پاکستان سمیت دیگر ممالک کے افراد ترکی کا گولڈن پاسپورٹ کیسے حاصل کر رہے ہیں؟

ایک بین الاقوامی کنسلٹنسی کمپنی کی ویب سائٹ پر مختلف ممالک کے لیے مخصوص سیکشن موجود ہیں جو ان ممالک میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے حوالے سے مشورے اور خدمات فراہم کرتی ہے۔

ان ممالک میں سے ایک ترکی بھی ہے اور اس ویب سائٹ پر ترکی میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے حوالے سے معلومات فراہم کی گئی ہیں۔

یہ پروموشن اس جملے کے ساتھ ختم ہوتی ہے کہ ’ریئل اسٹیٹ یعنی پراپرٹی کی خریداری کے ذریعے ترکی میں سرمایہ کاری کا ذریعہ لوگوں کے لیے سب سے زیادہ پرکشش ہوتا ہے۔ اس کے لیے صرف آپ کو ایسی پراپرٹی خریدنی ہوتی ہے جس کی مالیت چار لاکھ ڈالر سے زیادہ ہو، اس کے علاوہ کچھ اضافی اخراجات بھی اس میں شامل ہوتے ہیں۔

’اس طرح ترکی باقی ممالک کی نسبت سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے اعتبار سے سستا ہے۔‘ خیال رہے کہ سنہ 2022 تک یہ رقم ڈھائی لاکھ ڈالر تھی جسے بعد میں حکومت کی جانب سے بڑھایا گیا ہے۔

ترکی میں اس طرح شہریت اختیار کرنے والوں کے حوالے سے مثبت اور منفی دونوں قسم کی رائے پائی جاتی ہے۔ یہ پالیسی حالیہ سالوں میں ترکی میں رائج ہوئی ہے۔

اسی قسم کی بحث دنیا کے دیگر ممالک میں بھی ہو رہی ہے، اس لیے ہم نے یہ جاننے کی کوشش کی ہے ترکی میں یہ پالیسی ہے کیا؟ دنیا بھر میں کس قسم کی پالیسیاں موجود ہیں اور اس کے مثبت اور منفی پہلو کیا ہیں۔

’گولڈن پاسپورٹ‘ کیا ہے؟

گولڈن پاسپورٹ کی اصطلاح سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتی ہے۔ یہ ’گولڈن ویزا‘ سے مختلف درخواست ہے، جو سرمایہ کاری کے ساتھ ساتھ رہائشی اجازت نامہ بھی فراہم کرتی ہے۔

‘گولڈن پاسپورٹ’ میں غیر ملکی ایک مخصوص رقم کے ساتھ کسی ملک میں سرمایہ کاری کرتے ہیں اور اس ملک کی جانب سے درج کردہ اضافی شرائط کو قبول کرتے ہیں اور یوں انھیں اس ملک کی شہریت حاصل ہو جاتی ہے۔

دنیا بھر میں شہریت حاصل کرنے کا یہ طریقہ کار سنہ 1980 سے رائج ہے لیکن حالیہ برسوں میں یہ پروگرام ایک بڑی صنعت میں تبدیل ہو چکا ہے۔

برطانیہ میں قائم لا ویڈا گولڈن ویزا کمپنی کی مارکیٹنگ مینیجر لیزی ایڈورڈز نے بی بی سی ترکی سے بات کرتے ہوئے ان وجوہات کے بارے میں بات کی جن کی وجہ سے سرمایہ کار غیر ملکی شہریت کی درخواست کرتے ہیں۔ ان کی کمپنی سرمایہ کاری کے بدلے رہائش اور شہریت حاصل کرنے کے حوالے سے مشاورتی خدمات فراہم کرتی ہے۔

وہ بتاتی ہیں کہ ’آج کل زیادہ تر سرمایہ کار ’پلان بی‘ کی تلاش میں ہیں۔ دنیا میں غیریقینی صورتحال کے پیش نظر دوسری رہائش گاہ یا پاسپورٹ کی ضرورت اس سے زیادہ اس سے پہلے کبھی نہیں تھی۔‘

