سات اکتوبر کو اسرائیل پر ہونے والے حملوں کے حوالے سے بی بی سی کو معلوم ہوا ہے کہ یہ حماس سمیت پانچ مسلح گروہوں کی اجتماعی کارروائی تھی اور ان حملوں میں ملوث یہ پانچ گروہ سنہ 2020 سے فوجی طرز کی مشقوں میں حصہ لے کر تربیت حاصل کر رہے تھے۔
ان پانچ مسلح گروہوں نے سنہ 2020 کے بعد سے غزہ میں اس نوعیت کی فرضی مشترکہ مشقیں کیں جو کہ اسرائیل پر سات اکتوبر کو ہونے والے حملوں میں اپنائی گئی تیکنیک سے بہت مشابہت رکھتی تھیں۔
تربیتی مراحل میں یرغمال بنائے جانے، کمپاؤنڈز پر چھاپے مارنے اور اسرائیل کے دفاع کی خلاف ورزی کی فرضی مشقیں بھی شامل تھیں اور ان میں سے آخری مشق حملے سے صرف 25 دن پہلے کی گئی تھی۔
بی بی سی عربی اور بی بی سی ویریفائی نے ایسے شواہد جمع کیے ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ کس طرح حماس نے غزہ کے مختلف مسلح گروہوں کو جنگی حربے بہتر بنانے کی غرض سے ایک جگہ جمع کیا اور بلآخر ایک ایسا حملہ ہوا جس نے خطے کو جنگ کی لپیٹ میں لے لیا۔
اتحاد کی علامت
دسمبر 2020 کو حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے غزہ کے مختلف مسلح دھڑوں کے درمیان ’سٹرانگ پلر‘ کے عنوان کے تحت ہونے والی چار مشقوں میں سے پہلی مشق کو (دشمنوں کے لیے) ’ (ایک) مضبوط پیغام اور اتحاد کی علامت‘ قرار دیا تھا۔
حماس کو سب سے زیادہ طاقتور گروہ ہونے کے باعث غزہ کے تمام مسلح گروہوں میں برتری حاصل تھی، جس کی بنیاد پر اس نے 10 دیگر فلسطینی دھڑوں کو جنگی طرز کی فوجی مشقوں کے لیے اکھٹا کیا، ان مشقوں کی نگرانی ایک مشترکہ آپریشن روم کیا کرتا تھا۔
یہ حمکت عملی درحقیقت سنہ 2018 میں غزہ کے تمام مسلح دھڑوں کو ایک مرکزی کمان کے تحت جمع کرنے کے لیے بنائی گئی تھی۔
سنہ 2018 سے پہلے حماس نے اس ضمن میں غزہ کے دوسرے سب سے بڑے مسلح گروہ ’فلسطین اسلامی جہاد‘ کے ساتھ باضابطہ رابطہ کیا تھا۔
حماس اس سے قبل بھی اسرائیل کے ساتھ گذشتہ تنازعات کے دوران دیگر مسلح گروپوں کے ساتھ مل کر لڑائی لڑ چکا ہے تاہم 2020 میں مشترکہ عسکری مشقیں اس بات کا ثبوت تھیں کہ مسلح گروہوں کی ایک بڑے مقصد کے لیے متحد کیا جا رہا تھا۔
حماس کے ایک رہنما کے مطابق اس ضمن میں ہونے والی پہلی مشترکہ مشق مسلح دھڑوں کی ’مستقل تیاری‘ کی عکاسی کرتی ہے۔
سنہ 2020 کی فوجی انداز کی مشق تین سال میں منعقد کی جانے والی چار مشترکہ مشقوں میں سے پہلی تھی، اور ان مشقوں کی تفصیلات کو حماس کے سوشل میڈیا چینلز پر پوسٹ کی گئی ویڈیوز کی صورت میں ایک دستاویزی شکل دی گئی تھی۔
