’وزیر اعظم کے صرف ایک پیر میں چپّل تھی، دوسرے میں نہیں۔۔۔ وہ بھی بےنظیر بھٹّو جیسی وزیراعظم۔۔۔‘
یہ منظر ہے 20 ستمبر 1996 کی اس رات کا جب پاکستان کی اُس وقت کی وزیراعظم بےنظیر بھٹّو اپنے بھائی میر مرتضیٰ بھٹّو کی موت پر شدّتِ غم سے نڈھال ہو کر کراچی کے متموّل علاقے کلفٹن کے ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال پہنچی تھیں۔
42 سالہ مرتضیٰ بےنظیر کی ہسپتال آمد سے چند گھنٹے قبل ہی اپنے محافظین اور پولیس اہلکاروں کے درمیان فائرنگ کے تبادلے کے میں چار گولیاں لگنے کے بعد شدید زخمی حالت میں ہسپتال لائے گئے تھے اور طبّی امداد فراہم کیے جانے کے دوران دم توڑ گئے تھے۔
لیکن کیا یہ انتہائی متنازع اور ہمیشہ پراسرار سمجھی جانے والی کارروائی واقعی پولیس مقابلہ تھا، یا مرتضیٰ بھٹّو کا قتل ایک سوچی سمجھی سازش تھا؟
یہ اور ایسے بہت سے سوالات ہیں جن کے جوابات میں اور میری طرح اس واقعے کو رپورٹ کرنے والے صحافی، دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ، کراچی پولیس سے لے کر برطانوی پولیس (سکاٹ لینڈ یارڈ) تک کے تمام تفتیشی افسران، قانون نافذ کرنے والے اداروں کے حکام، عدالتیں، تحقیقاتی کمیشن اور سب سے بڑھ کر بھٹّو خاندان 24 برس سے تلاش کر رہے ہیں۔
اس کہانی پر موقف جاننے کے لیے مرتضیٰ بھٹّو کے خاندان خاص طور پر غنویٰ بھٹّو سے رابطے کی بارہا کوششیں کی گئیں مگر نہ تو وہ دستیاب ہو سکیں اور نہ ہی فون پر بھیجے گئے کسی پیغام کا جواب دیا گیا۔
مرتضیٰ بھٹّو کیسے، کن حالات میں اور کیوں ہلاک ہوئے؟ یہ جاننے کے لیے بھٹّو خاندان کی نجی اور سیاسی زندگی پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے، ورنہ شاید یہ کہانی سمجھ میں نہ آئے۔
18 ستمبر 1954 کو پیدا ہونے والے میر غلام مرتضیٰ بھٹّو پاکستانی سیاستدان ذوالفقار علی بھٹّو کی دوسری اولاد اور بڑے صاحبزادے تھے۔ ذوالفقار علی بھٹّو کی پہلی شادی 1943 میں شیریں امیر بیگم سے اور دوسری شادی 1951 میں کرد نژاد ایرانی نصرت بھٹّو سے ہوئی۔ ذوالفقار اور نصرت بھٹّو کے چار بچّے تھے جن میں بے نظیر بھٹّو، میر مرتضیٰ، صنم بھٹّو اور شاہنواز بھٹّو شامل تھے۔
مرتضیٰ بھٹّو نے کراچی گرامر سکول سے ابتدائی تعلیم کے بعد پہلے امریکہ کی ہارورڈ یونیورسٹی اور پھر برطانیہ کی آکسفورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کی تھی۔
پانچ جولائی 1977 کو پاکستانی فوج کے سربراہ جنرل ضیا الحق نے مرتضیٰ کے والد اور پاکستان کے نویں وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹّو کی حکومت کا تختہ الٹ کر مارشل لا نافذ کیا اور جب 16 ستمبر 1977 کو ذوالفقار بھٹّو کو گرفتار کیا گیا تو انھوں نے میر مرتضیٰ کو ملک سے باہر بھیج دیا۔
چار اپریل 1979 کو ذوالفقار علی بھٹّو کو پھانسی دے دی گئی جبکہ جنرل ضیا کی فوجی حکومت نے نصرت بھٹّو اور بے نظیر بھٹّو کو گرفتار کر لیا اور یہ دونوں خواتین طویل عرصے تک اسیر اور نظر بند رکھی گئیں۔
’الذوالفقار‘ کا قیام
جب ذوالفقار بھٹو کو پھانسی دی گئی تو مرتضیٰ اور شاہنواز بھٹو لندن کے ایک فلیٹ میں رہ رہے تھے۔ اس کے علاوہ دونوں بھائیوں نے افغانستان اور شام سمیت کئی دیگر ممالک میں بھی وقت گزارا۔
افغانستان میں قیام کے دوران مرتضیٰ اور شاہنواز نے اپنے والد کا تختہ الٹے جانے کا انتقام لینے کے لیے (مبیّنہ طور پر) ’الذوالفقار‘ نامی تنظیم قائم کی۔ اس تنظیم میں پیپلز پارٹی اور اس کی ذیلی طلبہ تنظیم پی ایس ایف کے ارکان شامل تھے۔
اُس وقت کے اخبارات کے جائزے، سیاستدانوں، پولیس اور سرکاری اداروں کے موجودہ و سابق افسران کی غیر رسمی گفتگو کے مطابق ’الذوالفقار‘ مرتضیٰ بھٹّو یا اُن کے ساتھیوں نے قائم کی یا نہیں، مگر یہ تنظیم وجود ضرور رکھتی تھی اور پاکستان کے ریاستی اداروں کے پاس اطلاعات اور شواہد تھے کہ ’الذوالفقار‘ کے رابطے انڈین اور افغان خفیہ اداروں سے بھی تھے۔
’الذوالفقار‘ نے مزاحمت کے لیے مسلّح جدوجہد کا راستہ اپنایا اور دو مارچ 1981 کو پی آئی اے کی پشاور جانے والی پرواز PK-326 کو ہائی جیک کرنے کی ذمہ داری قبول کی۔
کراچی سے پشاور کے لیے روانہ ہونے والی یہ فلائٹ کابل لے جائی گئی جہاں فوجی افسر میجر طارق رحیم کو جہاز پر ہی قتل کر کے اُن کی لاش رن وے پر پھینک دی گئی۔ ان ہائی جیکرز نے جنرل ضیا کی فوجی حکومت کو دھمکی دی کہ جن 53 افراد کی رہائی کا وہ مطالبہ کر رہے تھے، اگر انھیں رہا نہ کیا گیا تو جہاز میں سوار تمام 143 افراد کو ہلاک کر دیا جائے گا۔ 13 دن تک جاری رہنے والی یہ ہائی جیکنگ اس وقت ختم ہوئی جب ہائی جیکرز کے مطالبات کی منظوری کے بعد مسافروں کو رہا کر دیا گیا۔
مرتضیٰ بھٹّو کا خاندان، خاص طور پر اُن کی صاحبزادی فاطمہ بھٹّو، ہمیشہ ’الذوالفقار‘ کی مسلّح کارروائیوں یا اُن سے مرتضیٰ بھٹّو کی وابستگی کی تردید اور دفاع کرتے رہے ہیں اور اس الزام کو تسلیم کرنے پر کبھی تیار دکھائی نہیں دیے۔
دوسری جانب مرتضیٰ بھٹّو کی بہن بےنظیر بھٹّو والدہ کے ساتھ پارٹی کی شریک سربراہ کے طور پر پارٹی کی قیادت اور سیاسی جدوجہد کرتی رہیں اور 17 اگست 1988 کو طیارے کے حادثے میں فوجی آمر جنرل ضیا کی ہلاکت کے بعد 16 نومبر 1988 کو ہونے والے انتخابات کے نتیجے میں بےنظیر پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بن گئیں۔
پارٹی میں دھڑ بندی اور بہن، بھائی کے درمیان اختلافات
اس دوران پیپلز پارٹی کی اندرونی کشمکش بھی پورے زور و شور سے جاری رہی۔ بےنظیر کو اپنی جماعت کے بعض ناراض ارکان کا سامنا رہا جن کا موقف تھا کہ انھوں نے اقتدار کو فوقیت دیتے ہوئے اپنے والد ذوالفقار بھٹّو کی سیاسی روش ترک کر دی ہے اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ سے سمجھوتہ کر لیا۔
خود اُن کے بھائی مرتضیٰ بھٹّو کا موقف بھی یہی رہا کہ بےنظیر اور ان کے شوہر آصف زرداری کی پالیسیوں کی وجہ سے پارٹی کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور یہ اب ذوالفقار علی بھٹّو کی پیپلز پارٹی نہیں رہی۔
پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل بھی بہن بھائی کی درمیان اختلاف کو تسلیم کرتے ہیں۔ انھوں نے بتایا: ’اختلاف تھا مگر آخری دنوں میں بہت کم رہ گیا تھا اور دونوں جانب بے انتہا لچک پیدا ہو گئی تھی۔ بےنظیر بھٹّو ’پرچی‘ کے ذریعے تبدیلی پر یقین رکھتی تھیں اور جمہوری طریقوں کی بات کرتی تھیں۔ بی بی ڈیل نہیں ڈائیلاگ کرتی تھیں۔ ڈیل کا تاثر قطعاً نہیں تھا۔‘
عبدالقادر پٹیل نے کہا کہ ’بعد میں مرتضیٰ بھٹّو بھی یہ مان گئے تھے اور خود بھی سیاسی نظام کا حصّہ بنے، الیکشن لڑا اور پارلیمانی طرز سیاست اختیار کی۔ مگر وہ کبھی ’برچھی‘ کی بھی بات کرتے تھے اور ان کی طرز سیاست جارحانہ انداز لیے تھی اور ظاہر ہے کہ اس کی وجوہات بھی تھیں۔ ان کے والد اور بھائی کا قتل ہوا تھا۔‘
مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھیوں کا خیال رہا کہ آصف زرداری سے شادی کے بعد بےنظیر بھٹّو جب پہلی بار وزیر اعظم بنیں تو عہدوں اور وزارت پر فائز بعض ارکان کی مبینہ بدعنوانیوں اور بے قاعدگیوں کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی ساکھ کو ناقابل تلافی نقصان پہنچا۔
اس موقف کو رد کرتے ہوئے قادر پٹیل نے کہا ’کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی۔ سیاست میں تو آپ مخالفت کرتے ہی ہیں ان کے خاندان میں کوئی خلیج نہیں تھی۔‘
مگر مرتضیٰ بھی بےنظیر اور آصف زرداری پر کھلے عام تنقید کرتے اور پریس کانفرنس ہو یا جلسے جلوس، وہ اپنی بہن کی حکومت کی پالیسیوں، طرزِ سیاست اور مبینہ بدعنوانیوں پر کڑی نکتہ چینی کرنے سے نہیں چوکتے تھے۔
عبدالقادر پٹیل کہتے ہیں کہ ایک زمانہ تھا جب مرتضیٰ بھٹّو ’انتہائی مطلوب شخص‘ بھی تھے، پھر وہی مرتضی بھٹّو پاکستان آ کر الیکشن بھی لڑتے ہیں۔ ’تو بہت ساری چیزیں تبدیل ہوتی ہیں۔‘
پیپلز پارٹی کے بعض سخت گیر عناصر میں یہ سوچ بھی پروان چڑھی کے دراصل بےنظیر کے بجائے مرتضیٰ بھٹّو ہی کو ذوالفقار بھٹّو کا سیاسی جانشین ہونا چاہیے۔
پارٹی کی اسی اندرونی کشمکش کے نتیجے میں بے نظیر بالآخر اپنی والدہ کو عہدے سے ہٹاتے ہوئے خود پارٹی کی مکمل سربراہ منتخب ہو جانے میں کامیاب ہوئیں۔
مگر پارٹی میں ناراض ارکان کی سوچ پھر بھی باقی و برقرار رہی اور ان عناصر نے مرتضی بھٹّو کی قیادت میں پیپلز پارٹی (شہید بھٹّو گروپ) کے نام سے نئی سیاسی جماعت یہ موقف اختیار کرتے ہوئے قائم کی کہ دراصل یہی ذوالفقار بھٹّو کی اصل جماعت ہے۔
بالآخر خود نصرت بھٹّو نے بھی اپنے بیٹے مرتضی کی حمایت کا اعلان کیا اور اس وقت تک ان کی حمایت کرتی رہیں جب تک وہ شدید بیماری کی وجہ سے عوام کی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہو گئیں۔
خاندانی زندگی
کابل میں جلا وطنی کے دوران 1981 میں مرتضیٰ بھٹّو نے دری نسل سے تعلق رکھنے والے افغان وزارت خارجہ کے ایک افسر کی صاحبزادی فوزیہ فصیح الدین سے شادی کی جن سے اُن کی بڑی صاحبزادی فاطمہ بھٹّو 29 مئی 1982 کو پیدا ہوئیں۔
فاطمہ بھٹّو تین برس کی تھیں کہ مرتضی بھٹّو اور فوزیہ بھٹّو میں علیحدگی ہوگئی اور مرتضی فاطمہ بھٹّو کے ہمراہ شام منتقل ہو گئے۔
شام میں میر مرتضیٰ بھٹّو کی ملاقات غنویٰ بھٹّو سے ہوئی اور 1989 میں دونوں نے شادی کرلی۔ غنویٰ بھٹّو مرتضیٰ بھٹّو کے فرزند ذوالفقار علی بھٹّو (جونئیر) کی والدہ ہیں۔
وطن واپسی
مرتضیٰ بھٹّو 18 اکتوبر 1993 کے انتخابات میں پی ایس 31 لاڑکانہ کے اپنے آبائی ضلعے سے صوبائی اسمبلی کی نشست پر رکن سندھ اسمبلی منتخب ہوئے اور وطن واپس پہنچے تو یہاں اُن کی بہن بے نظیر بھٹّو کے حکم پر انھیں دہشت گردی کے الزامات کے تحت گرفتار کرلیا گیا۔
رہا ہوئے تو انھوں نے بہن کے مقابلے میں اپنی سیاسی قوّت مجتمع کرنے کی غرض سے آزادانہ نقل و حرکت کا آغاز کیا۔
ذاتی شخصیت
انقلابی ذہنیت اور جارحانہ انداز کے حامل تند خُو اور تیز مزاج مرتضیٰ بھٹّو سندھ اسمبلی کے رکن بن کر پارلیمانی سیاست کا حصّہ بن تو گئے تھے مگر اُن کے جارحانہ رویّے میں پاکستان کے ریاستی اور سرکاری اداروں کی جانب نرمی کبھی نہیں آئی۔
عملی سیاست انھیں جلسہ گاہوں، اجلاسوں، سیاسی میل ملاقات اور عوامی اجتماعات تک لے تو آئی تھی مگر جارح مزاج مرتضیٰ بھٹّو میں سیاسی رہنماؤں کی سی سمجھوتہ بازی یا مصالحانہ انداز کبھی نہیں آسکا۔
ریاستی اور سرکاری اداروں کی جانب اُن کا شدید ردعمل کبھی نرم مزاجی کی جانب مائل نہیں رہا جنھیں وہ اپنے والد کا قاتل سمجھتے اور کہتے رہے۔
مرتضیٰ بھٹّو اور پولیس
ایک بار کراچی سے اپنے آبائی شہر لاڑکانہ میں خاندانی قبرستان گڑھی خدا بخش میں والد کی قبر پر جلوس کی صورت میں جانے کے اُن کے فیصلے نے بےنظیر بھٹّو حکومت کے لیے سیاسی خطرے کی گھنٹی بجائی تو حکومت نے فیصلہ کیا کہ مرتضی بھٹّو کو لاڑکانہ جانے سے روکا جائے۔
ایک سابق پولیس افسر نے جو اب ملک میں نہیں رہتے، نے بتایا کہ ’وزیر اعظم کی ہدایت پر صوبائی وزیر اعلیٰ سید عبداللّہ شاہ (موجودہ وزیر اعلیٰ سندھ کے والد) نے پولیس اور ضلعی انتظامیہ کو احکامات دئیے کہ مرتضی بھٹّو کا قافلہ روکا جائے۔‘
ایک سینئیر پولیس افسر نے یاد دہانی کروائی کہ ’ایس ایس پی رمضان چنّہ پہلے پولیس افسر تھے جس نے اُن کا راستہ روکنے کی کوشش کی۔‘
مگر مرتضیٰ بھٹّو نے کسی کو خاطر میں لائے بغیر اپنا سفر جاری رکھا۔ یہ سلوک لاڑکانہ تک اُن کا قافلہ روکنے کی کوشش کرنے والے ہر افسر کے ساتھ ہوا۔ ’پولیس افسران کو سڑک پر اپنی عزّت بچانا مشکل لگنے لگتا تھا۔‘
پاکستان سے باہر مقیم ایک اور افسر، سابق ایس پی لیاری فیاض خان کہتے ہیں کہ ’تھانے جا کر اپنے حامیوں کو چھڑوا لینا تو اُن کا معمول بن گیا تھا۔‘
’ایک بار تو خود میرے ساتھ ہوا۔ میں نے مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھی استاد تاجُو کو گرفتار کیا۔ پھر اسی خدشے کی تحت اُسے کسی اور محفوظ مقام پر منتقل کیا کہ مرتضیٰ بھٹّو اسے چھڑوانے کی کوشش کرسکتے ہیں۔‘
’وہی ہوا، مرتضیٰ بھٹّو خود اپنے ساتھیوں کے ساتھ پہنچے تاکہ تاجُو کو چھڑوا سکیں۔ میرے عملے کے ساتھ اُن سب نے بےانتہا بدسلوکی کی تھی۔ اگر تاجُو وہاں ہوتا تو اُسے چھڑوا لے جاتے۔‘
جب یہ سب ہو رہا تھا تو مرتضیٰ بھٹّو کے قریبی حلقے میں ایسے عناصر بھی تھے جن کے بارے میں پاکستانی اداروں کو شبہ تھا کہ وہ (مبینہ طور پر) براہ راست انڈین یا افغان خفیہ اداروں سے رابطے میں تھے یا رہ چکے تھے۔