ان کے مطابق ’اگرچہ سرمایہ کاری کرنے والوں کی وجوہات مختلف ہو سکتی ہیں لیکن عام طور پر درخواستوں کی اہم وجوہات میں سکیورٹی، ویزہ کے بغیر سفر اور تعلیم اور ملازمت کے مواقعوں میں اضافہ شامل ہیں۔‘

اس بارے میں التنباس یونیورسٹی میں شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر الیاس کا کہنا تھا کہ جو لوگ اس عمل کے حامی ہیں وہ اسے ترقی پذیر ممالک کے لیے ایک موقع کے طور پر دیکھتے ہیں۔

turkey

ترکی کی اس پالیسی کی خصوصیات کیا ہیں؟

ترکی میں سنہ 2016 اور 2017 میں ’غیر ملکیوں کو غیر معمولی طور پر ترک شہریت حاصل کرنے‘ کے حوالے سے بنائے گئے قوانین کے ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے ترک شہریت حاصل کرنے کی راہ ہموار ہوئی۔

سنہ 2017 میں شہریت کے لیے جائیداد کی کم از کم قیمت کا تعین 10 لاکھ ڈالر، مقررہ سرمائے کی رقم 20 لاکھ ڈالر یا کم از کم 100 افراد کو ملازمت دینا شامل تھا۔

سنہ 2018 میں، متعلقہ ضابطے میں ایک ترمیم کی گئی اور سرمایہ کاری کی رقم کو تبدیل کر دیا گیا۔

اس تناظر میں ریئل اسٹیٹ کی کم از کم قیمت ڈھائی لاکھ لاکھ ڈالر اور فکسڈ کیپیٹل انویسٹمنٹ کی ضرورت کو کم کر کے پانچ لاکھ ڈالر کر دیا گیا۔ اسی طرح روزگار کے مواقع 100 کی بجائے 50 افراد کو فراہم کرنے کی شرط رکھی گئی۔

ضابطے میں اس تبدیلی کے بعد پروگرام میں دلچسپی بڑھ گئی۔ تاہم پھر سنہ 2022 میں اس رقم میں دوبارہ اضافہ کیا گیا۔

اس بار ریئل اسٹیٹ کے حصول کی کم از کم فیس چار لاکھ ڈالر کر دیا گیا۔ لا ویڈا گولڈن ویزا سے تعلق رکھنے والی لیزی ایڈورڈز کا کہنا ہے کہ انھوں نے دیکھا ہے کہ ان تبدیلیوں نے ترک شہریت کی مانگ کو متاثر کیا۔

وہ کہتی ہیں کہ ’جب حکومت نے سرمایہ کاری کی نچلی حد کو ڈھائی لاکھ ڈالر تک کم کیا تو درخواستیں زیادہ تھیں۔ جون 2022 میں جب انھوں نے کم از کم سرمایہ کاری چار لاکھ ڈالر تک بڑھا دی تو یہ اب بھی ایک مقبول پروگرام ہی ہے لیکن اب یہ کچھ لوگوں کے لیے پہنچ سے دور ہو چکا ہے۔‘

اب تک کتنے ممالک کے لوگوں کو شہریت ملی؟

اس بات کا تجسس یقیناً میری طرح آپ کو بھی ہو گا کہ ترکی میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے والے غیر ملکیوں کتنے ہیں؟

تاہم اس بارے میں عوامی طور پر دستیاب سرکاری اعداد و شمار موجود نہیں ہیں۔ وزارت داخلہ کے جنرل ڈائریکٹوریٹ آف پاپولیشن اینڈ سٹیزن شپ افیئرز نے ستمبر 2019 میں ایک بیان شائع کیا تھا یعنی ستمبر 2018 میں متعلقہ ضابطے میں ترمیم کے ایک سال بعد۔

