یہ تین اور چار دسمبر کی درمیانی رات تھی جب انڈیا کے شہر وشاکھاپٹنم کی بندرگاہ سے کچھ ہی فاصلے پر سمندر میں اتنا زوردار دھماکہ ہوا کہ گھروں کی کھڑکیوں کے شیشے تک ٹوٹ گئے۔ لوگوں نے دیکھا کہ سمندر کا پانی بہت اونچا اٹھ کر نیچے گر گیا۔
کچھ نے سمجھا کہ شاید یہ زلزلہ ہے۔ کچھ لوگ یہ سمجھے کہ پاکستان کی فضائیہ نے بمباری کر دی ہے کیوں کہ اسی وقت انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی پاکستان سے جنگ شروع ہونے پر قوم سے خطاب کر رہی تھیں۔
یہ دھماکہ جس کی اطلاع انڈین نیوی کو سمندر میں موجود مچھیروں سے ملی پاکستانی آبدوز غازی میں ہوا تھا جس کے نتیجے میں ترانوے پاکستانی فوجی ہلاک ہوئے۔ پاکستان کی بحریہ کے مطابق غازی اپنی ہی بچھائی ہوئی ایک بارودی سرنگ سے ٹکرائی جبکہ انڈیا نے دعویٰ کیا کہ غازی کو اس کے ایک بحری جہاز نے ڈبویا۔
لیکن پچاس سال بعد بھی غازی کے پُر اسرار طریقے سے وشاکھاپٹنم کی بندرگاہ کے باہر ڈوبنے کی اصل وجہ ایک ایسا معمہ ہے جو حتمی طور پر حل نہیں ہو سکا۔
غازی: پاکستان کی پہلی آبدوز جو بہت دور تک جانے کی صلاحیت رکھتی تھی
غازی پاکستان کی سب سے پہلی آبدوز تھی جو صدر ایوب خان نے امریکہ سے لیز پر حاصل کی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کی آبدوز ‘ڈیابلو’ کو صدر کینیڈی اور صدر ایوب خان کے درمیان معاہدے کے تحت جنوری انیس سو چونسٹھ میں پاکستان کے حوالے کیا گیا تھا۔
انیس سو اکہتر میں پاکستان فرانس سے ڈیفنی کلاس کی مزید تین آبدوزیں لے چکا تھا لیکن غازی وہ واحد آبدوز تھی جو دشمن کے زیر کنٹرول پانیوں میں اپنے ہدف کو نشانہ بنانے کے لیے دور تک جانے کی صلاحیت رکھتی تھی۔
جنگ کے 20 سال بعد شائع ہونے والی کتاب ‘دی سٹوری آف دی پاکستان نیوی’ میں بتایا گیا ہے کہ ‘پاک بحریہ نے اپنی تمام آبدوزوں کو 14 سے 24 نومبر کے درمیان اپنے پہلے سے طے شدہ گشت والے علاقوں کی طرف آگے بڑھنے کا حکم دیا تھا۔ آبدوز غازی کو سب سے دور خلیج بنگال میں ۔۔۔ اگر غازی وکرانت کو تباہ کرنے یا نقصان پہنچانے میں کامیاب ہو جاتی تو انڈیا کے بحری منصوبوں کو بہت نقصان پہنچتا۔‘
کمانڈر کیپٹن ظفر محمد خان جنھیں غازی میں نہیں ہونا چاہیے تھا
یہ آٹھ نومبر سنہ 1971 کا دن تھا۔ پی این ایس غازی کے کپتان کیپٹن ظفر محمد خان نے ابھی ڈرِگ روڈ (شاہراہ فیصل) پر واقع کلب میں گولف شروع ہی کی تھی کہ انھیں پیغام موصول ہوا کہ وہ فوری طور پر لیاقت بیرک میں نیول ہیڈ کوارٹرز پہنچیں۔