اُس وقت کراچی 1990 کی دہائی کی مسلّح شورش سے سنبھل ہی رہا تھا اور 1992 میں شروع ہونے والا فوج، پولیس اور ریاستی اداروں کا آپریشن کلین اپ اپنے اختتامی مراحل میں تھا۔
ڈاکٹر شعیب سڈل مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت اور کراچی آپریشن کے وقت کراچی پولیس کے سربراہ یعنی ڈی آئی جی کراچی تھے۔
ڈاکٹر سڈل نے کہا کہ ایسے ماحول میں مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھی اسلحے سے لیس اپنے محافظین کے ساتھ آزادانہ نقل و حرکت کرتے تھے اور تھانوں یا پولیس مراکز میں یہ زور زبردستی بڑھتی جا رہی تھی۔
’پولیس نے بڑی قربانیوں کے بعد کراچی میں کسی حد تک امن قائم کر دیا تھا اور مسلّح گروہوں کی کھلے عام نقل و حرکت اس نازک امن کو نقصان پہنچا سکتی تھی۔‘
وہ بتاتے ہیں ’میں نے کہہ رکھا تھا کہ جو قانون ہاتھ میں لے اُس کے خلاف کارروائی کرو۔ لیکن چونکہ صورتحال اس سے پہلے ہی سے بگڑ رہی تھی اس لیے فیصلہ ہوا کہ اس قسم کی کارروائی برداشت نہیں کی جاسکتی اور اس لیے اب مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا جائے۔‘
’میں نے اُسی رات حکم دیا کہ جو بھی ہو گرفتار کر لیا جائے۔‘
وہ یاد کرتے ہیں کہ ’جب حکومت کے نوٹس میں لایا گیا تو وزیراعلیٰ عبداللّہ شاہ نے کہا کہ پہلے وزیر اعظم بےنظیر بھٹّو سے پوچھ لیں۔ جب میں نے ان سے بات کی تو انھوں نے کہا کہ جب آپ اُس (میر مرتضیٰ) کو پکڑیں گے تو ہمارے مخالفین کہیں گے کہ بےنظیر نے گرفتار کروا دیا۔ کوئی یقین نہیں کرے گا کہ پولیس نے اپنے طور پر فیصلہ کیا تھا۔‘
شعیب سڈل نے بےنظیر بھٹّو کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا ’اس لیے ذرا رک جائیں۔ میں دو چار روز میں کراچی آتی ہوں تو پھر کچھ کرتے ہیں۔ تب تک سوچ لیتے ہیں۔‘
شعیب سڈل بتاتے ہیں کہ ’پھر وزیر اعظم سے مشورے کے بعد میرے حکم میں اتنی ترمیم ضرور ہوئی کہ میر مرتضیٰ کے علاوہ اُن کے جو بھی ساتھی ہوں، جو ملتا ہے گرفتار کر لیا جائے۔‘ اس کے ساتھ ہی مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کی رہائشگاہوں اور ٹھکانوں پر چھاپوں کا سلسلہ شروع ہوا۔
پولیس سے جھڑپ کیوں ہوئی؟
مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں میں پولیس کو مطلوب سب سے نامور اور نمایاں شخص تھے علی سنارا۔ ریاستی اداروں کو اطلاع اور شبہ تھا کہ علی سنارا کسی غیر ملکی ادارے سے رابطے میں ہیں۔
اُس وقت تک کیماڑی آئل ٹرمینل پر راکٹ حملوں، بم دھماکوں اور دہشت گردی سے جڑی کئی وارداتیں ہو چکی تھیں۔
علی سنارا ایسے کئی واقعات میں نامزد اور ریاستی اداروں کو مطلوب تھے۔
ان حالات میں کراچی آپریشن سے شہرت حاصل کرنے والے انسپکٹر ذیشان کاظمی نے 16 ستمبر 1996 کو علی سنارا کو گرفتار کر لیا مگر اندیشہ تھا کہ مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھی علی سنارا کو چھڑوانے کی کوشش کریں گے اور خدشات کے مطابق مرتضیٰ بھٹّو نے کارروائی کی۔
مرتضی بھٹّو کے قتل سے قبل کراچی میں تعینات ہونے والے ایک افسر نے بتایا کہ ’کراچی آپریشن کے دوران سینکڑوں پولیس مقابلے ہو چکے تھے جن میں پولیس کے ہاتھوں (مبیّنہ طور پر) ماورائے عدالت مارے جانے والوں کی بڑی تعداد سیاسی کارکنان کی ہوتی تھی اور ان مقابلوں کو ’جعلی پولیس مقابلہ‘ کہا جاتا تھا۔
ان مقابلوں میں انسپکٹر ذیشان کاظمی جیسے پولیس افسران ہر آئے دن شریک ہوتے تھے اور علی سنارا کو بھی ذیشان کاظمی نے اٹھایا تھا۔ مرتضیٰ بھٹّو کو خدشہ تھا کہ کہیں علی سنارا کو بھی کسی (مبیّنہ) جعلی پولیس مقابلے میں نہ مار دیا جائے۔ اپنے آخری خطاب میں مرتضیٰ بھٹّو نے اس خدشے کا برملا اظہار بھی کیا تھا۔
اگلے روز صبح کراچی جم خانہ اور سندھ اسمبلی کی عمارت کے قریب دو مختلف بم دھماکے ہوئے۔ ایف آئی آر نامعلوم افراد کے خلاف درج ہوئی مگر شبے کی سوئی ’الذوالفقار‘ کے گرد گھومنے لگی۔
اس شک پر کہ دونوں دھماکے سنارا کی گرفتاری کا ردّ عمل ہیں ’70 کلفٹن‘ کے علاوہ تمام مقامات پر مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کے ٹھکانوں پر پولیس کے چھاپوں کا سلسلہ جاری رہا۔
20 ستمبر 1996 کو کیا ہوا؟
اسی کشیدہ صورتحال میں جمعہ 20 ستمبر کا وہ دن آ گیا جب مرتضیٰ بھٹّو کو جلسے کے لیے سُرجانی ٹاؤن جانا تھا۔
اُس روز دو فیصلے ہوئے۔ ایک پولیس نے کیا اور ایک مرتضی بھٹّو نے۔
مرتضی بھٹّو کا فیصلہ تھا کہ وہ جلسے سے قبل پریس کانفرنس کریں گے اور پولیس نے فیصلہ کیا کہ جب مرتضی بھٹّو اور اُن کے ساتھی گھر سے نکلیں گے تو انھیں روک کر اُن کے ساتھیوں کے اسلحے کے لائسنس کی پڑتال کی جائے گی۔ ضروری ہوا تو قانون کو مطلوب افراد کو حراست میں لے لیا جائے گا۔
ایس ایس پی ساؤتھ واجد درّانی اُس وقت کراچی کے جنوبی ضلعے میں پولیس کے سربراہ تھے۔ ڈی آئی جی شعیب سڈل اور ایس ایس پی واجد درّانی کے تعلقات معمول پر نہیں تھے۔ شعیب سڈل کئی مواقعوں پر مجھ سے رسمی اور غیر رسمی اور ریکارڈڈ گفتگو میں بھی اس کا اعتراف کر چکے ہیں۔ جبکہ کم از کم ایک بار ایس ایس پی واجد درّانی بھی یہ تسلیم کر چکے ہیں۔
جلسے میں جانے کے لیے مرتضیٰ بھٹّو 70 کلفٹن سے نکلے تو پولیس کی نفری 70 کلفٹن کے سامنے شاہراہ ایران پر پہلے سے موجود تھی جو دو تلوار والے چوراہے سے ساحل ِسمندر کی جانب جا رہی ہے جہاں اب تجارتی مرکز پارک ٹاورز کی عمارت ہے۔
اس ٹیم میں (اس وقت کے) ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیّال، اے ایس پی شاہد حیات اور اے ایس پی رائے محمد طاہر شامل تھے۔
پولیس نے مرتضیٰ بھٹّو کے قافلے کا راستہ روکنا چاہا مگر مرتضی بھٹّو کے قافلے میں شامل کوئی بھی گاڑی رکے بغیر چلتی ہی چلی گئی اور پولیس کی کوشش ناکام ہو گئی کہ مرتضیٰ بھٹّو یا اُن کے ساتھیوں کے اسلحہ لائسنس کی پڑتال کر لی جائے۔
کراچی پولیس کے اس وقت کے ایک ایسے افسر نے جو بعد میں آئی جی بھی بنے بتایا کہ ’ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال تھے تو بڑی بڑی مونچھوں والے تھانیدار مگر تصادم، جھڑپ اور محاذ آرائی سے گریز کرتے تھے اور گریز ہی کرتے رہنے کے قائل بھی تھے۔‘