اس بیان میں کہا گیا تھا کہ ایک سال کی مدت میں دو ہزار 611 غیر ملکی سرمایہ کار ترک شہری بنے۔ ان اعداد و شمار میں بتایا گیا کہ غیر ملکی سرمایہ کاروں کی تعداد جو کہ ترک شہری ہیں اور ان کے اہلِ خانہ کی تعداد نو ہزار 962 تک پہنچ چکی ہے۔

سابق وزیر برائے داخلہ امور سلیمان سویلو نے 10 مئی 2022 کو منعقدہ ایک پریس کانفرنس میں اس موضوع پر ڈیٹا شیئر کیا۔ سویلو نے کہا کہ 25 ہزار 969 غیر ملکی سرمایہ کاروں نے ضروری معیار پر پورا اتر کر شہریت حاصل کی۔

ان کے مطابق ان غیر ملکی سرمایہ کاروں سے حاصل ہونے والی آمدنی سات ارب 530 ملین ڈالر ہے۔ سویلو نے کہا کہ ان لوگوں کی سرمایہ کاری صرف جائیداد کے ذریعے ہی نہیں تھی۔

بیان کے مطابق 2019 میں مشرق وسطیٰ کے ممالک میں یہ پالیسی خاصی مقبول رہی۔

پہلے 10 ممالک میں عراق (327)، افغانستان (240)، فلسطین (170)، مصر (110)، لیبیا (66)، لبنان (44)، فیڈریشن آف سینٹ کٹس اینڈ نیوس (29)، سعودی عرب۔ (29)، آذربائیجان (28)، پاکستان سے (26) افراد اس پالیسی سے مستفید ہوئے۔

بی بی سی ترکی نے وزارت داخلہ، جنرل ڈائریکٹوریٹ آف پاپولیشن اینڈ سٹیزن شپ افیئرز اور ترکی کے شماریاتی ادارے (TUIK) سے اس شعبے میں تازہ ترین ڈیٹا کے لیے معلومات کی درخواست کی ہے تاہم تاحال کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔

اس ادارے کے 2022 کے ہاؤسنگ سیلز کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ سال ملک بھر میں 67 ہزار 490 مکانات غیر ملکیوں کو فروخت کیے گئے۔

اس دوران روسی شہریوں نے ترکی میں سب سے زیادہ گھر خریدے جن کی تعداد 16 ہزار 312 ہے۔ گھر خریدنے والے روسیوں کی تعداد میں 203 فیصد اضافہ ہوا۔

روسیوں کے بعد ایرانیوں کی تعداد آٹھ ہزار 223، عراقی 6 ہزار 241، جرمن 2 ہزار 705 اور قازقستان کے شہریوں کی تعداد دو ہزار 702 ہے۔

یوکرینیوں کی جانب سے خریدے گئے گھروں کی فروخت کی تعداد 106.6 فیصد اضافے کے ساتھ 2 ہزار 574 ہو گئی۔

خیال رہے کہ تمام مکانات کی خرید و فروخت سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے نہیں کی جاتی ہے۔ تاہم تعمیراتی صنعت کے نمائندوں کا کہنا ہے کہ شہریت حاصل کرنے کا یہ ایک اہم طریقہ ضرور ہے۔

ڈاکٹر الیاس کہتے ہیں کہ ’اگرچہ سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت حاصل کرنے کے لیے مختلف آپشنز موجود ہیں، لیکن ریئل اسٹیٹ کی خریداری ترکی میں غیر ملکی سرمائے کو راغب کرنے کے لیے سب سے زیادہ استعمال ہونے والا طریقہ ہے۔‘

وہ کہتے ہیں کہ ’روس یوکرین جنگ کو مدنظر رکھتے ہوئے، یہ حیرت کی بات نہیں ہونی چاہیے کہ روسی شہری حال ہی میں اس فہرست میں سرفہرست ہیں۔‘

لیزی ایڈورڈز کہتی ہیں کہ ’ترکی کو اتنی زیادہ درخواستیں کیوں موصول ہوتی ہیں، اس کا بنیادی مفروضہ ملک کی مشرق وسطیٰ سے قربت کے ساتھ ساتھ اس کی ثقافتی اور مذہبی مماثلت ہے۔‘