وہاں بحریہ ویلفیئر اور آپریشن کے منصوبوں کے ڈائریکٹر کیپٹن بھومبل نے انھیں بتایا کہ چیف آف نیول سٹاف نے انھیں خلیج بنگال جانے کی ذمہ داری دی ہے جہاں انھیں انڈین بحریہ کی رسائی مشکل بنانے کے لیے بارودی سرنگیں بچھانے کے مشن کے ساتھ ساتھ انڈین طیارہ بردار جہاز وکرانت کو تباہ کرنے کا اضافی مشن بھی سونپا گیا ہے۔
کیپٹن ظفر سے کہا گیا کہ وہ غازی پر تعینات تمام جوانوں کی چھٹیاں منسوخ کردیں اور تفویض کردہ کام مکمل کرنے کے لیے اگلے دس دنوں میں روانہ ہو جائیں۔
اس واقعے میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کمانڈر ظفر خان کچھ ہی عرصے قبل فرانس سے حاصل کی جانے والی ڈیفنی کلاس ہنگور آبدوز کے سیکنڈ ان کمانڈ تھے۔ لیکن پاکستان کی نیوی کو ایک مشکل یہ درپیش آئی کہ حکومت نے یہ فیصلہ کیا کہ بنگالی افسران کو آپریشنل ڈیوٹی سے ہٹا دیا جائے گا۔
اس کی وجہ غالبا اگست میں ہونے والا وہ واقعہ تھا جس میں پائلٹ آفیسر راشد منہاس کے طیارے کو پاکستان ایئر فورس کے ہی ایک بنگالی افسر فلائٹ لیفٹینینٹ مطیع الرحمان نے اغوا کرنے کی کوشش کی تھی۔ حکومت پاکستان کے فیصلے پر پاکستان نیوی نے غازی کی کمان کیپٹن ظفر محمد خان کو سونپنے کا فیصلہ کیا اور پی این ایس ہنگور سے کچھ اور عملہ بھی ان کے ساتھ غازی آبدوز منتقل ہو گیا اور چودہ نومبر کو غازی کراچی پورٹ سے اپنے مشن پر روانہ ہو گئی۔
غازی کے سابق کمانڈر اور پاکستان نیوی کے ریٹائرڈ وائس ایڈمرل احمد تسنیم اس وقت پاکستان نیوی کی آبدوز ہنگور کے کمانڈر تھے۔ انھیں نیوی کی جانب سے حکم دیا گیا تھا کہ وہ غازی کی آپریشنل تیاری کا جائزہ لیں۔ بی بی سی سے گفتگو کے دوران انہوں نے بتایا کہ ‘میں نے پورا ایک دن اور پوری رات غازی میں گزاری اور اس کی تمام ڈرلز کی گئیں جن کے مطابق وہ مکمل طور پر مشن کے لیے تیار تھی۔’
وکرانت: انڈیا کا طیارہ بردار جہاز خرابی کا شکار ہو گیا
کمانڈر ظفر اور کیپٹن بھومبل کے درمیان ہونے والی گفتگو سے ایک سال پہلے وکرانت کے کمانڈر کیپٹن ارون پرکاش اپنے چیف انجنیئر کی بھیجی گئی ایک رپورٹ پڑھ رہے تھے۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ وکرانت کے بوائلر کے واٹر ڈرم میں دراڑیں پڑ گئی ہیں جن کی مرمت انڈیا میں نہیں کی جا سکتی۔ سنہ 1965 کی جنگ میں بھی وکرانت کو کچھ تکنیکی مسائل کی وجہ سے جنگ میں حصہ لینے کے قابل نہیں سمجھا گیا تھا۔ اس بار بھی بوائلر میں شگاف پڑنے کی وجہ سے وکرانت صرف 12 ناٹ سے زیادہ کی رفتار سے نہیں چل سکتا تھا۔ کسی بھی طیارہ بردار جہاز کے لیے وہاں سے طیارے اڑانے کی صلاحیت حاصل کرنے کے لیے 20 سے 25 ناٹ کی رفتار درکار ہوتی ہے۔