بی بی سی نے پیغام رسانی کی ایپ ٹیلی گرام پر پوسٹ کی گئی فوٹیج میں فلسطین اسلامی جہاد سمیت 10 گروپوں کی شناخت حماس کے ساتھ مشقوں کے دوران اُن کے مخصوص سر اور بازوؤں پر پہنے جانے والے عسکری نشانات کی مدد سے کی ہے۔
سات اکتوبر کو ہونے والے حملے کے بعد ان مسلح گروپوں سے منسلک پانچ افراد نے ویڈیوز پوسٹ کرتے ہوئے ان حملوں میں حصہ لینے کا دعویٰ کیا جبکہ تین دیگر افراد نے ٹیلی گرام پر جاری تحریری بیانات میں اسرائیل پر حملے میں حصہ لینے کا اقرار کیا۔
اسرئیل پر حملوں کے دعویدار یہ گروہ اس وقت تیزی سے توجہ کا مرکز بن گئے ہیں جب حماس پر ان درجنوں خواتین اور بچوں کو تلاش کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے جن کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ سات اکتوبر کو اس کے دیگر دھڑے انھیں اسرائیل سے غزہ لے گئے تھے۔
حماس کے علاوہ فلسطین اسلامک جہاد ، مجاہدین بریگیڈز اور النصر صلاح الدین بریگیڈز نے حملے والے روز اسرائیلی یرغمالیوں کو تحویل میں لینے کا دعویٰ کیا تھا۔
اسرائیل پر حملوں میں حصہ لینے والے تمام مسلح گروہوں میں نظریاتی یکسانیت یہ تھی کہ انھوں نے اسرائیل کے خلاف تشدد کے استعمال پر اپنی اپنی آمادگی ظاہر کی اس سے قطع نظر کہ اُن میں سے چند گروہ سخت گیر اسلام پسند نظریات کا پرچار کرتے ہیں جبکہ چند نسبتاً سیکولر نظریات کو فروغ دیتے ہیں۔
حماس نے اس دوران اپنے بیانات کے ذریعے بار بار غزہ کے ان مسلح گروہوں کے درمیان اتحاد کی ضرورت پر زور دیا۔ اس دورانیے میں حماس نے تمام گروہوں کو بارہا یہ یقین دہانی کروائی کہ وہ مشترکہ مشقوں میں برابر کے شریک ہیں، جبکہ دوسری طرف حماس نے خود اسرائیل پر حملہ کرنے کے منصوبوں میں اہم کردار ادا کرنے کا سلسلہ کرنا جاری رکھا۔
پہلی فرضی مشق کی فوٹیج میں نقاب پوش کمانڈروں کو ایک بنکر میں دکھایا گیا ہے، اس فرضی مشق کا آغاز ایک راکٹ کے فائر ہونے کے ساتھ ہوتا ہے۔
اس کے فوراً بعد دیکھایا جاتا ہے کہ بھاری ہتھیاروں سے لیس جنگجو ایک ایسے فرضی ٹینک پر چڑھ دوڑتے ہیں جس پر اسرائیل کا پرچم نصب ہے۔ ٹینک والی اس فرضی مشق کے دوران ایک جنگجو ٹینک میں موجود ایک شخص کو نکالتا ہے اور اسے قیدی کے طور ساتھ لے جاتا ہے۔
ہم ان ویڈیوز اور گواہوں کے بیانات کے باعث جانتے ہیں کہ 7 اکتوبر کو فوجیوں کو پکڑنے اور اسرائیلی شہریوں کو نشانہ بنانے کے لیے حملہ آوروں کی جانب سے یہ دونوں ہی حربے حقیقت میں استعمال کیے گئے۔
منظرِ عام پر
حماس کے ساتھ اب پانچ دیگر گروہوں کی ’سٹرانگ پلر‘ کی دوسری مشق پہلی فرضی مشق کے تقریباً ایک سال بعد منعقد ہوئی۔
