بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کلر کی نظریں ڈھاکہ پر جمی تھیں۔ راولپنڈی کے گورڈن کالج کے تعلیم یافتہ بریگیڈیئر کلر 1971 میں انڈین فوج کے 95 ماؤنٹین بریگیڈ کی کمان کر رہے تھے۔
یہ وہ وقت تھا جب انڈین فوج مشرقی پاکستان پر حملے کی تیاری مکمل کر چکی تھی جہاں انتخابات میں عوامی لیگ کی واضح فتح کے باوجود اقتدار سے دور رکھے جانے پر خانہ جنگی چھڑ چکی تھی۔
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کو شمال میں آسام کی جانب سے مشرقی پاکستان میں حملہ آور ہونے کی ذمہ داری ملی تھی اور وہ سب سے پہلے ڈھاکہ تک پہنچنے کا ارادہ رکھتے تھے۔
تاہم ان کے اس منصوبے کے راستے میں پہلی رکاوٹ مشرقی پاکستان، جو جنگ کے بعد بنگلہ دیش بنا، کی شمالی سرحد پر موجود ایک چھوٹی سی فوجی چوکی تھی۔
کمال پور نقشے پر ایک نقطے سے زیادہ نہیں تھا۔ عددی اور فضائی برتری کے ساتھ ساتھ بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کے پاس توپ خانہ کی بھاری تعداد موجود تھی۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کی فوج سے منحرف ہونے والے سپاہی، جنھیں انڈیا نے تربیت اور اسلحہ فراہم کیا، یعنی مکتی باہنی کی دو سے تین بٹالین بھی دستیاب تھیں۔
ایسے میں کمال پور کی چھوٹی سی سرحدی چوکی پر قبضہ کرنا بظاہر گھنٹوں کا کام تھا لیکن یہ چوکی، جہاں ایک نوجوان پاکستانی فوجی افسر کیپٹن احسن ملک صرف 70 سپاہیوں اور اتنے ہی نیم تربیت یافتہ رینجرز اور رضاکاروں کے ساتھ دفاعی پوزیشن مضبوط کرنے میں جتے ہوئے تھے، بریگیڈیئر ہردیو کے لیے ایک ترنوالہ ثابت ہونے والی تھی جہاں ایک پورے بریگیڈ اور انڈین فضائیہ کا مقابلہ کرنے کے لیے کیپٹن احسن ملک کے پاس صرف تین مارٹر تھے۔
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کمال پور پر قبضہ کر لیتے تو ڈھاکہ تک رسائی ان کے لیے آسان ہو جاتی۔ کیپٹن احسن ملک اور بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کا یہ مقابلہ اس لیے بھی عسکری اعتبار سے اہمیت رکھتا ہے کہ یہ باقاعدہ جنگ سے کئی ہفتوں قبل ہی شروع ہو گیا تھا جس کے اختتام تک نوجوان پاکستانی فوجی افسر کے دلیرانہ دفاع نے انڈین فوج کے سربراہ کو بھی ان کی بہادری کا اعتراف کرنے پر مجبور کر دیا۔
انڈیا کی عسکری حکمت عملی
انڈین فوج نے جنگ کے باقاعدہ آغاز سے قبل ہی مشرقی پاکستان کی سرحدوں کے اندر مداخلت اور مکتی باہنی کے ذریعے حملوں کا آغاز کر دیا تھا جس کا مقصد جنگ سے قبل پیش قدمی کو آسان بنانا تھا۔
چار سال قبل ہی فوج میں کمیشن حاصل کرنے والے کیپٹن احسن ملک کو انڈیا کی سرحد سے صرف ایک ہزار گز کے فاصلے پر واقع اس چوکی پر تعینات ہوئے ابھی کچھ ہی عرصہ ہوا تھا کہ انڈیا نے کمال پور پر قبضہ کرنے کی کوششوں کا آغاز کر دیا۔ جون اور جولائی میں اس چوکی پر حملے ان کی تعیناتی سے قبل ہی ہو چکے تھے تاہم 22 اکتوبر 1971 کو انڈین فوجیوں اور مکتی باہنی نے مل کر چوکی پر حملہ کیا۔