وکرانت کا پرانا نام ایچ ایم ایس ہرکولس تھا، جسے انڈیا نے سنہ 1957 میں برطانیہ سے خریدا تھا۔ یہ سنہ 1943 میں بنایا گیا تھا لیکن وہ دوسری عالمی جنگ میں حصہ نہیں لے سکا تھا۔ وکرانت کو اس وقت مغربی بیڑے میں تعینات کیا گیا تھا لیکن اس کی خراب حالت دیکھ کر نیول ہیڈ کوارٹرز نے فیصلہ کیا کہ اسے مشرقی بیڑے کا حصہ بنانا بہتر ہے۔
وکرانت بمبئی سے اچانک غائب ہو گیا
ایان کارڈوزو اپنی کتاب ‘1971 سٹوریز آف گرٹ اینڈ گلوری فرام انڈو پاک وار’ میں لکھتے ہیں: ‘نومبر 1971 میں بمبئی کے ایک ہوٹل میں رہنے والے پاکستانی جاسوسوں نے اپنے ہینڈلرز کو بتایا کہ وکرانت بمبئی میں کھڑا ہے۔ لیکن 13 نومبر کو وکرانت کہیں دکھائی نہیں دے رہا تھا۔ وکرانت اچانک غائب ہو گیا۔ اس دوران پاکستان سے ہمدردی رکھنے والے ایک مغربی ملک کے اسسٹنٹ نیول اتاشی نے اے ڈی سی کمانڈر ان چیف، فلیگ آفیسر، ویسٹرن کمانڈ سے پوچھنے کی کوشش کی کہ اس وقت وکرانت کہاں ہے۔ انڈین بحریہ کی انٹیلی جنس کو فوری طور پر اطلاع دی گئی۔ بعد میں پاکستانی جاسوسوں کو خبر ہوئی کہ وکرانت مدراس پہنچ گیا ہے’۔
وہ مزید لکھتے ہیں ‘کیا یہ محض اتفاق تھا کہ ان ہی دنوں پاکستان کی حمایت کرنے والے مغربی ملک کا جہاز مدراس گیا اور وہاں اس میں کچھ خرابی آ گئی اور اس نے مدراس کی بندرگاہ کے گرد کئی آزمائشی پروازیں کیں؟ کیا ان پروازوں کا مقصد اس بات کی تصدیق کرنا تھا کہ وکرانت مدراس میں ہے یا نہیں۔’
انڈین انٹیلی جنس نے پاکستان کا خفیہ کوڈ توڑا؟
آٹھ نومبر سنہ 1971 کو خفیہ طور پر وائرلس پر پیغامات سننے والے میجر دھرم دیو دت اپنے رکال آر اے 150 ریڈیو رسیور کو گھما کر کراچی اور ڈھاکہ کے درمیان جانے والے پیغامات سننے کی کوشش کر رہے تھے۔ اس دن پیغامات کی تعداد میں اچانک اضافے کی وجہ سے انھیں یہ احساس ہوا کہ کچھ بڑا ہونے والا ہے اور یہ ضروری ہے کہ انڈیا اس سے پوری طرح آگاہ ہو۔ میجر دت کو ان کے ساتھی این ڈی اے کے زمانے سے ہی تھری ڈی کے نام سے پکارتے تھے۔
سرکاری ریکارڈ میں ان کا نام دھرم دیو دت کے طور پر درج تھا۔ ان کا ٹیپ ریکارڈر آئی بی ایم کے مین فریم کمپیوٹر سے منسلک تھا۔ اچانک دس نومبر کو وہ پاکستانی نیوی کا کوڈ توڑنے میں کامیاب ہو گئے اور ساری پہیلی ایک لمحے میں حل ہو گئی۔ انھوں نے ایسٹرن کمانڈ سٹاف آفیسر جنرل جیکب کو فون کیا اور کوڈ ورڈ کہا جس کا مطلب یہ تھا کہ پاکستانی نیول کوڈ کو حل کر لیا گیا ہے۔ وہاں سے پہلی بار معلوم ہوا کہ پاکستانی بحریہ کا بنیادی مقصد انڈین جہاز آئی این ایس وکرانت کو تباہ کرنا تھا۔ اس کا دوسرا مقصد اپنی ڈیفنی کلاس آبدوزوں کا استعمال کرتے ہوئے انڈیا کے مغربی بیڑوں کو تباہ کرنا تھا۔