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کے ایک کمانڈر ایمن نوفل نے کہا کہ 26 دسمبر 2021 کو ہونے والی دوسری مشق کا مقصد ’مزاحمتی دھڑوں کے اتحاد کے عزم کا اعادہ‘ کرنا تھا۔
انھوں نے کہا تھا کہ ان فرضی مشقوں کا مقصد ’دشمن کو یہ باور کروانا ہے کہ غزہ کی سرحد پر بنائی گئی دیواریں اور دیگر حفاظتی اقدامات ان کو بچا نہیں پائیں گے۔‘
ان مشقوں کو 28 دسمبر 2022 کو دہرایا گیا تھا اور جنگجوؤں کی عمارتوں اور ٹینکوں پر کنٹرول حاصل کرنے کے اس تربیتی مرحلے کے حوالے سے بھی تصاویر شائع کی گئیں۔
اسرائیلی فوج نے 17 اکتوبر 2023 کو غزہ پر کیے گئے ایک حملے کے دوران نوفل کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
اسرائیل کے پاس ان تمام فرضی مشقوں کی اطلاعات اور تفصیلات موجود تھیں اس لیے یہ ناقابل فہم ہے کہ ملک کی متحرک انٹیلیجنس ایجنسیوں کی طرف سے ان مشتوں کی کڑی نگرانی کیوں نہیں کی جا رہی تھی۔
ماضی میں اسرائیلی فوج حماس کی تربیتی سرگرمیوں میں رکاوٹیں ڈالنے کے لیے متعدد فضائی حملے کر چکی ہے۔ رواں سال اپریل 2023 میں انھوں نے اس جگہ بمباری کی تھی جو ’سٹرانگ پلر‘ کی پہلی فرضی مشق کے لیے استعمال ہوئی تھی۔
حملوں سے ایک ہفتے پہلےغزہ کی سرحد کی نگرانی پر مامور سپاہیوں نے مبینہ طور پر حماس کی غیر معمولی ڈرون کارروائیوں سے متعلق خبردار کیا تھا اور بتایا تھا کہ جنگجو فرضی پوسٹوں پر قبضہ کرنے کی تربیت میں مشغول ہیں۔
لیکن اسرائیلی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ان خدشات کو نظر انداز کر دیا گیا تھا۔
اسرائیلی فوج کے سابق ڈپٹی کمانڈر بریگیڈیئر جنرل عامر اویوی نے بی بی سی کو بتایا کہ ’(اسرائیل کی) بہت سی انٹیلیجنس ایجنسیوں کو اس کی خبر تھی کہ جنگجو تربیت حاصل کر رہے ہیں اور یہ سب اسرائیل کی جانب سے سرحد پر لگائی گئی باڑ سے کچھ ہی دور ہو رہا تھا۔ تاہم ان کا کہنا ہے کہ فوج کو مشقوں کے بارے میں علم تھا مگر شاید انھوں نے یہ نہیں دیکھا کہ وہ (مسلح گروہ) کس چیز کی تربیت لے رہے تھے۔
نظروں سے اوجھل
حماس نے ان تربیتی مشقوں کو حقیقت پسندانہ بنانے کی بھرپور کوشش کی۔ 2022 میں جنگجوؤں نے ایک فرضی اسرائیلی فوجی اڈے پر حملہ کرنے کی مشق کی۔
بی بی سی ویریفائی نے غزہ کے انتہائی شمال میں سرحد سے صرف 800 میٹر کے فاصلے پر تربیتی فوٹیج میں نظر آنے والی جغرافیائی خصوصیات کو علاقے کی فضائی تصاویر سے ملا کر اس جگہ کی نشاندہی کی ہے۔
یہ تربیتی کیمپ اسرائیلی آبزرویشن ٹاور اور ایک بلند آبزرویشن باکس کے 1.6 کلومیٹر کے دائر میں تھا، جس کی تعمیر میں اسرائیل نے سینکڑوں ملین ڈالر خرچ کیے ہیں۔