اپنی کتاب ’وٹنس ٹو سرنڈر‘ میں صدیق سالک نے لکھا کہ اس حملے میں ایک افسر سمیت نو انڈین حملہ آور ہلاک ہو گئے۔ اگلا حملہ 14 نومبر کو کیا گیا جس میں انڈین فوجی بھی شامل تھے۔
احسن ملک نے پاکستان فوج کے میگزین ہلال میں اس بارے میں لکھا کہ 15 نومبر کو جب ان کے چند فوجی پٹرولنگ کی غرض سے نکلے تو ان پر گولیوں کی بوچھاڑ ہوئی۔ احسن ملک کو احساس ہوا کہ چوکی پر قبضہ کرنے کی ابتدائی کوشش میں ناکامی کے بعد انڈین فوج نے ان کی چوکی کو گھیرے میں لے لیا ہے۔
کمال پور کا دفاع
بریگیڈیئر ہردیو ابتدائی ناکامی کے بعد حکمت عملی بدلنے پر مجبور ہوئے۔ انھوں نے چوکی کا مکمل محاصرہ کر لیا اور توپ خانے سے بھاری بمباری کا آغاز کر دیا۔ میجر جنرل سکھونت سنگھ نے اپنی کتاب ’انڈیاز وارز سنس انڈیپینڈنس‘ میں لکھا ہے کہ بریگیڈیئر ہردیو نے دو بٹالین کی مدد سے چوکی کا مکمل گھیراؤ کر لیا۔
صدیق سالک اپنی کتاب میں لکھتے ہیں کہ ’بریگیڈیئر کلر کا مقصد یہ تھا کہ چوکی پر حملے میں مزید جانی نقصان کے بجائے پاکستانی فوجیوں پر نفسیاتی دباؤ ڈالا جائے اور ان تک کسی قسم کی کمک پہنچنے کے امکانات کو ختم کر کے انھیں ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیا جائے۔‘
تاہم احسن ملک نے اپنی چوکی میں خندقیں کھود کر کنکریٹ کی مدد سے انھیں مضبوط بنا رکھا تھا۔ دن کی روشنی میں نقل و حرکت کو ممکن بنانے کے لیے خندقوں کو ایک دوسرے سے ملایا گیا تھا۔ ان کی دفاعی حکمت عملی کا ایک اور پہلو انھوں نے ویتنام جنگ سے سیکھا تھا۔ اس حکمت عملی کے تحت نوکیلے بانسوں کی مدد سے چوکی کے ارد گرد باڑ بنا دی گئی تھی تاکہ کوئی بھی حملہ آور باآسانی چوکی تک رسائی نہ حاصل کر سکے۔ اس کے علاوہ چوکی کے ارد گرد گرینیڈ، بارودی سرنگوں اور اینٹی ٹینک مواد نصب کیا گیا تھا۔
بھاری بمباری کے باوجود اسی دفاعی حکمت عملی کی وجہ سے کیپٹن احسن ملک اور کے جوان ’نفسیاتی دباؤ‘ کا شکار نہ ہوئے تو 21 نومبر کو انڈین فوج نے بھرپور حملہ کیا۔ اس بار انڈین فوج کو بھاری جانی نقصان اٹھانا پڑا۔ کچھ دیر بعد ایک دوسرا حملہ بھی اسی طرح ناکام ہوا۔
احسن ملک کے مطابق اگلی صبح انھوں نے چوکی کے آس پاس 28 لاشیں گنیں جن میں سے ایک کپتان بھی تھا۔ احسن ملک کے مطابق ان لاشوں کو بیماری پھیلنے کے ڈر سے رات کے وقت دفنا دیا گیا۔
اب تک احسن ملک نے اپنی چوکی پر قبضہ ہونے کی کوششوں کو ناکام بنا دیا تھا لیکن وہ مکمل طور پر چاروں طرف سے گھر چکے تھے۔
ان کی بٹالین، 31 بلوچ کے کمانڈگ افسر لیفٹینینٹ کرنل سلطان، چند میل دور بٹالین ہیڈکوارٹر میں موجود تھے جنھوں نے انڈین فوج کا محاصرہ توڑ کر کیپٹن احسن ملک تک کمک پہنچانے کی کوشش کی تاہم یہ کوششیں کامیاب نہ ہو سکیں۔
کمال پور تک کمک پہنچانے کی کوششوں کے تناظر میں بریگیڈیئر ہردیو نے 27 نومبر کی رات ایک بار پھر چوکی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی لیکن اس بار بھی یہ کوشش ناکام رہی۔
جنرل نیازی اور امریکی صحافی
اسی اثنا میں مشرقی پاکستان میں فوجی سربراہ لیفٹینینٹ جنرل امیر عبداللہ نیازی نے کمال پور سے چند میل دور جنوب میں واقع بخشی گنج میں 31 بلوچ کمپنی ہیڈ کوارٹر کا دورہ کیا۔ ان کے ساتھ ایک امریکی صحافی ڈین سدرلینڈ بھی تھے۔
کیپٹن احسن ملک کے مطابق انھوں نے وائرلیس پر جنرل نیازی کو آگاہ کیا کہ ان کے پاس اب ایمونیشن بہت کم رہ چکا ہے۔ جواب میں جنرل نیازی نے ان تک کمک پہنچانے کا وعدہ کیا۔
’جب امریکی صحافی کو بتایا گیا کہ باقاعدہ انڈین فوج کمال پور پر حملہ کر رہی ہے اور اس کے فوجی ہلاک ہو چکے ہیں تو اس نے ہلاک ہونے والے فوجیوں کی لاشیں دیکھنے کا مطالبہ کیا۔ اسے آگاہ کیا گیا کہ یہ لاشیں دیکھنے کے لیے سات میل شمال میں موجود کمال پور چوکی تک جانا ہو گا جو انڈین فوج کے گھیرے میں ہے۔‘
’ڈین سدرلینڈ نے ضد کی کہ وہ چوکی تک جانا چاہتے ہیں۔ اسی رات جنرل نیازی کے روانہ ہونے کے بعد، کمپنی کمانڈر میجر ایوب کیپٹن احسن ملک تک راشن اور اسلحہ پہنچانے نکلے تو سدرلینڈ بھی ان کے ہمراہ ہوئے۔‘
’ابھی یہ لوگ کمال پور کے کچھ فاصلے پر تھے جب انڈین فوج اور مکتی باہنی نے ان پر فائرنگ شروع کر دی۔ ایسے میں بھگڈر مچی اور میجر ایوب تو چوکی تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے لیکن سدرلینڈ کا کچھ اتاپتہ نہ تھا۔‘ کیپٹن احسن ملک کے مطابق چوکی کے آس پاس سدرلینڈ کو تلاش کرنے کی کوشش کی گئی لیکن یہ کوشش کامیاب نہ ہوئی۔
اگلے دن علم ہوا کہ سدرلینڈ دراصل فائرنگ کے وقت جان بچانے کے لیے کھیتوں میں چھپ گئے تھے اور رات کے اندھیرے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے بخشی گنج واپس پہنچ چکے ہیں۔
اسلحہ اور خوراک کی کمی
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا تھا۔ دوسری جانب انڈین ہائی کمان کی جانب سے بھی سوال کیا جا رہا تھا کہ ایک چھوٹی سی چوکی پر قبضے میں اتنی دیر کیوں لگ رہی ہے جبکہ ان کو واضح عددی برتری حاصل ہے۔
30 نومبر کے آس پاس کمال پور پر ایک اور حملہ کیا گیا۔ اس بار کیپٹن احسن ملک نے انڈین فوجیوں کو زیادہ قریب آنے دیا۔ جوں ہی انڈین فوجی چوکی کے قریب پہنچے تو اچانک ان پر فائر کھول دیا گیا۔ حملہ پسپا ہونے کے بعد تقریبا 20 لاشیں گنی گئیں۔
میجر جنرل سکھونت سنگھ کے مطابق ’چوکی پر ہونے والے حملے کے دوران جب ایک جوابی مارٹر گولہ انڈین بٹالین کمانڈر کے قریب گرا اور چار فوجیوں کے چیتھڑے اڑے تو اس کے اوسان خطا ہو گئے اور حملہ آوروں کو پسپا ہونا پڑا جس کے بعد کمانڈنگ افسر کو تبدیل کر دیا گیا۔‘
میجر جنرل سکھونت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’مسلسل حملوں اور ہلاکتوں کی وجہ سے انڈین فوجیوں کے حوصلے پست ہو رہے تھے اور ہائی کمان بریگیڈیئر ہردیو کی صلاحیت پر شک کرنے لگی تھی۔‘