شعیب سڈل، جن کی سرکاری رہائشگاہ ’ڈی آئی جی ہاؤس‘ سڑک کی عین دوسری جانب یعنی 70 کلفٹن کے بالکل سامنے واقع تھی، نے کہا کہ ’مجھے تو اس ’ایکٹیوٹی‘ کا پتہ ہی نہیں تھا۔ میں تو اپنے کولیگ ڈی آئی جی غلام محمد ملکانی کے ساتھ واک کر کے واپس آیا تو سب کچھ معمول کے مطابق لگا۔‘
’کراچی آپریشن کی وجہ سے موبائل فون بند تھے۔ گھر میں آیا تو سٹاف نے بتایا کہ جنرل بابر (بےنظیر بھٹّو حکومت کے وزیر داخلہ نصیر اللّہ بابر) کی کال آئی تھی۔ جنرل بابر نے کراچی کے دھماکوں پر قومی اسمبلی کے لیے تفصیلات طلب کیں۔ چونکہ دونوں دھماکے ڈسٹرکٹ ساؤتھ میں ہوئے تھے تو جنرل بابر کو تفصیلات بھیجنے کے لیے میں نے آپریٹر سے کہا کہ ایس ایس پی ساؤتھ واجد درّانی کو فون پر لو۔‘
وہ بتاتے ہیں کہ ’درّانی سے بات ہوئی تو میں نے دھماکوں کے بارے میں بات کر کے ایسے ہی پوچھ لیا کہ آپ ہیں کہاں؟ اس نے کہا کہ سر آپ کے قریب ہی ہوں۔ میں نے پوچھا کہ کتنا قریب؟ تو اُس نے بتایا کہ ٹریفک پولیس چوکی پر جو ایک فرلانگ سے بھی کم فاصلے پر ہے۔‘
’میں نے کہا اتنے قریب ہو تو اندر آ جاتے تو اس پر درّانی نے بتایا کہ سر آپ کو بتا نہیں سکے پانچ بجے مرتضی بھٹّو کا قافلہ روکنے کی کوشش کی گئی مگر وہ رکے نہیں تھے۔ تو ابھی میں خود آیا ہوں۔ اب وہ جلسہ ختم کر کے سُرجانی سے واپس آئیں گے۔ میں انھیں جانتا بھی ہوں تو میں اس صورتحال کو سنبھال لوں گا۔‘
شعیب سڈل نے کہا کہ واجد درّانی نے انھیں بتایا کہ اب منصوبہ یہ ہے کہ جب مرتضیٰ بھٹّو کا قافلہ واپس آئے گا تو پولیس اُن کی گاڑی کو تو اندر (گھر میں) جانے دے گی مگر پیچھے والی گاڑیوں کو روک لیا جائے گا تاکہ اسلحہ کے لائسنس کی پڑتال کی جا سکے۔
شعیب سڈل نے بتایا ’تو میں نے کہا واجد یہ اس طرح سے نہیں ہو گا۔ مگر اس نے کہا کہ سر میں اسی لیے خود آیا ہوں کہ وہ مجھے جانتے ہیں اور میں ہینڈل کر لوں گا۔‘
ادھر مرتضیٰ بھٹّو سُرجانی ٹاؤن جانے سے قبل پریس کانفرنس کرنے پہنچے اور انھوں نے واضح طور پر کہا ’یہ پولیس آفیسر تو اس قابل نہیں کہ مملکت کی وردی پہنیں۔ یہ مجرم ہیں، انھوں نے کراچی میں نسل کُشی کی ہے، لاتعداد لوگوں کو ماورائے عدالت مار ڈالا ہے، اپنے دفاتر میں رہنے کا ان کا وقت اب ختم ہو رہا ہے، اب ان کا جیل جانے کا وقت آنے والا ہے میں انھیں چیلنج کرتا ہوں کہ آؤ اور مجھے گرفتار کرو، اگر وہ اس کے بعد کے نتائج بھگت سکتے ہیں، سیاسی نتائج۔۔۔‘
مرتضیٰ بھٹّو سُرجانی ٹاؤن گئے اور وہاں بھی خطاب میں کہا کہ ’آپ کا اتنی بڑی تعداد میں آنا علی سنارا کے حق میں ریفرنڈم ہے یہ وہ پیپلز پارٹی ہے جس نے بانی قائد کے قاتلوں کو ساتھ بٹھا لیا ہے اگر تمہارا خیال ہے کہ علی سنارا جیسے بہادر کارکنوں کو گرفتار کر کے ڈرا سکو گے تو یہ تمہاری غلطی ہے۔‘
’تین دن سے تم (پولیس افسران) کہہ رہے ہو مرتضیٰ بھٹّو کو گرفتار کر لو گے۔‘
مرتضیٰ بھٹّو نے ڈی آئی جی شعیب سڈل، ایس ایس پی واجد درّانی اور ایس ایس پی رمضان چنّہ کا نام لے کر کہا کہ ’یہ سیاستدان بنے ہوئے ہیں۔ یہ اخباروں میں (سیاستدانوں کی طرح) بیان دے رہے ہیں کہ ہم مرتضی بھٹّو کو گرفتار کر لیں گے۔‘
’گھر کے ارد گرد موبائل لگائی ہے۔ جو لوگ موت سے نہیں ڈرتے تم انھیں جیلوں سے ڈراتے ہو۔ میں کھڑا ہوں آؤ گرفتار کرو۔ یہ میرا آئینی حق ہے، سیاسی فرض ہے کہ اگر میرا کوئی کارکن گرفتار ہو جائے تو میں اس کے پیچھے جاؤں۔ آئین میں ہے کہ ایم این اے، ایم پی اے عوامی شکایت پر جا سکتے ہیں تھانوں میں۔ ہم سیاسی طور پر مقابلہ کریں گے۔‘
مرتضیٰ بھٹّو نے کہا کہ ’اگر علی سنارا کو کچھ ہوا تو ۔۔۔ اگر اس کا خون کیا تو یاد رکھو عوام اس کا فیصلہ کرے گی۔۔۔‘
مرتضی بھٹّو سُرجانی ٹاؤن کا یہ جلسہ ختم کر کے گھر جانے کے لیے رات قریباً ساڑھے آٹھ بجے کلفٹن کی شاہراہ ایران نامی اُسی سڑک پر پہنچے جہاں ایک جانب جانے والا راستہ اُن کے گھر کی سمت جاتا ہے۔
اُسی سڑک پر پولیس اُن کی آمد کی منتظر تھی۔
تھانہ کلفٹن کے ایڈیشنل ایس ایچ او خرم وارث پولیس کے وہ پہلے تفتیشی افسر تھے جو اُس جھڑپ کے بعد موقع پر پہنچے تھے۔
خرم وارث کا کہنا ہے کہ ’تھانے سے پولیس اسی منصوبے کے تحت گئی تھی کہ قافلے کو روک کر ان کے اسلحے کے لائسنس چیک کرنے تھے۔ پولیس کی تو تعداد بھی اتنی نہیں تھی کہ کسی تصادم کا خدشہ ہوتا۔‘
خرم وارث نے بھی وہی بات کی جو ایک انتہائی سینئر افسر کر چکے تھے، یعنی یہ کہ ایس ایچ او سیال تصادم کے قائل نہیں تھے۔
’سیال میرا ایس ایچ او رہا ہے اور ہم نے ساتھ بڑا کام کیا ہے، یقین کیجئے سیال تو گیلی زمین پر پیر رکھنے جیسا رسک نہیں لیتا تھا۔‘
بعد کی تفصیلات بتاتے ہوئے کئی پولیس افسران نے گفتگو کے کئی ادوار میں بتایا کہ جب مرتضیٰ بھٹّو کو واپس آتے وقت روکنے پر اتفاق ہوا تو ایس ایس پی واجد درّانی نے ٹریفک چوکی میں بیٹھ کر آپریشن کی کمانڈ کا فیصلہ کیا۔
جب جونئیر آفیسرز نے اُن سے عملے کی کمی کی بات کی تو ایس ایس واجد درّانی نے اپنے سکیورٹی کے اہلکار بھی مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کا راستہ روکنے والی پولیس ٹیم کے ساتھ کر دئیے جن کی تعداد آٹھ کے لگ بھگ تھی۔
اب نقشہ یہ تھا کہ واجد درّانی ٹریفک چوکی پر تھے اور وائرلیس سیٹ پر ٹیم کو احکامات دے رہے تھے بلکہ سُرجانی ٹاؤن سے مرتضیٰ بھٹّو گھر واپسی کی بھی پل پل نگرانی کر رہے تھے۔
اے ایس پی شاہد حیات (جو اُس وقت وردی میں نہیں تھے)، اے ایس پی رائے طاہر اور ایس ایچ او حق نواز سیّال شاہراہ ایران پر فٹ پاتھ پر تعینات پولیس کی نفری کے ساتھ مرتضیٰ بھٹّو کی آمد کے منتظر تھے۔
اور اس خدشے کے پیش نظر کے مرتضیٰ بھٹّو کا قافلہ 70 کلفٹن جانے کے لیے دوسرا راستہ یعنی شاہراہ ایران کا پارک ٹاورز والا سرا استعمال کریں تو بھی پولیس اُن کے ساتھیوں کی گاڑی روک سکے، ایس ایچ او نیپیئر تھانہ آغا جمیل اور ایس ایچ او گارڈن شبیر قائم خانی شاہراہ قائدین کے دوسرے سرے پر اپنے اہلکاروں کے ہمراہ موجود تھے۔
راستہ روکنے والی پولیس ٹیم جہاں کھڑی تھی اُس کی ایک طرف گلی میں داخل ہوتے ہی مرتضیٰ بھٹّو کا گھر 70 کلفٹن تھا جبکہ دوسری جانب خود ڈی آئی جی کراچی شعیب سڈل کی سرکاری رہائشگاہ تھی۔
