سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے اور جوابی کارروائی کے طور پر غزہ کی پٹی پر اسرائیلی حملے نے ایک طرف تباہی اور موت کی کہانیوں کو جنم دیا ہے تو دوسری جانب دنیا بھر میں دونوں اطراف کے حق میں یا صرف خطے میں امن کے قیام کے لیے مظاہرے بھی شروع ہوئے۔
فلسطین کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں شریک افراد، چاہے وہ عرب ہوں یا نہ ہوں، کو روایتی کوفیہ پہنچے دیکھا گیا۔ کسی نے اسے سر پر اوڑھا تو کسی نے گردن میں کوفیہ ڈال کر فلسطین کی حمایت کا اظہار کیا۔
کوفیہ کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ یقینا یہ ایک سادہ رومال سے بڑھ کر ہے۔ بہت سے فلسطینیوں کے لیے یہ مزاحمت اور جدوجہد کی علامت اور ایک ایسا سیاسی اور ثقافتی آلہ ہے جس کی اہمیت میں 100 سال کے دوران اضافہ ہوا ہے۔
کچھ لوگ اسے فلسطین کا ’غیر سرکاری پرچم‘ بھی کہتے ہیں۔
کوفیہ کا آغاز
چند مورخین کے مطابق کوفیہ کی ابتدا ساتویں صدی عیسوی میں عراق کے شہر کوفہ سے ہوئی اور اسی کی وجہ سے کوفیہ کا نام پڑا۔ ایک اور وضاحت کے مطابق کوفیہ اسلام سے پہلے ہی وجود رکھتا تھا۔
سچ جو بھی ہو، حقیقت یہ ہے کہ وقت کے ساتھ اس کے استعمال میں اضافہ ہوتا چلا گیا۔ لیکن ابتدا میں اس کی وجوہات سیاسی یا ثقافتی نہیں تھیں۔
20ویں صدی کے آغاز پر کوفیہ کو دیہات کے شہری یا عرب بدو سورج کی حدت، تیز ہوا، صحرا کی ریت یا سردی سے بچنے کے لیے اوڑھا کرتے تھے۔
فلسطین کے شہروں میں اسے پہننے کا رواج زیادہ نہیں تھا جہاں ’فیز‘ پہننے کا رواج عام تھا۔ فیز، جسے تربش بھی کہا جاتا ہے، ایک لال رنگ کی ٹوپی تھی جو سلطنت عثمانیہ کے بادشاہ محمود دوم کے دور میں مشہور ہوئی۔
تحقیق کے مطابق 1930 کے آس پاس کوفیہ کی اہمیت فلسطینی معاشرے میں بڑھنا شروع ہوئی اور تب ہی اس کے استعمال میں بھی اضافہ ہوا۔
1936 کی بغاوت
سنہ 1930 میں فلسطین برطانیہ کے زیر اثر آ چکا تھا۔ پہلی جنگ عظیم میں سلطنت عثمانیہ کی شکست کے بعد فلسطین سمیت مشرق وسطی کا بیشتر حصہ لیگ آف نیشنز کے فیصلے کے تحت مختلف اتحادی قوتوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
فلسطین 1920 سے 1948 تک برطانیہ کے زیر اثر رہا۔ تاہم اس دوران مقامی فلسطینیوں میں بے چینی بڑھتی گئی کیوں کہ ان کے خیال میں برطانیہ صیہونی منصوبے کی حمایت کر رہا تھا جس کے تحت اس خطے میں ایک یہودی ملک قائم کرنے کی تیاری ہو رہی تھی۔
یہی وہ وقت تھا جب یورپ سے مشرق وسطی کی جانب بڑی تعداد میں یہودی آبادکاروں نے بھی رخ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اس بے چینی کے باعث ہی عرب قوم پرستوں نے بغاوت کی جسے ’عظیم عرب بغاوت‘ کے نام سے جانا جاتا ہے اور یہ 1936 سے 1939 تک جاری رہی۔
اس دوران خطے میں تناؤ بڑھا اور کوفیہ نے بھی ایک اہم کردار ادا کیا۔
