انڈین پنجاب کے ہوشیار پور تعلقہ کے کوشل خاندان کے بیٹے اور فلم انڈسٹری کے مشہور اداکار وکی کوشل ایک نئی فلم ’سیم بہادر‘ میں انڈیا کے پہلے فیلڈ مارشل سیم مانیکشا کا کردار ادا کر رہے ہیں جو یکم دسمبر 2023 کو ریلیز ہو رہی ہے۔
فیلڈ مارشل سیم مانیکشا 1971 کی جنگ کے دوران اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے ساتھ اپنے سخت لہجے اور بات چیت کے ساتھ ساتھ ایک بہادر سپاہی ہونے کے لیے بھی جانے جاتے ہیں۔
اس رپورٹ میں ہم سیم مانیکشا اور ان کی زندگی کے کچھ اہم پہلوؤں کے بارے میں جانیں گے۔
سیم بہادر کون تھے؟
امرتسر میں 1914 میں پیدا ہونے والے سیم مانیکشا کا تعلق ایک پارسی خاندان سے تھا۔ ان کا پورا نام سام ہرمزجی فرامجی جمشید جی مانیکشا تھا، لیکن انھیں اپنے پورے نام سے شاذ و نادر ہی پکارا جاتا تھا۔
سیم کو پہلی بار 1942 میں اس وقت شہرت ملی جب دوسری جنگ عظیم کے دوران برما کے محاذ پر ایک جاپانی سپاہی کی مشین گن سے برسنے والی سات گولیاں ان کی آنتوں، جگر اور گردوں میں پیوست ہو گئیں۔
ان کے سوانح نگار، میجر جنرل وی کے سنگھ نے بی بی سی کو بتایا کہ ’اس وقت سیم کے کمانڈر، میجر جنرل کوون نے فوری طور پر اپنا ملٹری کراس تمغہ اتار کر سیم کی چھاتی پر لگا دیا، کیونکہ یہ تمغہ ہلاک ہونے والے فوجی کو نہیں دیا جا سکتا تھا۔‘
’علاج کرو ورنہ میں تمھیں گولی مار دوں گا‘
تاہم اس وقت میدان جنگ میں زخمی ہو جانے والے فوجیوں کے لیے یہ حکم تھا کہ تمام زخمیوں کو پیچھے چھوڑ دیا جائے کیوں کہ انھیں واپس لانے کی کوشش کے دوران پسپائی کی رفتار سست ہو سکتی ہے۔ اس حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سیم کے اردلی شیر سنگھ زخمی سیم کو اپنے کندھوں پر اٹھا کر واپس لے آئے۔
لیکن سیم کی حالت اتنی خراب تھی کہ ڈاکٹروں کو محسوس ہوا کہ ان کے علاج کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہو گا۔
ایسے میں ایک بار پھر صوبیدار شیر سنگھ آگے بڑھے۔ شیر سنگھ نے اپنی رائفل کا رخ ڈاکٹروں کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم جاپانیوں سے لڑتے ہوئے اپنے افسر کو کندھوں پر اٹھا کر لائے ہیں اور ہم نہیں چاہتے کہ وہ صرف اس لیے ہمارے سامنے دم توڑ دیں کیونکہ آپ ان کا علاج نہیں کر رہے۔ تم ان کا علاج کرو ورنہ میں تمھیں گولی مار دوں گا۔‘
ڈاکٹروں کو علاج کرنا پڑا اور انھوں نے سیم کے جسم سے گولیاں نکال کر ان کی چند آنتوں کو کاٹ دیا۔ یہ ایک خطرناک آپریشن تھا لیکن حیران کن طور پر سیم زندہ بچ گئے۔
سیم مانیکشا کو زخمی حالت میں منڈالے، پھر رنگون اور پھر واپس انڈیا لے جایا گیا جہاں صحت مند ہو جانے کے بعد 1946 میں بطور لیفٹیننٹ کرنل وہ آرمی ہیڈ کوارٹر دہلی میں تعینات تھے۔
1948 میں جب ریاست کشمیر کا تنازع کھڑا ہوا تو ایک اہم موقع پر جب انڈیا کی جانب سے وی پی مینن کشمیر کے انڈیا سے انضمام کے لیے مہاراجہ ہری سنگھ سے بات چیت کرنے سری نگر گئے تو سیم مانیکشا بھی ان کے ہمراہ تھے۔
’کوئی پیچھے نہیں ہٹے گا‘
1962 میں چین کے ساتھ جنگ میں شکست کے بعد سیم مانیکشا کو فورتھ کور کی کمان دی گئی۔
یہ عہدہ سنبھالتے ہی سیم مانیکشا نے سرحد پر تعینات فوجیوں کو مخاطب کیا اور ان کا یہ خطاب آج تک مشہور ہے۔
سیم نے انڈین فوجیوں سے کہا کہ ’آج کے بعد آپ میں سے کوئی بھی اس وقت تک پیچھے نہیں ہٹے گا جب تک کہ آپ کو ایسا کرنے کا تحریری حکم نہ ملے۔‘
سیم نے ساتھ ہی یہ کہا کہ ’یہ یاد رکھنا کہ یہ حکم تمھیں کبھی نہیں دیا جائے گا۔‘
سیم کی حس مزاح