غازی نے انڈیا آنے سے پہلے سری لنکا میں ایندھن بھروایا
غازی آبدوز 14 نومبر سنہ 1971 کو کراچی سے اپنے مشن کے لیے روانہ ہوئی۔ غازی سب سے پہلے سری لنکا پہنچی جہاں اس نے 18 نومبر کو ٹرنکومالی میں ایندھن بھرایا۔ وہ مدراس (اب چنئی) جانے کے لیے تیار تھی جب اسے کراچی سے پیغام ملا کہ وکرانت اب مدراس میں نہیں ہے۔ ظفر نے کراچی پیغام بھیجا کہ اب چونکہ وکرانت لاپتہ ہے تو ان کے لیے اگلا آرڈر کیا ہے؟
کراچی نے مشرقی بحری بیڑے کے کمانڈر ریئر ایڈمرل محمد شریف کو ایک خفیہ پیغام بھیجا، پوچھا کہ کیا ان کے پاس وکرانت کی نقل و حرکت کے بارے میں کوئی معلومات ہیں؟ ان تمام پیغامات کی نگرانی تھری ڈی (دھرم دت) کر رہے تھے اور انھیں خفیہ زبان میں نیول ہیڈ کوارٹرز بھی بھیج رہے تھے۔ اس نے کمانڈر ظفر خان کو مطلع کیا کہ وکرانت اب وشاکھاپٹنم پہنچ گیا ہے۔ پاکستان کے نیول ہیڈ کوارٹرز اور غازی کے کیپٹن دونوں نے محسوس کیا کہ ان کے لیے وکرانت کو تباہ کرنے کا بہترین موقع وشاکھاپٹنم میں تھا۔
غازی یکم دسمبر کی رات وشاکھاپٹنم پہنچی؟
غازی نے 23 نومبر سنہ 1971 کو ٹرنکومالی سے وشاکھاپٹنم کا سفر شروع کیا۔ اس نے 25 نومبر کو چنئی عبور کیا اور یکم دسمبر کو رات کے 11:45 بجے وشاکھاپٹنم پورٹ کے نیوی گیشن چینل میں داخل ہوئی۔
میجر جنرل فضل مقیم خان اپنی کتاب ‘پاکستان کرائسس ان لیڈر شپ’ میں لکھتے ہیں کہ ان کے ساتھ مسئلہ یہ تھا کہ غازی نیویگیشن چینل کی کم گہرائی کی وجہ سے بندرگاہ سے صرف 2.1 ناٹیکل میل تک ہی جا سکتی تھی، اس سے آگے نہیں۔کمانڈر ظفر نے فیصلہ کیا کہ وہ جہاں ہیں وہیں رہیں گے اور وکرانت کے باہر آنے کا انتظار کریں گے۔
غازی میں اندرونی خرابی شروع ہو گئی تھی؟
غازی آبدوز کے سمندر سے دریافت ہونے والے ریکارڈ سے معلوم ہوتا ہے کہ آبدوز میں ایک خرابی کے باعث دھواں پھیلنا شروع ہو چکا تھا۔ غازی کے میڈیکل افسر نے اس تشویش کا اظہار کیا کہ غازی سے نکلنے والے دھوئیں نے نہ صرف جوانوں بلکہ آبدوز کے لیے بھی خطرہ پیدا کردیا ہے۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ غازی کو رات کے وقت سطح پر لایا جائے تاکہ کچھ تازہ ہوا ملے اور اس دوران بیٹریاں تبدیل کی جائیں۔