صدیق سالک نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ ’دو ہفتوں کی لڑائی کے بعد اب اصل مسئلہ یہ تھا کہ ایمونیشن اور خوراک کا فقدان پیدا ہو چکا تھا کیونکہ احسن ملک تک رسد پہنچانے کی تمام کوششیں ناکام رہی تھیں۔‘
ایسے میں احسن ملک کے لیے ضروری تھا کہ وہ گولیاں اور خوراک بچا کر رکھتے اور اسی لیے انھوں نے چند اقدامات بھی اٹھائے تاکہ دستیاب سامان زیادہ سے زیادہ دیر تک باقی رہے۔ صدیق سالک کے مطابق زخمی فوحیوں اور رضاکاروں کو ضروری طبی علاج بھی فراہم نہیں کی جا سکتی تھی کیونکہ ’چوکی پر صرف ایک نرسنگ سسٹنٹ موجود تھا جو صرف پٹی کر سکتا تھا اور درد کے لیے دوائی دے سکتا تھا۔‘
صدیق سالک کی کتاب کے مطابق اب احسن ملک کی چوکی پر ’ہر فوجی کے پاس فی رائفل 75 گولیاں، لائٹ مشین گن کے 200 راؤنڈ اور 22 مارٹر گولے باقی بچے تھے۔‘
ہتھیار ڈالنے کا پیغام
چار دسمبر کو پاکستان اور انڈیا کے درمیان باقاعدہ جنگ کا آغاز ہو گیا۔ اس دن جب دو ہیلی کاپٹر کمال پور کے اوپر نمودار ہوئے تو چوکی میں محصور پاکستانی فوجیوں کو گمان ہوا کہ ان تک کمک آخرکار پہنچنے والی ہے۔ صدیق سالک لکھتے ہیں کہ ’ان کے تھکے ہارے چہرے امید سے جگمگا اٹھے۔‘ لیکن یہ امید زیادہ دیر برقرار نہیں رہی۔
یہ انڈین فوج کے ہیلی کاپٹر تھے جو فضا میں بلندی سے چوکی کا تفصیلی جائزہ لے رہے تھے۔ دوسری جانب ایمونیشن کی کمی کے باعث اب کیپٹن احسن ملک تاکید کر چکے تھے کہ گولیوں کا بے جا استعمال نہ کیا جائے۔
انڈین فوجیوں کو بھی اس بات کا احساس ہو چکا تھا اور وہ رفتہ رفتہ چوکی کا گھیراؤ تنگ کرتے جا رہے تھے۔
اسی دوپہر کو انڈین فوج کی جانب سے سفید جھنڈا اٹھائے ایک بنگالی کے ہاتھوں کیپٹن احسن ملک کو پیغام بھجوایا گیا کہ وہ ہتھیار پھینک کر انسانی جانوں کو بچا لیں ورنہ نتائج کی ذمہ داری بھگتنے کے لیے تیار رہیں۔
اس پیغام میں لکھا گیا تھا کہ ’آپ نے گزشتہ چند دنوں کے دوران اسلحہ اور رسد منگوانے کی بھرپور کوشش کی ہے جو کہ آپ جانتے ہیں ناکام رہی ہے۔ یہ رسد ہمارے ہاتھ لگ چکی ہے۔ آپ کی چوکی کا وقت ختم ہو چکا ہے اور آپ جو فیصلہ کریں ہم اس چوکی پر قبضہ کرنے کا پورا ارادہ رکھتے ہیں۔ آپ کو مزید جانی نقصان سے بچانے کے لیے یہ پیغام بھجوایا جا رہا ہے۔ گزشتہ دن سے پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے اور آپ کے ساتھی فوجی آپ سے میلوں دور ہیں۔‘
اس پیغام کا جواب چوکی کی طرف سے انڈین فوجیوں پر گولیوں کی بوچھاڑ سے دیا گیا تو تھوڑی ہی دیر میں فضا میں چار انڈین مگ طیارے چوکی پر بمباری کرنے پہنچ گئے۔ کچھ دیر بعد ایک بار پھر فضائی بمباری کی گئی جس کے بعد ہتھیار ہھینکنے کے لیے ایک اور پیغام بھجوایا گیا۔