عوامی زندگی میں حس مزاح کے لیے مشہور سیم مانیکشا اپنی نجی زندگی میں بھی ایسے ہی تھے۔
ان کی بیٹی مایا دارو والا نے بی بی سی کو بتایا کہ ’لوگ سمجھتے ہیں کہ سیم ایک عظیم جنرل ہے، اس نے بہت سی لڑائیاں لڑی ہیں، اس کی بڑی مونچھیں ہیں، اس لیے گھر میں بھی ایسا ہی رہتا ہو گا لیکن ایسا کچھ نہیں تھا۔‘
’وہ ایک بچے کی طرح تھے۔ وہ ہمارے ساتھ شرارتیں کرتے تھے اور ہمیں بہت پریشان کرتے تھے۔‘
’کبھی کبھی ہمیں کہنا پڑتا تھا کہ پاپا بس کر دو۔ جب وہ کمرے میں داخل ہوتے تو ہمیں سوچنا پڑتا تھا کہ اب وہ کیا کرنے جا رہے ہیں۔‘
خوش لباسی
مانیکشا کو اچھے کپڑے پہننے کا شوق تھا۔ اگر انھیں کوئی دعوت نامہ ملتا ہے جس میں کہا جاتا ہے کہ آپ کو سادہ لباس میں آنا ہے تو وہ دعوت کو ٹھکرا دیتے۔
دیپندر سنگھ یاد کرتے ہیں کہ ’ایک بار میں سفاری سوٹ میں ملبوس سیم کے گھر یہ سوچ کر گیا کہ وہ گھر نہیں ہیں لیکن اچانک سیم وہاں پہنچ گئے۔‘
’انھوں نے میری بیوی کو دیکھ کر کہا تم ہمیشہ کی طرح اچھی لگ رہی ہو ۔ لیکن تم اس جنگلی کے ساتھ کیسے نکلی جس نے اتنا سادہ لباس پہنا ہوا ہے؟‘
سیم کی خواہش ہوتی تھی کہ ان کے اے ڈی سی بھی اتنے ہی خوش لباس ہوں لیکن بریگیڈیئر بہرام پنتاخی کے پاس صرف ایک ہی سوٹ تھا۔
ایک بار جب سیم ایسٹرن کمانڈ کے سربراہ تھے، انھوں نے اپنی کار منگوائی اور اے ڈی سی بہرام کو ساتھ چلنے کو کہا۔
وہاں سیم نے بریگیڈیئر بہرام سے کہا کہ ایک بلیزر اور ایک ٹوئیڈ سوٹ خریدنے میں ان کی مدد کریں جس کا بل خود سیم نے ادا کیا۔ لیکن گھر پہنچتے ہی کپڑوں کا پیکٹ اے ڈی سی بہرام کو دے دیا گیا اور سیم نے کہا اس میں سے دو کوٹ اپنے لیے لے لو۔
اندرا گاندھی کے ساتھ تعلقات
1971 کی جنگ میں اندرا گاندھی چاہتی تھیں کہ مارچ کے مہینے میں ہی پاکستان پر حملہ کر دیا جائے، لیکن سیم نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ ان کی رائے تھی کہ انڈیا کی فوج مشرقی پاکستان پر حملے کے لیے تیار نہیں ہے۔
اس پر اندرا گاندھی ناراض ہوئیں تو سیم مانیکشا نے سوال کیا کہ ’کیا تم لڑائی جیتنا چاہتی ہو یا نہیں؟‘ اندرا گاندھی نے جواب ہاں میں دیا۔
اس پر سیم مانیکشا نے کہا کہ ’مجھے چھ ماہ کا وقت دیں۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ فتح آپ کی ہوگی۔‘
اندرا گاندھی کے ساتھ ان کے ایسے رویے کے کئی قصے مشہور ہیں۔
میجر جنرل وی کے سنگھ کہتے ہیں کہ ’ایک بار اندرا گاندھی غیر ملکی دورے سے واپس آئیں تو سیم مانیکشا ان کا استقبال کرنے پالم ہوائی اڈے پر گئے۔‘
’اندرا گاندھی کو دیکھتے ہی انھوں نے کہا کہ آپ کے بالوں کا سٹائل بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اس پر اندرا گاندھی نے مسکرا کر کہا کسی اور نے تو توجہ ہی نہیں دی۔‘
جنگی قیدیوں کے والد کا شکریہ
سنہ 1971 کی جنگ کے بعد جب سیم ایک فوجی وفد کے ساتھ پاکستان گئے تو پنجاب کے گورنر نے انھیں کھانے پر مدعو کیا۔
جب کھانا ختم ہوا تو گورنر نے کہا کہ میرا عملہ آپ سے مصافحہ کرنا چاہتا ہے۔ جب سیم باہر آئے تو انھوں نے دیکھا کہ ان سے ملنے والوں کی ایک لمبی قطار ہے۔ جیسے ہی وہ ایک شخص کے پاس پہنچے اس شخص نے ان کے اعزاز میں اپنی پگڑی اتار دی۔
جب مانیکشا نے وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا: ’سر، میں آپ کی وجہ سے زندہ ہوں۔ میرے پانچ بیٹے آپ کے قیدی ہیں۔ وہ مجھے خط لکھتے ہیں۔ آپ نے ان کا بہت خیال رکھا ہے۔ وہ بستر پر سو رہے ہیں جبکہ آپ کے فوجیوں کو زمین پر سونا پڑتا ہے۔ وہ بیرکوں میں رہے جبکہ آپ کے لوگ خیموں میں رہ رہے ہیں۔‘