یہ فرضی اڈہ زمین سے کئی میٹر نیچے کھودی گئی سطح پر ہے، اس لیے ہو سکتا ہے کہ یہ فوری طور پر کسی قریبی اسرائیلی پیٹرولنگ (گشت) میں نظر نہ آیا ہو تاہم دھماکوں سے اٹھنے والا دھواں نگرانی کرنے والوں کی نظروں سے پوشیدہ نہیں رہ سکتا تھا۔
حماس نے 7 اکتوبر کو اس مقام کو اسرائیلی عمارتوں پر حملہ کرنے، گن پوائنٹ پر اسرائیلی شہریوں کو یرغمال بنانے اور حفاظتی رکاوٹوں کو تباہ کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔
بی بی سی ویریفائی نے غزہ میں 14 تربیتی مقامات کا پتا لگانے کے لیے سیٹلائٹ کی تصویروں سمیت عوامی طور پر دستیاب معلومات کا استعمال کیا ہے۔
زمین، سمندر اور ہوا
10 ستمبر 2023 کو غزہ کے مسلح گروہوں کے مشترکہ کنٹرول روم نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر فوجی وردیوں میں ملبوس مردوں کی تصاویر شائع کیں جو فوجی تنصیبات کی نگرانی کر رہے تھے۔
اس کے دو روز بعد ’سٹرانگ پلر‘ کی چوتھی فرضی عسکری مشقوں کا انعقاد کیا گیا اور سات اکتوبر تک کی جانے والی تمام چار مشقوں کی ریہرسل کی گئی۔
حماس کے جنگجوؤں کو فرضی مشقوں کے دوران جن سفید ٹویوٹا پک اپ ٹرکوں میں سوار دکھایا گیا، یہ وہی ٹرک ہیں جو اگلے ہی ماہ جنوبی اسرائیل میں گھومتے اور حملہ آور ہوتے ہوئے دیکھے گئے۔
فرضی مشقوں کی ویڈیوز میں بندوق سے لیس جنگجوؤں کو فرضی عمارتوں پر چھاپہ مارتے اور اندر موجود فرضی اہداف پر فائرنگ کرتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔
ان ہی ویڈیوز میں کشتی میں سوار غوطہ خوروں کی مدد سے ساحل پر دھاوا بولنے کی تربیت بھی دکھائی دے رہی ہے تاہم یہ فوٹیجز جنگجو گروہوں کی جانب سے پراپیگنڈے کے لیے اس وقت جاری نہیں کی گئی تھیں۔
اسرائیل نے کہا ہے کہ اس نے سات اکتوبر کو حماس کی کشتیوں کو اپنے ساحلوں تک پہنچنے کی کوششوں کو کامیاب نہیں ہونے دیا تھا۔
حماس کی طرف سے سات اکتوبر کے تین دن بعد پوسٹ کی گئی ایک تربیتی ویڈیو میں دکھایا گیا کہ موٹر سائیکلوں کو راستہ دینے کے لیے وہاں موجود باڑ اور رکاوٹوں کو توڑا جا رہا۔ یہ ایک ایسا حربہ ہے جو انھوں نے جنوبی اسرائیل میں یہودی آبادیوں تک پہنچنے کے لیے استعمال کیا۔ بی بی سی نے پہلے سے ملتی جلتی ویڈیوز کی شناخت نہیں کی۔
پیراگلائیڈنگ کا سامان استعمال کرنے والے جنگجوؤں کی فوٹیج بھی اس وقت تک شائع نہیں کی گئی جب تک سات اکتوبر کا حملہ نہیں ہوا تھا۔
حملے کے دن شیئر کی گئی ایک تربیتی ویڈیو میں بندوق سے لیس جنگجووں کو ایک فرضی فضائی پٹی پر اترتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
بی بی سی ویریفائی نے ثابت کیا کہ یہ ویڈیو 25 اگست 2022 سے کچھ پہلے ریکارڈ کی گئی تھی اور اسے ایگل سکواڈرن کے نام سے ایک کمپیوٹر فائل میں محفوظ کیا گیا تھا۔
واضح رہے کہ ایگل سکواڈرن کا نام حماس اپنے فضائی ڈویژن کے لیے استعمال کرتا ہے۔
حیرت کا عنصر
اسرائیلی فوج کے کمانڈروں کی رپورٹس کے مطابق سات اکتوبر سے پہلےغزہ کی پٹی میں حماس کے تقریباً 30 ہزار جنگجو موجود تھے۔ یہ خیال بھی کیا گیا کہ حماس چھوٹے گروپوں کے ہزاروں جنگجوؤں کو اپنے ساتھ ملا سکتا ہے۔
حماس اب تک دوسرے دھڑوں کی حمایت کے بغیر بھی فلسطینی مسلح گروپوں میں سب سے زیادہ طاقتور ہے اور ان دیگر دھڑوں کو ساتھ ملانے کا مقصد غزہ کے اندر وسیع حمایت حاصل کر کے اپنی تعداد کو بڑھانا تھا۔
اسرائیلی فوج کے ایک اندازے کے مطابق سات اکتوبر کے حملوں کے لیے 1,500 جنگجو شامل ہوئے تاہم ٹائمز آف اسرائیل نے رواں ماہ کے شروع میں رپورٹ کیا کہ اسرائیلی فوج کو اب یقین ہے کہ یہ تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔
جنگجوؤں کی صحیح تعداد جو بھی ہو لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ غزہ میں مسلح کارکنوں کی کل تعداد کا یہ صرف ایک نسبتاً چھوٹا حصہ تھا۔ چھوٹے گروپوں کے کتنے جنگجوؤں نے حملے یا ’سٹرانگ پلر‘ کی مشقوں میں حصہ لیا، اس بارے میں درست تعداد کی تصدیق تاحال ممکن نہیں۔
لبنانی فوج کے سابق بریگیڈیئر اور مڈل ایسٹ سینٹر فار سٹڈیز اینڈ ریسرچ کے سکیورٹی تجزیہ کار جنرل ہشام جابر کا کہنا ہے کہ ’میرے خیال کے مطابق حملوں کی حتمی منصوبہ بندی سے صرف حماس ہی واقف تھا اور اس نے ممکنہ طور پر دوسرے دھڑوں کو اسی روز شامل ہونے کو کہا۔‘
کنگز کالج لندن میں سکیورٹی سٹڈیز کے ایک سینیئر لیکچرر ایندریاس کریگ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’جب مرکزی منصوبہ بندی کی جا رہی تھی اس پر عمل درآمد کے لیے ہر سکواڈ نے حمایت کی۔‘
یورپی کونسل آن فارن ریلیشنز کے مشرق وسطیٰ کے تجزیہ کار ہیو لوواٹ نے کہا کہ اسرائیل کو مشترکہ تربیتی مشقوں کا علم تھا لیکن وہ اسے فلسطینی علاقوں میں نیم فوجی گروپوں کی عام سی سرگرمی جان کر بڑے پیمانے پر ہونے والے حملے کا اشارہ نہ سمجھ پائے اور غلط نتیجہ اخذ کر لیا۔
اس تحریر میں اٹھائے گئے سوالات کے بارے میں اسرائیلی دفاعی افواج کا کہنا ہے کہ اس کی توجہ ’فی الحال حماس کے خطرے کے خاتمے پر ہے اور کسی بھی ممکنہ ناکامی کے بارے میں سوالات کو بعد کے مرحلے میں دیکھا جائے گا۔‘
اسرائیل کو یہ تسلیم کرنے میں کئی سال لگ سکتے ہیں کہ سات اکتوبر کے واقعات کو روکنے کے مواقع ضائع کیے گئے۔ ملٹری انٹیلیجنس اور حکومت کے لیے ان واقعات کے نتائج لرزہ خیز ہو سکتے ہیں۔