میجر جنرل سکھونت سنگھ کے مطابق اس پیغام میں لکھا گیا کہ ’آپ نے ہمارے پہلے پیغام پر توجہ نہیں دی۔ یہ آپ کو منطق سے کام لینے کی آخری درخواست ہے۔ آپ نے کچھ دیر قبل دوائی کا ذائقہ چکھ لیا ہے۔ اگر آپ ہتھیار پھینکنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کو وہی عزت دی جائے گی جو کسی ایسے دشمن کو دی جاتی ہے جس نے دلیری سے مقابلہ کیا ہو۔‘
سکھونت سنگھ لکھتے ہیں کہ اس پیغام کے جواب میں بھی چوکی کی جانب سے گولیوں کی بوچھاڑ کی گئی۔
’اب میں آپ کو مزید وقت نہیں دے سکتا‘
کیپٹن احسن ملک کو اب فیصلہ کرنا تھا۔ ان کا اسلحہ، جو پہلے ہی کم ہو چکا تھا، ختم ہونے والا تھا۔ ان تک کمک یا رسد پہنچنے کے تمام راستے انڈین فوج کے قبضے میں تھے۔
فرار ہونے کی کوشش بھی کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی تھی کیونکہ جیسے ہی وہ چوکی کے دفاع سے نکلتے، تو انڈین فوجیوں کی گولیوں کا نشانہ بن جاتے۔ قریب ترین کمپنی ہیڈ کوارٹر کئی میل دور تھا جہاں تک پہنچنے کے لیے ان کے پاس کوئی گاڑی نہ تھی۔
سکھونت سنگھ لکھتے ہیں کہ ایسے میں کیپٹن احسن ملک نے اپنے کمانڈنگ افسر لیفٹینینٹ کرنل سلطان سے رابطہ کیا تاہم ان کو کمک نہ مل سکی کیونکہ اب بخشی گنج پر بھی انڈین فوج حملہ کر چکی تھی۔
ادھر انڈین فوجی سربراہ اب اپنا ضبط کھو چکے تھے۔ انھوں نے چوکی پر ایک بار پھر فضائی بمباری کروانے کے بعد کیپٹن احسن ملک کو تیسرا اور آخری پیغام بھجوایا جس میں لکھا تھا کہ ’اب میں آپ کو مزید وقت نہیں دے سکتا۔ یہ بہتر ہو گا کہ آپ کسی پیغام رساں کے ہمراہ آئیں۔ میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔‘
سکھونت سنگھ لکھتے ہیں کہ ’لیکن اس تیسرے پیغام کے جواب میں بھی ایک بار پھر چوکی کے بنکرز سے گولیوں کی بوچھاڑ ہو گئی جس نے انڈین فوجی سربراہ کو غصہ دلا دیا اور انھوں نے رات کے وقت چوکی پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا۔‘
گولیوں کی یہ بوچھاڑ کمال پور چوکی کا آخری جواب تھا۔ تقریبا شام سات بجے کیپٹن احسن ملک سفید جھنڈا اٹھائے چوکی سے باہر نکلے اور انھوں نے ہتھیار ڈالنے پر حامی بھری۔
انھوں نے اپنے مضمون میں لکھا ہے کہ ’ایمونیشن ختم ہو چکا تھا۔ انڈین فوج کو اب جواب دینے کے لیے گولیاں بھی باقی نہیں تھیں۔ 21 دن تک کسی قسم کی کمک کے بغیر لڑنے کے بعد اب اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا۔‘
تاہم کیپٹن احسن ملک نے واضح کیا کہ وہ انڈین فوج کی جانب سے ہتھیار پھینکنے کے پیغام کے جواب میں یہ فیصلہ نہیں کر رہے بلکہ انھوں نے اپنے کمانڈر کی ہدایت پر ایسا کیا۔
’تمھارے باقی جوان کہاں ہیں؟‘
سکھونت سنگھ لکھتے ہیں کہ کیپٹن احسن ملک نے 21 دن تک محاصرے کے باوجود بہادری سے صرف 140 کی نفری کے ساتھ ایک پورے بریگیڈ کو روکے رکھا جس پر ’انڈیا کے آرمی چیف جنرل سیم مانیکشا نے ان کو ایک تہنیتی پیغام بھجوایا۔‘
جنرل مانیکشا، جو ’سیم بہادر‘ کے نام سے بھی جانے جاتے ہیں، نے ’انڈین فوج کے فارمیشن کمانڈر کو یہ ہدایت بھی دی کہ وہ کمال پور کا بہادری سے دفاع کرنے والے پاکستانی فوجیوں سے عزت دارانہ سلوک کریں۔‘
