ ایسی ایک بھی عورت نہیں تھی جو عوام میں اس ساز کو بجاتی ہو۔‘
’مجھے سکھانے والا کوئی نہیں تھا چنانچہ میں نے اسے اپنے طور پر سیکھنے کی ٹھانی۔ گھر میں نانا کو اس ساز سے کسی حد تک انسیت تھی۔ میری مسلسل جستجو رہی لیکن کوئی استاد نہیں ملا۔ پھر میں نے یوٹیوب سے مدد حاصل کی کیونکہ انڈیا میں بھی یہ ساز بجایا جاتا ہے اور وہاں کی پرفارمنس کی ویڈیوز موجود ہیں۔ ان ویڈیوز سے میں نے چنگ کے لہرے وغیرہ سیکھے۔‘
شاہین بتاتی ہیں کہ ’چنگ لوہار بناتے تھے۔ یہ بانسری کی طرح سانس والا ساز ہے اور سانس ہی اس کی بنیاد ہے کیونکہ سانس سے ہی اس کے سروں میں ردہم پیدا ہوتا ہے۔ اس کا جو اتار چڑھاؤ ہے وہ زبان سے تبدیل ہوتا ہے۔ زبان کو ہم نے پیچھے کی طرف موڑ دیا تو اس کی آواز بھاری ہو جائے اور اگر زبان کو لمبا کر کے اوپر والے دانتوں کی طرف لے گئے تو آواز باریک ہو جائے گی۔‘
شاہین رند کے مطابق جب وہ اس ساز کو سیکھنے کے مرحلے میں تھیں تو اکثر ان سے چنگ ٹوٹ جاتے تھے۔ پریکٹس کے دوران اکثر انھیں معلوم ہوتا کہ ان کے ہونٹوں سے خون نکل رہا ہوتا تھا، لیکن اُن کے مطابق اس میں روحانیت اس قدر تھی کہ انھیں یہ درد بالکل محسوس نہ ہوتا۔
شاہین کہتی ہیں کہ ’چنگ مجھے مراقبے میں لے جاتا ہے۔‘
چنگ کے ساتھ سماج سے جنگ
شاہین گل کے شوق اور جنون کی راہ میں کافی رکاوٹیں بھی آئیں لیکن وہ اِن کو عبور کرتی رہیں۔ وہ بتاتی ہیں کہ ان کے قبیلے کے لوگوں کے لیے ان کی پبلک پرفارمنس کو سمجھنا اور ہضم کرنا مشکل تھا۔
سنہ 2013 میں ان کی شادی ہو گئی اور انھوں نے چنگ بجانے کے اپنے شوق کو جاری رکھا۔ وہ بتاتی ہیں کہ جب انھوں نے 2017 میں پہلی بار حیدرآباد میں ایاز میلو میں پرفارم کیا تو ان کے شوہر ان کے ہمراہ تھے لیکن بعد میں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔
شاہین گُل کا دعویٰ ہے کہ عوامی سطح پر چنگ نہ بجانے کے مطالبے سے انکار ان کی اپنے شوہر سے علیحدگی ہو گئی۔ تاہم شاہین کے مطابق اپنے گھر والوں کو وہ سمجھانے میں کامیاب رہیں۔
’اب چنگ میری زندگی کی جنگ ہے جو میں اپنی کمیونٹی اور سماج سے ہی لڑ رہی ہوں اور آئندہ بھی لڑتی رہوں گی۔