کم از کم چار گاڑیوں پر مشتمل مرتضیٰ بھٹّو کے قافلے نے روایتی راستہ یعنی دو تلوار والا راستہ ہی اختیار کیا۔
ڈرامائی پیشرفت یا بدقسمتی
اور پولیس نے اپنے منصوبے کے عین مطابق پہلی گاڑی کو تو (جو کہ مرتضی بھٹّو کے زیر استعمال رہتی تھی اور مرتضی اُسی میں سفر کرتے تھے)، یہ سمجھ کر جانے دیا کہ مرتضیٰ بھٹّو تو گزر گئے اب وہ گھر کے اندر چلے جائیں گے، اور اُس گاڑی کے پیچھے آنے والی دوسری گاڑی کا راستہ روک لیا۔
اور یہ دوسری گاڑی مرتضیٰ بھٹّو کے قریبی ساتھی عاشق جتوئی کی تھی جسے عاشق جتوئی خود چلا رہے تھے۔
’اب اسے بدقسمتی کہیں یا اتفاق یا حادثہ کے مرتضیٰ بھٹّو عاشق جتوئی کی ساتھ اُن کی اسی پجیرو گاڑی میں بیٹھے تھے۔ اور اُن کی اپنی گاڑی جس میں وہ سفر نہیں کر رہے تھے آگے جا چکی تھی۔‘
’پولیس افسران تو یہی سمجھے کے مرتضی بھٹّو گزر چکے ہیں اور اب جو گاڑی روکی جا رہی ہے اُس میں موجود افراد سے پوچھ گچھ کی جاسکتی ہے۔ جب گاڑی رُکی، تو پولیس کو اندازہ ہوا کہ دراصل مرتضیٰ بھٹّو تو اُسی گاڑی میں ہیں مگر تب تک صورتحال انتہائی پیچیدہ ہو چکی تھی۔‘
گاڑی رکتے ہی مرتضیٰ بھٹّو نے جو ڈرائیور عاشق جتوئی کے ساتھ والی نشست یعنی پیسنجر سیٹ پر بیٹھے تھے شیشہ اُتار کر (مبیّنہ طور پر) پوچھا کہ ’کیا ہو رہا ہے یہ؟‘
پولیس افسران نے بتایا کہ ’کچھ نہیں سر، بس روٹین کی چیکنگ ہو رہی ہے، کاغذ دیکھنا ہیں۔‘
مگر اس سے پہلے کہ بات اور آگے بڑھتی، پیچھے والی گاڑی میں سوار مرتضیٰ بھٹّو کے محافظین اپنی گاڑیوں سے اتر کر سڑک پر پہنچ چکے تھے اور (مبینہ طور پر) اُن میں سے کسی نے اے ایس پی رائے طاہر کے کندھے کی جانب ہاتھ بڑھا کر انھیں مرتضیٰ بھٹّو کی گاڑی سے دور دھکیلنے یا پیچھے ہٹانے یا ہاتھا پائی کرنے کی کوشش کی۔
اتنے میں مرتضیٰ بھٹّو کے باقی سب محافظوں نے مرتضیٰ بھٹّو کی گاڑی کے گرد حفاظتی حصار بنانے یا گھیرا ڈالنے کی کوشش کی۔
اس دھینگا مشتی یا دھکّم پیل میں اے ایس پی رائے طاہر کی قمیض کندھے کے قریب سے پھٹ گئی اور صورتحال انتہائی کشیدہ اور خطرناک ہو گئی۔
پھر سندھی میں دو لفظ سنائی دئیے ’کیر نہ ونجھے‘ اور اس سے پہلے کہ اے ایس پی یا مرتضیٰ بھٹّو اپنے اپنے لوگوں سے یا ایک دوسرے سے کوئی اور بات کرتے، کسی نے گولی چلا دی۔
بس پھر کیا تھا؟ پہلی گولی چلتے ہی دونوں جانب سے شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔
کراس فائر یعنی دونوں جانب سے ہونے والی فائرنگ سے بچنے کے لیے رائے طاہر اور سیّال خود کو بچانے کی کوشش میں دوسری طرف بڑھے ۔
فٹ پاتھ پر تعینات پولیس کی نفری نے اپنے افسران اور اہلکاروں اور مرتضیٰ بھٹّو کے محافظین اور گارڈز نے اپنے رہنما کو بچانے کے لیے (مبیّنہ طور پر) جو بےدریغ گولیاں چلائیں اُن میں سے کئی کا رُخ سڑک کی طرف یعنی نیچے کی جانب بھی تھا اور سڑک پر لگ کر اچھلنے والی ایک گولی ایس ایچ او حق نواز سیّال کی ایڑی میں اور ایک اور گولی ذرا فاصلے پر کھڑے اے ایس پی شاہد حیات کی ٹانگ میں لگی۔
دونوں افسران کو گولی لگتے اور زخمی ہوتے دیکھ کر پولیس اہلکار بھی پوری شدّت سے گولیاں چلانے لگے اور مرتضیٰ بھٹّو کے محافظین بھی۔
ایک افسر نے جو کئی برس تک اس معاملے سے جڑے رہے بتایا کہ ’اسی اثنا میں بجلی منقطع ہو گئی اور سڑک پر اندھیرا چھا گیا۔‘
پہلی گولی کس نے چلائی؟
یہی وہ سب سے اہم سوال ہے جس کے گرد بعد کے تمام الزامات، قصّے اور سازشی نظریات 24 سال سے گھوم رہے ہیں۔ لیکن شعیب سڈل نے واقعے کی تفصیل کچھ یوں بتائی۔
’جیسا کہ میں نے بتایا کہ میں اس وقت معمول کے مطابق واک کر کے واپس آیا تھا اور وزیر داخلہ کو رپورٹ بھیجنے کے لیے ایس ایس پی واجد درّانی سے بات کر رہا تھا کہ پہلی گولی چلنے کی آواز آئی۔‘
’میں چونکہ فون پر ہی تھا تو میں گولی کی آواز سنتے ہی ایس ایس پی سے پوچھا واجد یہ کیا ہو رہا ہے اُس نے کہا کہ سر آواز تو میں نے بھی سُنی ہے میں چیک کر کے بتاتا ہوں،‘ ڈی آئی جی شعیب سڈل نے ایس ایس پی درّانی کے الفاظ دہراتے ہوئے کہا۔
ڈاکٹر سڈل کے مطابق ’جیسے ہی فون بند ہوا کوئی تیس سیکنڈ یا اُس سے بھی کم وقت میں شدید فائرنگ شروع ہو گئی۔‘
ڈاکٹر سڈل نے بتایا کہ ’اسی اثنا میں آپریٹر نے بتایا کہ صحافی مظہر عباس بات کرنا چاہتے ہیں۔‘
واضح رہے کہ اس وقت جیو نیوز سے وابستہ مظہر عباس اُس وقت ڈان گروپ کے انگریزی روزنامہ ’اسٹار‘ کے رپورٹر تھے۔
شعیب سڈل نے بتایا کہ ’مظہر عباس نے پوچھا کہ کیا آپ کے گھر پر حملہ ہوا ہے؟ اطلاع ملی ہے کہ ڈی آئی جی کے گھر کے عین باہر فائرنگ ہو رہی ہے۔‘
اردو اخبار روزنامہ ’جسارت‘ کے کرائم رپورٹر اے ایچ خانزادہ نے بتایا کہ ’یہ اُن دنوں کوئی اچھنبے کی بات بھی نہیں تھی۔ کراچی آپریشن میں قریباً ہر رینک کے افسران پر حملے معمول کی بات تھے۔ ہمیں بھی پہلے اطلاع یہی ملی تھی کہ ڈی آئی جی کراچی کے گھر پر فائرنگ ہو رہی ہے۔
شعیب سڈل نے کہا کہ ’میں نے فون پر مظہر عباس سے کہا کہ گولی تو چلی ہے مگر معلوم نہیں کیا ہو رہا ہے۔‘
’مگر مظہر عباس کا فون بند کیا ہی تھا کہ پھر اتنی شدید فائرنگ ہوئی کہ گولیاں میرے گھر کی دیوار تک بھی آ کر لگیں۔ پھر میرا سکیورٹی کا افسر تھا انسپکٹر، وہ باہر گیٹ تک گیا مگر آ کر اُس نے بھی کہا کہ سر فائرنگ کے بارے میں پتہ نہیں چل رہا ہے کہ کیا ہوا ہے۔‘
شعیب سڈل بتاتے ہیں کہ ’جب میری دوبارہ واجد درّانی سے بات ہوئی تو میں پوچھا کہ کیا ہوا ہے تو مجھے بتایا گیا کہ یہ واقعہ ہوا ہے میں نے پوچھا کہ کیا مرتضیٰ بھٹّو تھے وہاں یا گھر میں جا چکے تھے تو ایس ایس پی نے مجھے بتایا کہ وہ شاید گھر کے اندر چلے گئے تھے۔ میں نے کہا کہ شاید نہیں، دیکھ کر مجھے بتاؤ اصل بات۔۔۔‘
اسی شدید فائرنگ کی کہانی سناتے ہوئے متعدد پولیس افسران نے بتایا کہ جب دو سینئیر پولیس افسران کو گولیاں لگ گئیں اور دونوں جانب سے فائرنگ کا سلسلہ بند ہو گیا تو بکھر جانے والی پولیس فورس پھر سے جمع ہو کر اندھیری سڑک پر رُکی ہوئی گاڑیوں کے قریب پہنچی اور تب یہ حقیقت آشکار ہوئی کہ میر مرتضیٰ بھٹّو کے پانچ ساتھی ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ خود مرتضیٰ بھٹّو اور اُن کے کئی ساتھی شدید زخمی ہیں۔