کمانڈر ظفر خان نے بھی محسوس کیا کہ اگر آبدوز کی ہائیڈروجن کی سطح پہلے سے طے شدہ حفاظتی معیار سے تجاوز کر گئی تو غازی کے لیے تباہی کا خطرہ بڑھ جائے گا۔ لیکن کیپٹن ظفر یہ بھی جانتے تھے کہ اگر غازی کو دن کی روشنی میں مرمت کے لیے اوپر لایا گیا تو وہ فوراً نظر آ جائے گی۔ شام پانچ بجے آبدوز کے ایگزیکٹیو آفیسر اور میڈیکل آفیسر دونوں نے کیپٹن ظفر کو آگاہ کیا کہ آبدوز کے اندر ہوا شدید آلودہ ہوچکی ہے، جس کی وجہ سے ایک میرین(بحری سپاہی) بے ہوش ہو گیا۔ انھوں نے مشورہ دیا کہ رات تک انتظار کرنے کا وقت نہیں ہے۔ غازی کو فوری سطح پر لے جانا چاہیے۔ اس دوران آبدوز کے اندر ہوا مسلسل آلودہ ہو رہی تھی۔ بہت سے میرینز کھانسنے لگے اور ان کی آنکھیں بھی متاثر ہونے لگیں۔
انڈین جہاز غازی کے قریب آتا نظر آيا
کیپٹن ظفر نے حکم دیا کہ غازی کو پیریسکوپ (آبدوز پر نصب دور بین) کی سطح پر لے جایا جائے تاکہ پہلے باہر کا معائنہ کیا جا سکے۔ غازی کو آہستہ آہستہ سطح سمندر سے 27 فٹ نیچے تک لایا گیا۔ وہاں سے کیپٹن ظفر جو پیریسکوپ سے منظر کا جائزہ لے رہے تھے دنگ رہ گئے۔ انھوں نے دیکھا کہ مشکل سے ایک کلومیٹر دور ایک بڑا انڈین بحری جہاز ان کی سمت بڑھ رہا ہے۔ وقت ضائع کیے بغیر ظفر نے غازی کو مزید گہرائی میں لے جانے کا حکم دیا۔
کیپٹن ظفر کے حکم کے 90 سیکنڈ کے اندر غازی دوبارہ سمندر کی تہہ میں اتر گئی۔ ایک منٹ میں انڈین جہاز غازی کے اوپر سے گزر گیا۔ کیپٹن ظفر حالات معمول پر آنے کا انتظار کرتے رہے۔ اسی دوران میڈیکل آفیسر دوبارہ آئے اور کہا کہ صورتحال مزید خراب ہو رہی ہے۔ آبدوز کا سطح پر جلد جانا ناگزیر ہوتا جا رہا تھا۔
تین چار دسمبر کی درمیانی رات غازی میں کیا ہوا یہ راز مکمل طور پر نہیں کھل سکا۔ ایک خیال یہ ہے کہ آلودہ ہوا کی وجہ سے کیپٹن ظفر نے فیصلہ کیا کہ غازی آبدوز 3-4 دسمبر کی رات 12 بجے اوپر چلی جائے گی اور مرمت کے کام کے چار گھنٹے بعد صبح چار بجے دوبارہ نیچے آئے گی۔ اس دوران کیپٹن ظفر نے میرینز کو حکم دیا کہ اگر وہ چاہیں تو وہ اپنے خاندانوں کو خط لکھ سکتے ہیں، جو ان کی واپسی پر ٹرنکومالی سے پوسٹ کیے جائیں گے۔
کیپٹن ظفر شاید اس بات سے لا علم تھے کہ پاکستان اور انڈیا کے درمیان جنگ چھڑ چکی ہے۔ تین اور چار دسمبر کی درمیانی شب کو ہی انڈیا کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قوم سے خطاب کے دوران وشاکھا پٹنم بندرگاہ سے تھوڑی دور رات کے 12:15 پر دھماکہ ہوا۔ بعد میں غازی سے ملنے والی گھڑی نے ظاہر کیا کہ اس نے اس وقت کام کرنا بند کردیا تھا۔
وکرانت وشاکھاپٹنم میں موجود ہی نہیں تھا