جین ٹائنین نیدرلینڈ کی ایمسٹرڈیم یونیورسٹی سے تعلق رکھنے والی ایک مورخ ہیں جنھوں نے کوفیہ پر تحقیق کر رکھی ہے۔ انھوں نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’فلسطینی برطانیہ سے مایوس ہو چکے تھے اور مزاحمت کر رہے تھے۔ اس دوران یہ ضروری تھا کہ مزاحمت کرنے والوں کی شناخت ممکن نہ ہو اور یوں کوفیہ برطانوی حکام کو کنفیوز کرنے کی حکمت عملی کا اہم جزو بن گیا۔‘
1938 میں بغاوت کے سربراہوں نے شہری علاقوں میں بسنے والے تمام عرب باشندوں کو کوفیہ پہننے کا حکم دیا۔
جین کا کہنا ہے کہ ’یوں ایک شخص کو دوسرے سے ممتاز کرنا مشکل ہو گیا اور باغیوں کے لیے نقل و حرکت آسان ہو گئی کیوں کہ برطانوی حکام مکمل طور پر اس حمکت عملی سے کنفیوز ہو گئے۔‘
چند حکایتوں کے مطابق برطانیہ نے کوشش کی کہ کوفیہ پر پابندی عائد کر دی جائے تاہم اس میں کامیابی حاصل نہیں ہو سکی۔
اینو لنگالا نے کوفیہ کی معاشرتی اور سیاسی تاریخ پر کتاب لکھی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’کوفیہ ایک موثر عسکری حکمت عملی کا حصہ تھا لیکن یہ ایک متحدہ مزاحمتی تحریک کی علامت بھی بن گیا۔‘
وہ کہتے ہیں کہ 1938 میں اس کپڑے نے فلسطینی ثقافت میں اس لیے اہمیت اختیار کر لی کیوں کہ ’اندرونی اختلافات کے باوجود ایک قومیت پرست مہم میں اتحاد قائم کرنے کے لیے اختلافات کو ایک طرف رکھ دیا گیا تاکہ نو آبادیاتی نظام کیخلاف اکھٹے ہو کر مخالفت کی جائے۔‘
جین کا کہنا ہے کہ اس وقت سے ہی کوفیہ فلسطینی حق خود ارادیت، معاشرتی انصاف اور اتحاد کی علامت بنا۔ ’یہ باغیوں کے لیے ایک پیغام تھا کہ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔‘
کوفیہ کا مطلب کیا ہے؟
کوفیہ کی مختلف اقسام ہیں اور سب کے رنگ بھی مختلف ہیں۔ تاہم فلسطینیوں میں سب سے زیادہ رواج سیاہ اور سفید کوفیہ کا ہے۔ کوفیہ میں تین نمایاں چیزیں ہیں؛ زیتون کے پتے اس علاقے میں زیتون کے درختوں کی علامت ہونے کے ساتھ ساتھ زمین سے تعلق کی علامت بھی ہیں۔ لال رنگ فلسطینی مچھیروں کی نمائندگی کرتا ہے اور ان کا بحیرہ روم سے تعلق بھی ثابت کرتا ہے جبکہ کالا رنگ فلسطین کے ہمسائیوں کے ساتھ روایتی تجارتی راستوں کی نمائندگی کرتا ہے۔
کوفیہ بین الاقوامی سطح پر کیسے مشہور ہوا؟
1930 کی بغاوت کے بعد کوفیہ فلسطینی شناخت کا لازم و ملزوم حصہ بن گیا۔ مورخین کا اتفاق ہے کہ نبکہ کے باعث، جب اسرائیل کے قیام کے بعد لاکھوں فلسطینیوں کو جبری طور پر بے دخل کر دیا گیا، اس علامت کی شدت میں اضافہ ہوا۔
تاہم 1960 سے قبل کوفیہ بین الاقوامی سطح پر زیادہ مشہور نہیں تھا۔ عالمی سطح پر کوفیہ کی شہرت کا سہرا یاسر عرفات کو دیا جاتا ہے جو بذات خود فلسطینی مزاحمت کا چہرہ بنے۔
یاسر عرفات کی کوئی تصویر ایسی نہیں جس میں ان کو کوفیہ کے بغیر دیکھا جا سکے۔ شام، اردن اور لبنان میں انھوں نے یہی رومال پہنے لڑائی لڑی جبکہ 1974 میں اقوام متحدہ میں فلسطینی حق خود ارادیت پر تقریر کرتے وقت بھی انھوں نے کوفیہ پہن رکھا تھا۔ 20 سال بعد جب ان کو امن کا نوبل انعام دیا گیا تب بھی وہ کوفیہ اوڑھے نظر آئے۔