اس کے علاوہ دو پولیس افسران (شاہد حیات اور حق نواز سیال) زخمی ہیں اور وہاں سے گزرنے والا ایک ٹیکسی ڈرائیور بھی ہلاک ہو گیا ہے۔
’رائے طاہر نے میر مرتضیٰ بھٹّو کی گاڑی کا دروازہ کھولا اور زخمی مگر حیرت زدہ مرتضیٰ بھٹّو کو باہر نکالا۔‘
’کوئی اور گاڑی نہ ہونے کے سبب رائے طاہر نے مرتضیٰ بھٹّو کو ایک پولیس موبائل وین کے پچھلے حصّے میں ڈالا اور وہاں سے طبّی امداد دینے کے لیے کسی ہسپتال کی جانب روانہ ہوئے۔‘
ڈی آئی جی شعیب سڈل نے بتایا کہ صرف چند ہزار گز دور مگر سڑک کے دوسری جانب ہی ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال تھا اور پولیس افسران نے فیصلہ کیا کہ مرتضیٰ بھٹّو کو فوری طبّی امداد کے لیے وہیں لے جایا جائے۔
فائرنگ شروع ہوتے ہی علاقے میں معمولات زندگی درہم برہم ہو کر رہ گئے۔ بھگدڑ مچ جانے کی وجہ سے ٹریفک معطل ہو گئی، دکانیں بازار اور قریب واقع تجارتی مراکز اور ریستوران سب بند ہونا شروع ہو گئے، یہاں تک کے اندھیری سڑک پر فائرنگ کے خوف سے ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال کے دروازے تک بند کر دئیے گئے تھے۔
ایک سابق افسر نے بتایا کہ ’پولیس اور مرتضیٰ بھٹّو کے حامیوں کی یہ جھڑپ قریباً 8:30 بجے ہوئی جبکہ مرتضیٰ بھٹّو کی ہسپتال آمد کا وقت 9:20 درج کیا گیا۔‘
’میر مرتضی بھٹّو ہسپتال پہنچ کر بھی اتنے ہوش و حواس میں تھے کہ پولیس موبائل وین سے اتر کر خود اسٹریچر پر منتقل ہوئے۔‘
’اب اسے مرتضیٰ بھٹّو کی بدقسمتی، اتفاق یا حادثہ کہیے کہ ’مڈ ایسٹ‘ ہسپتال میں کراچی کے عام سرکاری ہسپتالوں کی طرح کوئی بہت عمدہ مخصوص شعبۂ حادثات نہیں تھا بلکہ وہاں تو کوئی ڈاکٹر گولی سے زخمی ہونے والوں کو ہینڈل کرنے کے لیے بھی نہیں تھا،‘ ایک سابق سینیر پولیس افسر نے کہا۔
یہاں وہ دوسرا سوال اٹھا جس نے آئندہ کئی برس تک بلکہ آج تک تمام صحافیوں، تجزیہ نگاروں، پولیس افسران اور تفتیشی حکام کو الجھائے رکھا اور سازشی نظریات کو تقویت پہنچائی: کہ جب ہسپتال قابل انحصار نہیں تھا تو شدید زخمی مرتضی بھٹّو کو وہاں کیوں لے جایا گیا؟ کسی بہتر طبّی مرکز میں بہتر ابتدائی امداد پہنچانے کا بندوبست کیوں نہیں کیا گیا؟
جواب میں آئندہ کئی برس تک ایس ایس پی واجد درّانی، سابق ایس پی کلفٹن شکیب قریشی اور دیگر پولیس افسران نے وہی کہا جو اس بار پوچھے جانے پر ڈاکٹر شعیب سڈل نے بھی دہرایا۔
’اگر جے پی ایم سی (جناح ہسپتال) یا سول ہسپتال لے کر جاتے اور کئی گولیوں سے زخمی مرتضیٰ بھٹّو راستے میں دم توڑ جاتے تو پھر کہا جاتا کہ جب ’مڈ ایسٹ‘ چند ہزار گز کے فاصلے پر تھا تو وہاں کیوں نہیں لے گئے، پھر کہا جاتا کہ پولیس نے طبّی امداد پہنچانے میں جان بوجھ کر تاخیر کر کے انھیں مار دیا۔‘
ڈاکٹر سڈل نے وضاحت کی کہ ’ہسپتال ایمرجنسی اور وہ بھی ایسی ایمرجنسی سے نمٹنے کے لیے کتنا تیار تھا یا نہیں، یہ مرتضیٰ بھٹّو کو ہسپتال لے جانے والے یا ہدایات دینے والے پولیس افسران کو کیسے معلوم ہوسکتا تھا؟ اسی لیے بس پہلا طبّی مرکز سمجھ کر انھیں وہاں لے جایا گیا۔‘
پولیس افسران، صحافیوں اور حکام کے مطابق زندہ مگر شدید زخمی حالت میں ہسپتال پہنچنے پر مرتضیٰ بھٹّو کو فوری طور پر ہسپتال کے (برائے نام) ہنگامی حالت کے شعبے میں منتقل تو کر دیا گیا مگر وہاں پیشہ ورانہ مہارت رکھنے یا ہنگامی حالت سے نمٹنے کے لیے تربیت یافتہ عملہ تھا نہ قابل و باصلاحیت ڈاکٹرز موجود تھے۔
صحافی اے ایچ خانزادہ نے بتایا کہ ’میں نے دیکھا کہ تب تک (اُس وقت کے) کراچی کے جنوبی ضلعے کے ڈپٹی کمشنر عارف الہٰی اور دیگر حکام بھی وہاں پہنچ چکے تھے اور شدید گھبراہٹ اور بدحواسی کے عالم میں دیگر ہسپتالوں سے ڈاکٹرز کو وہاں بلوائے جانے کی کوششیں جاری تھیں۔‘
حکام، ڈاکٹرز، صحافیوں اور طبّی عملے کے مطابق مرتضیٰ بھٹّو چار گولیوں سے زخمی ہوئے تھے مگر ان میں تین زخم ہرگز مہلک نہیں تھے۔
شعیب سڈل نے بھی کہا کہ ’مرتضی بھٹّو کو جو چار گولیاں لگی تھیں اُن میں سے تین ایسی مہلک ہرگز نہیں تھیں کہ اُن زخموں سے اُن کی موت واقع ہو جاتی۔ ایک گولی کنپٹی کے قریب ماتھے کی ہڈّی کو (ابرو کے پاس) چھوتی ہوئی نکل گئی، دوسری گولی سینے پر رگڑتی ہوئی گئی تیسری گولی بائیں کہنی کے پاس سوفٹ ٹشو میں لگی جبکہ مہلک وہ زخم ثابت ہوا جو گلے کے قریب گولی لگنے سے ہوا اور اُس نے جگیولر وین یعنی شہہ رگ کو نقصان پہنچایا تھا۔‘
ایک متموّل علاقے میں عام بیماریوں کے علاج کے لیے قائم ہسپتال میں جب مرتضیٰ بھٹّو جیسی اہم شخصیت کو طبّی امداد کے لیے لایا گیا تو وہاں ایسی صورتحال پیدا ہوئی کہ جو عملہ طبّی امداد کے لیے موجود تھا اُس کے بھی ہاتھ پاؤں پھول گئے۔
میر مرتضیٰ کی زندگی بچانے کے لیے وہاں موجود عملے اور ڈاکٹرز نے سر توڑ کوشش کی اور جلد ہی سینیئر ڈاکٹرز بھی ہسپتال پہنچ گئے تاکہ ان کوششوں میں ہاتھ بٹا سکیں۔
شعیب سڈل کہتے ہیں کہ’گلے کے زخم سے خون بہتا رہا۔ اگر ہسپتال میں کوئی اس زخم کو ٹانکے لگاتا یا کلامپ کر دیتا تو خون رُک جاتا اور وہ محفوظ رہتے۔‘
کراچی ساؤتھ پولیس کے ایک سابق افسر نے کہا کہ اس کے بجائے ’تولیے رکھ کر خون روکنے کی کوشش کی گئی حالانکہ اچھا خاصا ہسپتال تھا، میرے تو بچے اسی ہسپتال میں پیدا ہوئے ہیں۔‘
اس کہانی کی تیاری میں مدد کرنے والوں کی اکثریت متفق نظر آئی کہ اگر گلے میں لگنے والی گولی سے بہہ کر حلق میں گرتا ہوا خون رُک جاتا یعنی جگیلر وین (شہ رگ) کے زخم کو بند کر کے خون بہنے سے روک لیا جاتا تو شاید مرتضیٰ بھٹّو کو بچایا جاسکتا تھا۔
قریباً ایک گھنٹے کی تاخیر سے مرتضی بھٹّو کے اہل خانہ، اہلیہ غنویٰ بھٹّو، صاحبزادی فاطمہ بھٹّو اور صاحبزادے ذوالفقار علی بھٹّو (جونئیر) بھی مڈ ایسٹ ہسپتال پہنچ گئے۔
انھیں لانے والے شخص نے تب تک ہسپتال میں بڑی تعداد میں جمع ہو جانے والے صحافیوں کو اپنا نام واحد بخش بتایا اور کہا کہ وہ مرتضیٰ بھٹّو کا ڈرائیور ہے جو گھر پر تھا اور گھر کے بالکل ہی باہر فائرنگ کے بعد اندر موجود افراد میں بھی سراسیمگی دوڑ گئی اور مرتضیٰ بھٹّو کے اہل خانہ اور ملازمین نے باہر نکل کر دیکھنے کی کوشش کی مگر باہر موجود پولیس کی نفری نے انھیں روک دیا۔