اس کہانی کا سب سے بڑا موڑ یہ تھا کہ وکرانت وشاکھاپٹنم میں موجود ہی نہیں تھا اور اسے جزائر انڈمان بھیجا جا چکا تھا۔ اس کی جگہ پرانے تباہ کن آئی این ایس راجپوت کو تعینات کر کے انڈین نیوی نے یہ تاثر دیا کہ وکرانت وشاکھاپٹنم میں کھڑا ہے۔
سنہ 1971 میں مشرقی کمان کے سربراہ وائس ایڈمرل این کرشنن نے اپنی سوانح عمری ‘اے سیلرز سٹوری’ میں لکھا: ‘راجپوت کو وشاکھاپٹنم سے 160 کلومیٹر دور لے جایا گیا تھا۔ ان سے کہا گیا تھا کہ وکرانت کا کال سائن استعمال کریں اور وہی ریڈیو فریکوئنسی استعمال کریں اور وکرانت جیسے بڑے جہاز کے لیے بہت زیادہ رسد کا مطالبہ کریں کیونکہ اس بڑے جہاز کے لیے اس کی ضرورت ہے۔اس دھوکہ دہی والی مہم کی کامیابی کا ثبوت غازی کی باقیات سے ملنے والے ایک سگنل سے ملا جس میں کہا گیا تھا کہ ‘انٹیلی جنس انڈیکیٹ کیریئر ان پورٹ’ یعنی انٹیلی جنس معلومات کے مطابق جہاز بندرگاہ میں ہے۔’
انڈیا نے غازی کو ڈبونے کا غلط کریڈٹ لینے کی کوشش کی
اہم بات یہ ہے کہ انڈیا کی جانب سے غازی کے ڈوبنے کے واقعے پر اگلے چھ دن تک کوئی اعلان نہیں کیا گیا۔ غازی کے ڈوبنے کی پہلی خبر انڈین نیول ہیڈ کوارٹرز نے 9 دسمبر کو دی تھی جبکہ غازی 3-4 دسمبر کی شب کو ہی تباہ ہو چکی تھی۔ شروع میں انڈین بحریہ نے اس کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ ان کے جہاز آئی این ایس راجپوت نے غازی کو تباہ کر دیا ہے۔ لیکن انڈین نیوی کے وائس ایڈمرل جی ایم ہیرا نندانی اپنی کتاب ‘ٹرانزیشن ٹو ٹرائمف انڈین نیوی 1965-1975’ میں لکھتے ہیں: ‘غازی کے ڈوبنے اور انڈیا کے اعلان کے درمیان چھ دن کا وقفہ کئی سوالات کو جنم دیتا ہے۔ ان قیاس آرائیوں کو بھی جنم دیا کہ آبدوز غالباً جنگ کے اعلان سے پہلے ہی ڈوب گئی تھی۔ پانچ دسمبر کو انڈین غوطہ خوروں کو اس بات کے پختہ شواہد ملے کہ آبدوز دراصل غازی ہی تھی۔ تیسرے دن غوطہ خور آبدوز کا کوننگ ٹاور ہیچ کھولنے میں کامیاب ہوئے اور اسی دن انھیں آبدوز سے پہلی لاش بھی ملی۔‘
پاکستان نیوی کے مطابق 9 دسمبر کو انڈین نیوی نے اس لیے غازی کو ڈبونے کا کریڈٹ لینے کی کوشش کی کہ اسی دن پاکستان نیوی کی ہنگور آبدوز نے انڈین نیوی کے جہاز آئی این ایس ککھری کو تارپیڈو مار کر ڈبو دیا تھا جس میں تقریباً ایک سو ستر سے زیادہ انڈین نیوی کے فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔ پاکستان نیوی کے مطابق انڈیا نے اس سبکی سے بچنے کے لیے یہ دعوی کیا کہ غازی کو ان کے جہاز نے ڈبو دیا ہے۔
غازی میں دھماکہ اضافی ہائیڈروجن کی وجہ سے ہوا؟