جین کا کہنا ہے کہ ’یاسر عرفات کوفیہ اوڑھ کر ایک سیاسی بیانیہ دیتے تھے۔ وہ احتیاط سے اسے اس طرح اوڑھتے کہ دائیں کندھے پر ایک تکون کی شکل بنتی جو 1948 سے قبل فلسطین کے نقشے جیسا لگتا۔‘
اینو لنگالا کے مطابق جب 1967 کی چھ دن کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد اسرائیلی حکام نے فلسطینی پرچم پر پابندی لگائی تو کوفیہ کی علامتی اہمیت میں اضافہ ہو گیا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’جیسے جیسے فلسطینیوں کی اجتماعی شناخت اور ان کی زمین پر ان کے حق کو لاحق خطرات بڑھتے گئے، کوفیہ جیسی ثقافتی علامات جو اتحاد اور شناخت کی علامت تھیں، زیادہ اہم ہوتی چلی گئیں۔‘
یوں فلسطین کے حق میں بننے والے پوسٹرز اور سیاسی تصاویر میں کوفیہ نظر آنے لگا اور خواتین نے بھی اسے اوڑھنا شروع کر دیا۔
1973 کی ایک تصویر بین الاقوامی طور پر کافی مشہور ہوئی جس میں پاپولر فرنٹ فار دی لبریشن آف فلسطین کی رکن، لیلی خالد، کلاشنکوف تھامے کوفیہ پہنے نظر آئیں۔
لیلی نے بعد میں برطانوی اخبار گارڈیئن کو وضاحت دی کہ ایک خاتون ہونے کے ناطے وہ یہ دکھانا چاہتی تھیں کہ مسلح جدوجہد میں وہ مردوں کے برابر ہیں۔ ’اسی لیے ہم ظاہری شناخت میں بھی مردوں جیسا نظر آنا چاہتے ہیں۔‘
فیشن
جین کا کہنا ہے کہ مندرجہ بالا تمام نکات نے اس کپڑے کو بین الاقوامی طور پر اہمیت دلائی خصوصا مغربی دنیا میں۔
ان کے مطابق شمالی امریکہ اور یورپ میں میڈیا کی وجہ سے کوفیہ مشہور ہوا اور پھر فیشن بن گیا۔
اپنی تحقیق میں انھوں نے بتایا ہے کہ 1970 میں مغرب میں بہت سے نوجوانوں نے کوفیہ کو اپنایا جس سے وہ نوآبادیاتی نظام اور سرمایہ کاری نظام کیخلاف مزاحمت کی حمایت دکھانا چاہتے تھے۔
1990 کی دہائی میں بہت سے مشہور شخصیات نے بھی کوفیہ پہنا جن میں برطانوی فٹ بالر ڈیوڈ بیکھم اور موسیقار روجر واٹرز شامل ہیں۔
امریکی سٹورز میں اسے بطور فیشن بیچا جانے لگا جبکہ گونچی اور لوئی وٹون جیسے ڈیزائنرز نے بھی اس کا استعمال کیا۔
یہ کپڑا اتنا مشہور ہوا کہ چین تک میں اس کی تیاری شروع ہو گئی۔ اب فلسطین میں کوفیہ بنانے والی صرف ایک ہی فیکٹری باقی ہے۔ غرب اردن کے شہر ہیبرون میں 1961 میں اس فیکٹری کو یاسر ہرباوی نے قائم کیا تھا۔
مزاحمت کی علامت
اگرچہ کوفیہ فیشن کا حصہ بھی بن گیا لیکن مورخین کے مطابق اس کی سیاسی اور ثقافتی اہمیت میں کبھی بھی کمی نہیں ہوئی۔
غزہ کی پٹی میں جاری جنگ کی وجہ سے اس کی اہمیت حالیہ دور میں ایک بار پھر اجاگر ہوئی ہے۔
کوفیہ تناعوں کا مرکز بھی بنا ہے اور دنیا کے چند حصوں میں اسے اوڑھنے پر پابندی بھی لگائی گئی جیسا کہ جرمنی کے دارالحکومت برلن کے چند سکولوں میں۔
اینو لنگالا کے مطابق ’کوفیہ کی طاقت فلسطینی مزاحمت کی علامت کے طور پر کافی اہم ہے اور فلسطین کے حامی اس کی مدد سے اپنی حمایت کا اظہار کرتے ہیں۔‘
جین کا کہنا ہے کہ ’دنیا بھر میں ایک مخصوص کپڑے سے جڑی لوگوں کی اتنی دلچسپی نہایت غیر معمولی ہے جس کی نظیر نہیں ملتی۔‘