ہسپتال میں اہل خانہ کی آمد کے بھی ڈیڑھ گھنٹے بعد تک بھی مرتضیٰ بھٹّو زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا رہے۔ ہسپتال میں بستر پر بیٹھے ہوئے بھی اُن کی ایک تصویر بہت دن تک اخباروں کی زینت بنتی رہی۔
میر مرتضیٰ بھٹّو شدت تکلیف سے بہت دیر تک کراہتے اور شدید دشواری کے باوجود سانس لینے کی جدوجہد کرتے رہے۔
ہسپتال لائے جانے کے قریباً ڈھائی گھنٹے کے بعد بہت زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے میر مرتضیٰ بھٹّو کا دم اکھڑنے لگا اور کوئی 11:30 کے لگ بھگ پاکستانی سیاست میں سب سے زیادہ مشہور و مقبول سمجھے جانے والے بھٹّو خاندان کے اس نامور سپوت نے زندگی کی آخری سانس لینے کی کوشش کے دوران دم توڑ دیا۔
ہلاکت کی تصدیق ہوتے ہی ہسپتال میں کہرام مچ گیا۔ مرتضیٰ بھٹّو کے خاندان، چاہنے والوں اور کارکنوں کے ساتھیوں کے بین سے در و دیوار لرز رہے تھے۔
اب این اے 248 کیماڑی سے پیپلز پارٹی کے رکن قومی اسمبلی عبدالقادر پٹیل کا دعویٰ ہے کہ وہ بھی اُس وقت کلفٹن ہی میں واقع پیپلز پارٹی کے صدر دفتر بلاول ہاؤس پر موجود تھے جب انھوں نے اُس فائرنگ کی آواز سُنی مگر کسی کو پتہ نہیں چل سکا کہ کیا ہوا ہے۔
فائرنگ کی آواز سن کر قادر پٹیل بھی دیگر افراد کی طرح موقع پر پہنچے اور پھر ہسپتال پہنچ کر انھیں بھی پتہ چلا کہ میر مرتضیٰ بھٹّو زخمی ہیں۔
مرتضی بھٹّو کے دم توڑ دینے کے قریباً ایک گھنٹے کے بعد اس وقت کی وزیر اعظم اور اُن کی بہن بے نظیر بھٹّو بھی ہسپتال پہنچیں۔
صحافی خانزادہ نے دعویٰ کیا کہ ’گاڑی سے اتریں تو وزیر اعظم کے صرف ایک پیر میں چپّل تھی۔ اور دوسرے میں نہیں تھی، وہ بھی بے نظیر بھٹّو جیسی وزیر اعظم۔۔۔‘
عبدالقادر پٹیل نے کہا ’وہ چپّل کے بغیر جس طرح ہسپتال میں دوڑتی اور چیختی ہوئی گئی تھیں، اور جو ایک بہن کا اپنے بھائی کی لاش پر جو بین ہوتا ہے ماتم ہوتا ہے وہ میں نے سب دیکھا ہے۔‘
’بے نظیر بھٹّو بڑے سے بڑے جبر کا مسکرا کر مقابلہ کرتی تھیں مگر جو میں اُس دن دیکھا وہ واقعی عام بہن دکھائی دیں جو بھائی پر گرم آنچ بھی برداشت نہیں کر پاتی جو ہر گھر میں ہوتی اور اگر وہ بہن، اپنے بھائی کی لاش دیکھے تو کیا حال ہوتا ہے اُس دن میں نے وہ بے نظیر بھٹّو دیکھیں۔‘
ادھر موقع پر اُس کے بعد کیا ہوا یہ بتایا ایڈیشنل ایس ایچ او کلفٹن خرم وارث نے جو وہاں پہنچنے والے پہلے تفتیشی افسر تھے۔
’جب میں موقع پر پہنچا تو زخمی مرتضیٰ بھٹّو کو ہسپتال منتقل کیا جا چکا تھا۔ ’سین پر مجھے سیّال (ایس ایچ او کلفٹن) زخمی نظر آیا، میں نے اُسے ہسپتال پہنچانے کی کوشش کی تو حق نواز سیّال نے کہا کہ مجھے پرائیویٹ ہسپتال (لیاقت نیشنل) لے جاؤ۔
’زخمی اے ایس پی شاہد حیات کو بھی پرائیویٹ ہسپتال (آغا خان) پہنچا دیا گیا ہے۔‘
استغاثہ، عدالتی ریکارڈ اور اخبارات کے مطابق اس واقعے میں مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھ کل نو افراد ہلاک ہوئے جن میں میر مرتضیٰ بھٹّو، اُن کے ساتھی عاشق جتوئی، عبدالستار راجپر، رحمٰن بروہی، یار محمد بلوچ، سجاد حیدر، وجاہت جوکھیو، کوثر زیدی اور وہاں سے اُس وقت گزرنے والا ایک ٹیکسی ڈرائیور شامل ہیں۔
جبکہ مرتضیٰ بھٹّو کے چار ساتھی ڈاکٹر مظہر میمن، اصغر علی، محمد ایاز اور محمد اسماعیل جبکہ دو پولیس افسر حق نواز سیّال اور شاہد حیات زخمیوں میں شامل ہیں۔
واقعے کے بعد پولیس نے ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال کی مدعیّت میں سرکار کی جانب سے ایف آئی آر 386/96 درج کر کے تفتیش شروع کر دی۔
سنسنی اور ڈرامہ
واقعے کے بعد پہلے شہر میں خوف اور افسردگی کی فضا چھا گئی اور ایک سوگ کا ماحول طاری رہا جبکہ عوامی حلقوں اور پھر اخبارات میں سازشی نظریات نے جنم لیا کسی نے کہا کہ پہلی گولی قریبی درختوں سے چلائی گئی کسی نے کہا کوئی کسی چھت پر تھا جہاں سے پہلا فائر کیا گیا وغیرہ وغیرہ۔
کہانی کی پراسراریت اُس وقت اور بڑھ گئی جب ایک مہم کی طرح اس واقعے کے بارے میں مختلف اخبارات کی پالیسی کے تحت سنسنی خیز خبریں اورغیر تصدیق شدہ یا قیاس آرائیوں پر مبنی مواد شائع ہونا شروع ہوا۔
ذرائع ابلاغ میں بحث شروع ہوئی کہ اے ایس ہی شاہد حیات اور ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیال کو آنے والے زخم خود ساختہ ہیں اور دونوں افسران نے خود کو زخمی کر کے یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت سوچا سمجھا قتل نہیں ہے بلکہ اچانک ہو جانے والا ایک پولیس مقابلہ ہی ہے۔
اس قسم کی سنسنی خیز خبروں نے خوب تھرتھلی پیدا کی۔
حق نواز سیّال کی پراسرار ہلاکت
مگر میر مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت کی اس پراسرار کہانی میں دوسرا ڈرامائی موڑ تب آیا جب ایک ہی ہفتے کے اندر اندر ایس ایچ او حق نواز سیّال گارڈن پولیس لائنز میں واقع اپنی سرکاری رہاشگاہ میں انتہائی پر اسرار انداز و حالات میں مردہ پائے گئے۔
بستر پر لیٹے حق نواز سیّال کی کنپٹی پر ان ہی کے (سروس ویپن) پستول سے چلائی جانے والی گولی جان لیوا ثابت ہوئی۔
اخبارات نے اس ہلاکت کو بھی انتہائی پر اسرار قرار دیا جبکہ پولیس اور حکام نے اسے خود کشی قرار دیا۔
اس کہانی کی تیاری میں مدد کرنے والے تمام افراد نے بھی پولیس ہی کے موقف سے اتفاق کرتے ہوئے اسے خود کشی قرار دیا۔
سابق ڈی آئی جی شعیب سڈل نے کہا کہ مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت کے بعد پولیس اہلکار نہایت خوفزدہ اور دباؤ میں تھے۔
’اگلے ہی روز یہ سیال آیا میرے دفتر تو بالکل ہی شکل زرد تھی اُس کی۔ حالانکہ بڑی بڑی مونچھیں رکھی ہوئی تھیں اُس نے مگر بہت خوفزدہ اور دباؤ میں تھا وہ۔ وہ یہی کہتا رہا کہ سر ’وہ‘ (الذوالفقار کے مبینہ ارکان) ہمیں چھوڑیں گے نہیں۔ میں انھیں جانتا ہوں۔‘
شعیب سڈل نے بتایا کہ انھوں نے سیّال سے کہا کہ ’بھئی اپنا خیال رکھو، کوئی سکیورٹی وغیرہ کا مسئلہ ہے تو بتاؤ جس پر اُس نے کہا کہ سر مسئلہ تو ہے۔ میرے کچھ بھتیجے ہیں (پولیس میں) اگر وہ کچھ دنوں کے لیے آ جائیں میری سکیورٹی کے لیے تو میری تسلّی رہے گی۔ تو میں نے اُسی وقت آرڈر کر دیا۔‘