کوئی بھی غازی کے ڈوبنے کی وجہ کے بارے میں قیاس آرائی کرسکتا ہے۔ ایک خدشہ یہ ظاہر کیا گیا کہ غازی اپنی ہی بچھائی ہوئی سرنگ سے ٹکرا گئی۔ ایک مفروضہ یہ بھی تھا کہ بارودی سرنگیں جو آبدوز لے جا رہی تھیں اچانک پھٹ گئیں اور غازی تباہ ہو گئی۔ ایک امکان یہ تھا کہ آبدوز میں ضرورت سے زیادہ ہائیڈروجن گیس بھر گئی جس کی وجہ سے وہ پھٹ گئی۔
زیادہ تر انڈین عہدیدار اور غوطہ خور جنھوں نے غازی کی باقیات کی چھان بین کی سمجھتے ہیں کہ چوتھی بات کا امکان سب سے زیادہ تھا۔ غازی کے ملبے کے تفتیش کاروں کا کہنا ہے کہ غازی کا ڈھانچہ درمیان سے ٹوٹا ہوا تھا نہ کہ اس جگہ سے جہاں ٹارپیڈو رکھے گئے تھے۔ اگر ٹارپیڈو یا بارودی سرنگ پھٹ جاتی تو آبدوز کے اگلے حصے کو زیادہ نقصان ہوتا۔ اس کے علاوہ غازی کی میسج لاگ بک سے بھیجے گئے بیشتر پیغامات میں بتایا گیا تھا کہ آبدوز کے اندر ضرورت سے زیادہ ہائیڈروجن گیس پیدا ہو رہی ہے۔
غازی کے سابق کمانڈر اور پاکستان نیوی کے ریٹائرڈ وائس ایڈمرل احمد تسنیم کہتے ہیں کہ اس بات میں اب کوئی شک نہیں کہ غازی میں دھماکہ اندر ہوا تھا، باہر سے نہیں۔ ‘اب تصویری شواہد بھی ہیں کہ اس کے ہیچز باہر کی طرف کھلے ہیں’ جس کا مطلب یہ ہے کہ نہ تو غازی کسی سرنگ سے ٹکرائی اور نہ ہی کسی انڈین جہاز نے اسے ڈبویا۔
ان کے مطابق ‘دوسری اہم بات جس کی تصدیق ہو چکی ہے وہ یہ ہے کہ غازی میں اندر ہونے والا دھماکہ اس کے اگلے حصے میں ہوا۔’ ان کے مطابق آبدوز کے اگلے حصے میں دو چیزیں ہیں؛ ایک اس کی بیٹری ہے جب کہ ساتھ ہی بارودی سرنگیں اور تارپیڈو سٹور بھی ہیں۔ ‘یہ دونوں ساتھ ساتھ ہیں اور اگر ایک بھی بارودی سرنگ پھٹتی ہے تو باقی بھی پھٹیں گی اور بیٹری بھی پھٹے گی۔ اور اگر بیٹری پھٹتی ہے تو پھر بارودی سرنگیں بھی پھٹیں گی۔ لیکن یہ کہنا مشکل ہے کہ پہلے کیا پھٹا۔’
غازی اب بھی وشاکھاپٹنم کے مضافات میں دفن ہے
غازی اب تک وشاکھاپٹنم بندرگاہ کے مضافات میں پانی میں دفن ہے۔ امریکیوں نے انڈین حکومت کو تجویز دی تھی کہ وہ غازی کو اپنے اخراجات پر سمندر کی تہہ سے نکالے گی کیونکہ یہ آبدوز اصل میں امریکہ کی تھی جسے اس نے پاکستان کو لیز پر دیا تھا۔ لیکن انڈیا نے یہ پیشکش مسترد کر دی تھی۔ حکومت پاکستان بھی اپنے خرچ پر غازی کو نکالنے کی پیشکش کر چکی ہے جس کا جواب نفی میں دیا گیا۔
غازی کے سابق کمانڈر اور پاکستان نیوی کے ریٹائرڈ وائس ایڈمرل احمد تسنیم کہتے ہیں کہ ان کی ذاتی رائے میں غازی کے جوانوں کو سمندر میں ان کی قبروں میں سکون سے سونے دینا چاہیے: ‘لِٹ دیم ریسٹ ایٹ دیئر سی گرویز’۔