بریگیڈیئر ہردیو سنگھ بھی اس افسر سے ملنا چاہتے تھے جنھوں نے ان کے بریگیڈ کا مقابلہ کیا تھا۔ جب وہ چوکی پر پہنچے تو وہ مربوط دفاعی نظام دیکھ کر حیران رہ گئے کہ توپ خانے کی بھاری بمباری اور فضائی حملوں کے باوجود کنکریٹ سے بنے پل باکسوں پر دراڑ تک نہیں پہنچی تھی۔
احسن ملک لکھتے ہیں کہ ’انڈین فوجی افسر نے ان سے سوال کیا کہ تمھارے باقی جوان کہاں ہیں کیونکہ ان کے سامنے صرف 60 فوجی اور نو زخمی جوان تھے‘ جن کے علاوہ چند نیم تربیت یافتہ رینجر اور چند غیر تربیت یافتہ رضاکار تھے۔
احسن ملک نے جواب دیا کہ ’ہم 21 دن سے محاصرے میں ہیں اور کسی نے چوکی کو نہیں چھوڑا۔ یہ سن کر انڈین افسر حیران ہوئے کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس چوکی پر کم از کم پاکستانی فوجیوں کی ایک پوری کمپنی تو ضرور موجود ہو گی۔‘
احسن ملک کے مطابق ’انڈین فوجی افسر ان بنکرز کو دیکھنا چاہتے تھے لیکن جب وہ ایک بنکر میں داخل ہونے لگے تو انھوں نے کہا کہ پہلے آپ اندر جائیں کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ وہاں بارودی سرنگ نہ ہو۔‘
چند دن بعد جمال پور میں احسن ملک کے کمانڈنگ افسر لیفٹینینٹ کرنل سلطان اور ہردیو سنگھ کے درمیان بھی خطوط کا دلچسپ تبادلہ ہوا۔
تاہم بریگیڈیئر ہردیو سنگھ کمال پور کی چوکی کے ہتھیار پھینکنے کے 11 دن بعد ڈھاکہ کی مضافات میں پہنچنے والے پہلے سینیئر انڈین فوجی افسر بن گئے جہاں موجود پاکستانی کمانڈر جنرل امید عبد اللہ نیازی کو بھی کچھ ایسی ہی صورتحال کا سامنا تھا جیسا کیپٹن احسن ملک کو۔
کئی سال بعد انڈین صحافی کرن تھاپر نے 1971 میں انڈیا کی فوج کے آرمی چیف جنرل سیم مانیکشا سے سوال پوچھا کہ ’کیا واقعی آپ نے کیپٹن احسن ملک نامی ایک پاکستانی فوجی افسر کی بہادری سے متاثر ہو کر انھیں ایک تہنیتی پیغام بھجوایا تھا؟‘
اس کے جواب میں سیم مانیکشا نے کہا کہ ’یہ سچ ہے۔ ہم ایک جگہ کو فتح کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس کا دفاع احسن ملک کر رہے تھے۔ ہم نے بھرپور کوشش کی لیکن ہم تیسری کوشش تک کامیاب نہیں ہو سکے۔ وہ بہت دلیری سے لڑا اور میں نے اسے ایک خط لکھا تھا۔‘
سیم مانیکشا نے کرن تھاپر کو بتایا کہ ’جب میں جنگ کے بعد پاکستان گیا تو میں نے اس کا ذکر پاکستانی ہم منصب سے بھی کیا اور میں نے اس سے کہا کہ میرے خیال میں اس لڑکے کو بہادری کا تمغہ ملنا چاہیے کیونکہ وہ جرات مندانہ اور شاندار طریقے سے لڑا تھا۔‘
کرن تھاپر نے سوال کیا کہ ’کیا پھر احسن ملک کو تمغہ دیا گیا؟‘ سیم مانیکشا نے جواب دیا کہ ’میں نہیں جانتا۔‘
کیپٹن احسن صدیق ملک کو ستارہ جرات دیا گیا۔ وہ بعد میں فوج سے کرنل کے عہدے سے ریٹائر ہوئے۔ شاید وہ واحد ایسے فوجی ہیں جن کی بہادری کا اعتراف اور انھیں تمغہ دینے کی سفارش مخالف فوج کے سربراہ نے خود ذاتی حیثیت میں کی۔