شعیب سڈل نے کہتے ہیں کہ ’اب پولیس لائن کے اندر گھر ہے، اپنے رشتہ دار اہلکار گارڈ ڈیوٹی پر ہیں، اس دوران جھنگ سے بھی اُس کے رشتہ دار آ گئے تھے کافی تعداد میں وہ صحن کے اندر بیٹھے گپیں لگا رہے ہیں تو کون آ کے مار دے گا، میں نے خود رات کو جا کے دیکھا موقع معائنہ کیا تو اُسی وقت پتہ چل گیا تھا کہ یہ تو سیدھی سیدھی خود کشی ہے۔‘
’مگر پریس والے تو خود کشی کی کہانی نہیں ناں مانتے انھوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ ایک ہی بندہ تھا جو عینی شاہد تھا انھوں نے اُس کو بھی ختم کر دیا ہے۔‘
تین ایف آئی آر
شاید مرتضی بھٹو کیس برصغیر کی پولیسنگ کی تاریخ کا واحد کیس ہے جس میں ایک ہی مقدمے کی تین ایف آئی آرز درج کی گئیں۔
مگر بعض دیگر پولیس افسران اور حکام کہتے ہیں کہ واحد نہیں تو اُن گنے چنے مقدمات میں سے ضرور ایک ہے جس میں ایک سے زیادہ ایف آئی آرز درج کی گئیں۔ ایک پولیس آفسر کا کہنا ہے کہ ’دو تو ہو بھی جاتی ہوں گی مگر تین ہونا واقعی ایک عجیب بات ہے۔‘
استغاثہ کے ریکارڈ اور حقائق کے مطابق پہلی ایف آئی آر وہ تھی جو سرکار کی مدعیّت میں ایس ایچ او کلفٹن حق نواز سیّال کی جانب سے درج کی گئی۔
دوسری ایف آئی آر مرتضیٰ بھٹّو کے ذاتی خدمت گار نور محمد کی جانب سے اس لیے درج کروائی گئی کہ مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں کو پولیس کی جانب سے درج ایف آئی آر کے متن سے اتفاق نہیں تھا۔
اسی دوران میر مرتضیٰ بھٹّو کی بیوہ غنویٰ بھٹّو نے اپنے وکلا کی مدد سے عدالت سے رجوع کیا اور ماہر قانونی ماہرین پر مشتمل مشیروں کی تیار کی ہوئی ایک قانونی درخواست پر عدالت نے تیسری ایف آئی آر درج کرنے کا حکم صادر کر دیا۔
رجوع کرنے پر ہائی کورٹ نے غنویٰ بھٹّو کی جانب سے دائر پیٹیشن پر کارروائی کرتے ہوئے تفتیش کراچی پولیس کے تمام افسران سے واپس لینے کی ہدایت جاری کیں۔
پولیس افسران پر عدم اعتماد کا اظہار کرتے ہوئے غنویٰ بھٹّو کے وکلاء نے تفتیش کسی ’ایماندار اور غیر جانبدار افسر‘ کو دینے کی استدعا کی تو تفتیش پہلے سندھ پولیس کے ایک افسر ایس ایس پی اے ڈی خواجہ کے حوالے کی گئی۔
اسی اثنا 5 نومبر 1996 کو بے نظیر بھٹّو کی اپنی ہی جماعت کے سابق رہنما اور اُن کے قریبی ساتھی سمجھے جانے والے اس وقت کے صدر پاکستان سردار فاروق احمد خان لغاری نے بے نظیر بھٹّو کی حکومت کو برطرف کر دیا۔
ملک معراج خالد کو نگران وزیر اعظم نامزد کردیا گیا اور بے نظیر کے ایک سیاسی حریف مگر خاندانی رشتہ دار یعنی اُن کے والد کے چچا زاد بھائی ممتاز علی بھٹّو کو سندھ کا نگران وزیر اعلیٰ نامزد کر دیا گیا۔
صدر لغاری کی جانب سے حکومت کی برطرفی کے حکمنامے میں الزامات عائد کئے گئے کہ بے نظیر بھٹّو کی قیادت میں قائم یہ حکومت بدعنوانی اور اقربا پروری میں ملوث تھی اور یہ کہ امن و امان قائم رکھنے میں ناکام رہی، قتل و غارت پر قابو نہ پاسکی، اس دور میں ماورائے عدالت قتل ہوتے رہے اور اس ضمن میں خود اُن کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹّو کے قتل کا حوالہ بھی دیا گیا۔
شعیب سڈل واجد درّانی اور میر مرتضی کی ہلاکت کے موقع پر موجود یا اس دوران تعینات رہنے والے تمام پولیس افسران بھی اپنے عہدوں سے برطرف کر دئیے گئے اور مرتضیٰ بھٹّو کی ہلاکت کے وقت موقع یا اس معاملے میں کسی بھی طرح متعلق تمام پولیس افسران اور اہلکاروں کو اس ہلاکت کے الزام میں گرفتار بھی کر لیا گیا۔
اگرچہ کہ تفتیش مرتضیٰ بھٹّو کے ساتھیوں اور خاندان کے نامزد افسر (اے ڈی خواجہ) کے سپرد تھی مگر اُن سے بھی واپس لے کر تفتیش سندھ پولیس کی کرائمز برانچ کے حوالے کر دی گئی۔
اب ممتاز بھٹّو کی نگراں صوبائی حکومت نے تفتیش کرائمز برانچ کے افسر علی گوہر مٹھانی (مٹھیاڑیں) کے حوالے کر دی۔
مگر شعیب سڈل کا کہنا ہے کہ ’پولیس بدنیت نہیں تھی۔ اگر ہم بدنیت ہوتے تو میں تفتیش کرائمز برانچ کے حوالے نہ کرتا، کیس فائل اُن کی مرضی کے افسر (اے ڈی خواجہ )کے سپرد نہ کرتا یا پھر تیسری ایف آئی آر کے معاملے پر ہم کورٹ چلے جاتے سال، چھ مہینے تو معاملہ لٹک ہی جاتا، یا پھر عدالت کے احکامات پر پولیس کے لاء ڈپارٹمنٹ کو بیچ میں لاتے قانونی راستہ اختیار کرتے اور تاخیر کرواتے مگر ہماری نہ نیت خراب تھی نہ ہم نے کچھ غلط کیا تھا۔‘
ایک اور افسر نے کہا کہ ’قانون کے مطابق ایک کارروائی ہو رہی تھی تھی اُس کے دوران ایک حادثہ ہو گیا، رہی ہسپتال میں کوتاہی یا غفلت کی بات تو اسے بھی بدقسمتی سے ہی تعبیر کیا جا سکتا ہے۔‘
شعیب سڈل کا کہنا ’اُس کے لیے اس وقت مرتضیٰ بھٹّو کے قافلے کو روکنے کا فیصلہ منصوبہ بندی کے لحاظ سے غلط تھا اور یہ میں نے درّانی سے پہلے کہا بھی تھا جیسے ہی میرے علم میں لایا گیا تھا۔ مگر بس ہونے والی بات تھی ہو گئی۔‘
لیکن واجد درّانی کے قریب رہنے والے افسران میں سے ایک نے کہا کہ ’شعیب سڈل کو سارا منصوبہ بتایا گیا تھا اور انھیں پتہ تھا کہ ہم کیا کرنے جا رہے ہیں اور وہ کیسے ہو گا اب وہ کیسے کہہ سکتے ہیں کہ مجھے نہیں معلوم تھا۔‘
کمیشن کا قیام
سازشی نظریات کے اسی شور میں بالآخر اُس وقت کے ہائی کورٹ کے جج جسٹس ناصر اسلم زاہد کی سربراہی میں ایک تحقیقاتی کمیشن بھی بنایا گیا جس نے بھی ان سازشی نظریات سمیت ہر پہلو پر غور کیا مگر ہمیشہ یہی کہا جاتا رہا کہ کمیشن نے تمام امکانات کو رد تو ضرور کر دیا مگر یہ بھی کہا کہ اگر یہ کسی کے کہنے پر کیا گیا تو وہ ایس ایس پی یا ڈی آئی جی سے بہت اوپر کی سطح پر ہوا ہو گا۔
ایک متاثرہ افسر کہتے ہیں کہ ’مگر کمیشن اوپر کی اس سطح کے تعین میں ناکام رہا کہ آخر کتنے اوپر اور کس نے ایسا کیا یا کروایا۔‘
’نتیجہ کمیشن کا یہ نکلا کی جتنے سیاسی پہلو یا کھلاڑی تھے وہ تو سب کلئیر ہو گئے اور شاید کمیشن نے پولیس افسران کی جانب نشاندہی کی بھی تو اتنی مبہم اور اس اندازے کے ساتھ کہ پولیس افسران بھی بالآخر کسی بھی ٹھوس ثبوت کی عدم موجودگی کی بنیاد پر اس سب سے بری تو ہو ہی جائیں گے۔‘
عدالتی تحقیقاتی کمیشن سے کوئی نتیجہ نکلا یا نہیں مگر برسوں چلتے رہنے والے عدالتی مقدمے کے اختتام پر تمام پولیس افسران و اہلکار الزامات سے بری ہوئے اور شاہد حیات اور رائے طاہر جیسے نئے افسروں کو تو لوگوں نے بعد میں خود کراچی پولیس کا سربراہ اور آیڈیشنل آئی جی پنجاب بنتے بھی دیکھا۔