’ترکی ایرانی، روسی، عراقی اور افغان سرمایہ کاروں کے لیے بھی پرکشش بن گیا ہے، جنھیں یورپی یونین اور کیریبین میں بہت سی سرمایہ کاری کے ساتھ رہائشی اور شہریت کے پروگراموں کے لیے درخواست دیتے وقت بدقسمتی سے مختلف پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔‘

ناقدین کیا کہتے ہیں؟

ایسے لوگ بھی ہیں جو سرمایہ کاری کے پروگرام کے ذریعے شہریت کا دفاع کرتے ہیں اور ساتھ ہی ترکی اور دنیا بھر میں اس پر تنقید کرنے والے بھی ہیں۔

پروفیسر ڈاکٹر الیاس کا کہنا ہے کہ ’سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت کو ایک تجارتی سامان میں تبدیل کر دیا گیا ہے جسے خریدا اور بیچا جا سکتا ہے، اور اس سے تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ’شہریت ایک قومی تصور ہے جو قانونی اور سیاسی تعلقات اور شہری کی ریاست کے ساتھ وفاداری کا اظہار کرتا ہے، لیکن سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت میں ان خصوصیات کی موجودگی کے بارے میں بات کرنا آسان نہیں ہے۔‘

یونین آف ٹرکش بار ایسوسی ایشنز (ٹی بی بی) نے جون 2022 میں سرمایہ کاری کے ذریعے ترک شہریت کے حصول کو ریگولیٹ کرنے والے ضابطے پر عملدرآمد کو روکنے کے لیے ایک مقدمہ دائر کیا تھا۔

ٹی بی بی نے یہ دعوی کیا کہ یہ عمل غیر آئینی اور قانونی ہے اور اس پر ’شہریت کے تصور کو ختم کرنے‘ کا الزام عائد کیا۔ تاہم کونسل آف اسٹیٹ کے متعلقہ چیمبر نے اکثریتی ووٹ سے یہ درخواست مسترد کر دی تھی۔

دنیا میں سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت پر ہونے والی تنقید میں ناقدین یہ دعوے کرتے ہیں کہ اس سے مجرموں کے لیے جگہ بننے کا خدشہ ہوتا ہے، منی لانڈرنگ میں سہولت ہوتی ہے اور مکانات کی قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے۔

ترکی میں مکانات کی قیمتوں میں حالیہ اضافہ اور کچھ حراست میں لیے گئے غیر ملکی مجرموں کی ترکی کی شہریت حاصل کرنے کے باعث اس تنقید کو مزید وزن ملا ہے۔

یہ بھی ظاہر ہوتا ہے کہ کچھ ممالک نے حالیہ برسوں میں ان پالیسیوں کا جائزہ لیا ہے۔

حالیہ برسوں میں اس حوالے سے تیار کردہ رپورٹس میں یورپی کمیشن کا کہنا ہے کہ سرمایہ کاری کے ذریعے شہریت سکیورٹی، منی لانڈرنگ اور ٹیکس چوری جیسے مسائل کے بارے میں خدشات پیدا کرتی ہے۔

تنقید کے بعد قبرص نے سنہ 2020 میں اور بلغاریہ نے 2022 میں گولڈن پاسپورٹ کی پالیسی ختم کر دی تھی۔

قبرص جہاں سب سے زیادہ درخواستیں روس، چین اور یوکرین سے آتی تھیں میں اس وقت بڑی بحث چھڑ گئی تھی جب یہ انکشاف ہوا تھا کہ اس دوران بہت سے مجرموں کو پاسپورٹ فراہم کیے گئے ہیں۔

یورپی کمیشن مالٹا پر اس عمل کو جاری رکھنے پر تنقید کرتا ہے۔ آئرلینڈ اور پرتگال نے 2023 میں ’گولڈن ویزا‘ کی درخواست ختم کر دی تھی۔ ملک میں رہائش کے مسئلے نے پرتگالی حکومت کے اس فیصلے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں