چھ دسمبر بدھ کے روز، جب مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف لاہور میں مسلم لیگ ق کے رہنما چودھری شجاعت حسین کے گھر لگ بھگ 14 برس بعد ملاقات کے لیے پہنچے تو کئی سوالات سیاسی کینوس پر اُبھر آئے۔
اکتوبر میں میاں نواز شریف کی لندن سے واپسی پر اُن کی جماعت نے ملک گیر استقبال کی تیاریاں اس نعرے کے ساتھ کیں کہ عوام انھیں ’آخری اُمید‘ کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔
اس سے یہ خیال پیدا ہوا کہ میاں نوازشریف مسلم لیگ ن کے ناراض اور مایوس کارکنان کو اپنی طرف جہاں واپس لائیں گے، وہاں ووٹرز کے اندر نئی جان بھی ڈال دیں گے۔
یوں ان کا استقبال ایک بڑے عوامی اجتماع سے ہوا۔ مگر پھر آہستہ آہستہ دیکھنے کو ملا کہ میاں نواز شریف اور اُن کی جماعت بلوچستان، سندھ، خیبرپختونخوا اور پنجاب میں چھوٹی جماعتوں سے انتخابی اتحاد، جوڑ توڑ اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرتی دکھائی دی۔
واضح رہے کہ انتخابات سے قبل، سیاسی جوڑ توڑ، چھوٹی و بڑی سیاسی جماعتوں سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ سیاسی جماعتوں کی حکمتِ عملی کا حصہ رہتا ہے۔
مگر مسلم لیگ ن کی ایسی روایت نہیں رہی ہے۔
یہ خیال کہ میاں نوازشریف واپس آ کر مسلم لیگ ن کے ووٹرز میں نئی روح پھونک کر ایک ایسا انتخابی ماحول بنا کر ثابت کر دیں گے کہ مسلم لیگ ن ہی ملک کی سب سے زیادہ مقبول جماعت ہے، اس قدر درست ثابت نہیں ہوا۔ اس نے کئی خدشات و سوالات نے جنم دیا ہے۔
بنیادی سوال یہی ہے کہ ایسے ماحول میں جہاں ان کے سب سے بڑے حریف بانی تحریک انصاف عمران خان جیل میں ہیں اور ان کی پارٹی زیرِ عتاب ہے، کیا مسلم لیگ ن اس کے باوجود گھبراہٹ کا شکار ہے، یا اس بار اس جماعت نے ووٹر اور نواز شریف کے درمیان پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے اپنی حکمت عملی تبدیل کی ہے۔
بڑی سیاسی جماعت کو چھوٹی سیاسی جماعتوں کی ضرورت کیوں؟
میاں نواز شریف کی جماعت نے جہاں بلوچستان کی باپ و دیگر پارٹیوں کے الیکٹ ایبلز کو اپنے ہاں جگہ دی وہیں سندھ کی سیاست میں ایم کیو ایم، جی ڈی اے اور جمعیت علمائے اسلام ف کے ساتھ اتحاد کیا۔
اسی طرح پنجاب کی سطح پر الیکٹ ایبلز کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ مسلم لیگ ق کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ علاوہ ازیں بعض انتخابی حلقوں میں مسلم لیگ ن اور استحکام پاکستان پارٹی میں بھی سیٹ ایڈجسٹمنٹ کی باتیں عام ہیں۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق مسلم لیگ ن اور ق لیگ میں دو قومی اور تین صوبائی سیٹوں پر سیٹ ایڈجسٹمنٹ پر اتفاقِ رائے ہوا ہے۔
اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن کو ریلیف ملنے کا قوی احساس ہوتا ہے۔ اس ریلیف نے میاں نواز شریف کو اسٹیبلشمنٹ کے نئے لاڈلے کے تاثر سے ہمکنار کر دیا ہے۔
مسلم لیگ ن کھل کر انتخابی مہم چلاتی پائی جا رہی ہے مگر اس کی سب سے بڑی حریف جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کو کریک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ دوسری طرف میاں نوازشریف سمیت کئی رہنماؤں کو عدالتی سطح پر بھی ریلیف ملا ہے۔
ہر طرح کے ریلیف اور سازگار ماحول کے باوجود مسلم لیگ ن چھوٹی سیاسی جماعتوں کو ساتھ ملا کر انتخابی میدان میں کیوں اُترنے کی تیاری کررہی ہے؟
مسلم لیگ ن کا دعویٰ ہے کہ وہ پنجاب کی سب سے مقبول جماعت ہے تو پھر وہ ق لیگ سے اتحاد پر کیوں مجبور ہے؟ اس پر سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی کہتے ہیں ’مسلم لیگ ن سمجھتی ہے کہ مختلف جماعتوں کے ساتھ انڈر سٹینڈنگ زیادہ ضروری ہے۔
’ق لیگ منقسم ہے اور چوہدری شجاعت پی ڈی ایم کا حصہ بھی رہے ہیں۔ اس لیے اُن سے ملاقات کی گئی۔ تاہم اس پہلو سے انکار نہیں کہ مسلم لیگ ن کے لیے اصل چیلنج پنجاب اور اصل خطرہ پاکستان تحریکِ انصاف ہے۔‘
سینیئر تجزیہ کار اور انتخابی اُمور کے ماہر سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’اس وقت مسلم لیگ ن کی حکمت زیادہ سے زیادہ لوگوں کو ساتھ ملا کر چلنے کی ہے۔ جیسے بلوچستان سے بلوچوں کو۔‘
ان کا خیال ہے کہ یہ ’ایک اچھی اور بہترین پالیسی ہے۔‘
تاہم سیاسی تجزیہ کار پروفیسر فاروق حسنات کا مؤقف مختلف ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’نواز شریف سمجھتے تھے کہ وہ ملک میں واپس آئیں گے تو ہر طرف سے ریسپانس ملے گا۔ مگر ایسا نہ ہوسکا۔ اس وقت پنجاب کی سیاست میں چوہدری شجاعت اور اُن کی جماعت کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔
’ان کے پاس جو ایک دو سیٹیں ہیں، وہ تو اس وقت اُن پر بھی کمزور ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ میاں نوازشریف سے کہہ رہی ہے کہ زیادہ سے زیادہ لوگوں اور جماعتوں کو ساتھ شامل کریں۔
اتحاد کی وجہ عمران مخالفت یا نمبر گیم؟
مسلم لیگ ن جن چھوٹی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کررہی ہے۔ اُن کے مابین قدرِ مشترک عمران مخالفت کا فیکٹر ہے یا مجبوریاں کچھ دیگر ہیں۔
جمعیت علمائے اسلام ف اور مسلم لیگ ق کی سطح پر دیکھیں تو محسوس ہوتا ہے کہ مسلم لیگ ن اور اِن کے مابین قربت، عمران مخالف فیکٹر کا نتیجہ ہے۔ اگرچہ جمیعت علمائے اسلام ف، پی ڈی ایم کا حصہ رہی ہے اور یہ مسلم لیگ ن کی سابقہ ادوار میں اتحادی بھی رہی ہے۔ تو کیا اس بار اِن کی قربت عمران مخالفت فیکٹر ہی کا نتیجہ قراردی جاسکتی ہے؟
ایم کیوایم ہو، جی ڈی اے یا پھر بلوچستان عوامی پارٹی، اپنی اپنی ضرورت اور سیاسی فضا جو کہ مسلم لیگ ن کے حوالے سے سازگار ہوچکی تھی، کی بدولت مسلم لیگ ن کی طرف مائل ہوئیں؟ یا یہ ضرورت دوطرفہ ہے؟
سینیئر تجزیہ کار سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’مسلم لیگ ن کو مشکلات کا احساس ہے۔ انھیں یہ بھی احساس ہے کہ لوگوں کی طرف سے بیگانگی پائی جا رہی ہے۔
’یہ الیکشن کی مشکلات ہی کا نتیجہ ہے کہ میاں نوازشریف سب کو ساتھ ملانے کی حکمت عملی پر کارفرما ہیں۔‘
اس پہلو پر سیاسی تجزیہ کار ڈاکٹر حسن عسکری رضوی کا بھی کچھ ایسا ہی خیال ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’میاں نواز شریف مختلف آپشن ایکسپلور کررہے ہیں۔ یہ ان کی سیاسی حکمت عملی ہے۔‘
ماضی میں سیاسی جماعتوں سے اتحاد اور سیٹ ایڈجسٹمنٹ
2018 کے انتخابات میں مسلم لیگ ن زیرِ عتاب رہی۔ انفرادی سطح پر اُمیدواروں اور دھڑوں نے اس جماعت سے راہیں جُدا کیں اور یہ انتخابی مہم چلانے میں بھی رکاوٹوں کا شکار رہی۔
اس سب کے باوجود سیاسی اتحاد بنانے کی جو کوششیں، ریلیف کے تمام تر تاثر کے ساتھ موجودہ حالات میں دیکھنے کو مل رہی ہیں، اس کی جھلک بھی 2018 کے الیکشن کے تناظر میں دکھائی نہیں دیتی۔
اگر ماضی کے انتخابات کو دیکھیں تو مسلم لیگ ن کی انتخابی حکمتِ عملی حالیہ حکمتِ عملی سے یکسر مختلف رہی ہے۔
نیز 2013 اور 2008 کے انتخابات کے پیرائے میں دیکھا جائے تو مسلم لیگ ن پر اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کا تاثر نہیں تھا۔کیااس بار اسٹیبلشمنٹ کی سرپرستی کے تاثر کے باوجود مسلم لیگ ن گھبراہٹ زَدہ دکھائی دے رہی ہے؟
پروفیسر فاروق حسنات کہتے ہیں کہ ’نوازشریف کے واپس آنے میں اسٹیبلشمنٹ اور حکومت کا بے پناہ تعاون شامل ہے۔ اس یقین دہانی کے ساتھ واپس آئے کہ اگلے وزیرِ اعظم ہوں گے۔ لیکن وزیرِ اعظم بننے کے لیے ووٹ لینا پڑتے ہیں، سیٹیں لینا پڑتی ہیں۔
’یہ گھبراہٹ ہی کا نتیجہ ہے کہ وہ چھوٹی جماعتوں، جن سے اُن کی ماضی میں کشیدگی رہی، کو ساتھ ملا رہی ہے۔ اور اس تاثر کا بھی خیال نہیں رکھا جارہا جو اُن کی شخصیت کا بن رہا ہے۔‘
مسلم لیگ ن کی ملک گیر مقبولیت کیا اب بھی سوالیہ نشان؟
ن لیگ کا خیال تھا کہ میاں نواز شریف کی ملک میں واپسی جماعت کی مقبولیت میں اضافہ کرے گی۔
اُن کا خیال تھا کہ عمران فیکٹر اور سولہ ماہ کی حکومت کے دوران مہنگائی اور بدترین گورننس کا ملبہ ن لیگ پر پڑا ہے۔ یوں نواز شریف مسلم لیگ ن کے کھوئے ہوئے اعتماد کو بحال کریں گے۔
لیکن نوازشریف کی واپسی کے بعد مسلم لیگ ن کی جانب سے صوبائی سطح پر مختلف سیاسی جماعتوں کے ساتھ اتحاد کی صورت، میدان میں اُترنے کے عمل نے اَسی کی دہائی کی آئی جے آئی کی تشکیل کی یاد تازہ کر دی ہے۔
مگر اُس وقت اور آج کے حالات قطعی مختلف ہیں۔ اُس وقت میاں نوازشریف کو اسٹیبلشمنٹ کی آشیر باد تو حاصل تھی مگر چیلنج بے نظیر کی شکل میں تھا۔
اس وقت پیپلزپارٹی اور اُن کے ووٹرز کا ویسا چیلنج تو نہیں مگر ہاں پنجاب میں عمران خان اور اُن کے ووٹرز کا چیلنج ضرور ہے۔
اس ضمن میں پروفیسر فاروق حسنات کہتے ہیں کہ ’نواز شریف کو باہر نکلنا چاہیے تھا۔ وہ ووٹرز کے پاس جاتا، تقریریں کرتا، اپنے منشور کو واضح کرتا۔
’مگر اس نے ایسی پارٹیوں کا سہارا ڈھونڈنا شروع کر دیا ہے، جن کو خود سہارے کی ضرورت ہے۔‘
جبکہ سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ ’نواز شریف بیٹھ کر مضبوط پلاننگ کے ساتھ تیاری کر رہے ہیں۔ وہ ٹکٹیں دے رہے ہیں اور جب وہ ووٹرز میں نکلیں گے تو انتخابی ماحول بھی پیدا کر دیں گے۔
ان کی پیشگوئی ہے کہ ’عوام ان (نواز شریف) کے گرد جمع ہو جائے گی۔‘