رواں ماہ 16 نومبر کو خیبرپختونخوا کے شہر ایبٹ آباد میں جلسہِ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا تھا کہ ’کسی کو دوسری یا چوتھی بار وزیر اعظم بنانے سے بہتر ہے کہ انھیں موقع دیا جائے اور یہ کہ اگر ان کو موقع دیا جاتا ہے کہ تو وہ مایوس نہیں کریں گے۔‘
21 نومبر کو چترال میں خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو نے کہا کہ ’پرانے سیاستدانوں کو گھر بٹھانا پڑے گا، کیا ہم قوم کا مستقبل ایسے سیاستدانوں کے سپرد کر سکتے ہیں جو صرف اپنے بارے میں سوچتے ہیں۔ اب وقت آ گیا ہے کہ پرانے سیاستدان آرام کریں۔۔۔‘
نو اگست کو پارلیمان میں بطور وزیر خارجہ خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’میاں نواز شریف کو آصف زرداری کو ایسے فیصلے لینے چاہیں جس سے میرے لیے اور مریم نواز کے لیے سیاست کرنا آسان ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہمارے بڑوں نے پچھلے 30 سال میں جیسی سیاست کی ہی ویسے ہی سیاست ہم اگلے 30 سال کریں۔‘
یہ سابق وزیر خارجہ اور پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کے وہ چند بیانات ہیں جو انھوں نے ماضی قریب میں دیے اور ان تمام سوالات کا جواب ان کے والد اور سابق صدر آصف علی زرداری نے جیو کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں اینکر حامد میر کو جمعرات کی رات دیے گئے انٹرویو میں کچھ اس طرح دیا کہ ’بلاول ابھی ٹرینڈ نہیں، اس کی ٹریننگ کر رہے ہیں۔ اس (بلاول) کو کچھ وقت لگے گا۔‘
’وہ مجھ سے زیادہ ٹیلنٹڈ اور تعلیم یافتہ ہیں، وہ بہتر بول لیتا ہے مگر تجربہ تجربہ ہے۔۔۔۔ وہ نئی نسل سے ہیں اور اپنی سوچ کا اظہار کر رہے تھے اور سوچ پر کوئی قدغن نہیں مگر سیاست میں سیکھنے میں بہت وقت لگتا ہے، مجھ سے ابھی تک غلطیاں ہو رہی ہیں۔۔۔ یہ نئی پود کی وہی سوچ ہے کہ ’بابا آپ کچھ نہیں جانتے۔‘
بلاول کے بیانات سے متعلق وضاحت اور اپنی رائے کا اظہار کرنے کے بعد سابق صدر نے مزید کہا کہ ’دو پارٹیاں ہیں، ایک پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) اور ایک پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین (پی پی پی پی) ہے۔ میں پی پی پی پی کا صدر ہوں جبکہ پی پی پی کا چیئرمین بلاول ہے اور پارٹی کے ٹکٹ پی پی پی پی کے صدر کے طور پر میں دوں گا، بلاول کو بھی ٹکٹ میں دوں گا۔‘
آصف زرداری کی جانب سے یہ بیان آنے کے بعد سیاسی حلقوں میں یہ چہ مگوئیاں جاری ہیں کہ پیپلز پارٹی اندرونی اختلافات کا شکار ہے۔
دوسری جانب بلاول بھٹو دبئی روانہ ہو چکے ہیں جہاں سے انھوں نے سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس پر اپنی پروفائل تصویر والدہ کے ساتھ شیئر کی ہے۔
پیپلز پارٹی کے رہنما اور سندھ کے سابق صوبائی وزیر ناصر حسین شاہ نے اس بارے میں کہا ہے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی قیادت میں اختلافات کی افواہیں بے بنیاد ہیں اور بلاول بھٹو زرداری طے شدہ شیڈول کے مطابق دبئی گئے ہیں۔
انھوں نے ایک طرف تو اختلافات کی تردید کی لیکن دوسری طرف یہ بھی کہا کہ اختلاف رائے جمہوریت کا حسن ہے اور اس کا مقصد ہرگز اختلافات نہیں ہوتا۔
’گھر میں زرداری لیکن سیاست میں پارٹی فیصلوں کا پابند ہوں‘
یہ کوئی پہلا موقع نہیں کہ جب پیپلز پارٹی کے سربراہ بلاول بھٹو اور سابق صدر آصف علی زرداری کے متضاد بیانات سامنے آئے ہوں۔
بلاول بھٹو زرداری اور ان کے والد آصف علی زرداری میں انتخابات کی ٹائمنگ کے حوالے سے سرد جنگ گذشتہ ماہ اس وقت سامنے آئی تھی جب نگران حکومت کے قیام کے بعد بلاول بھٹو مسلسل انتخابات مقررہ نوے روز میں کرانے پر زور دیتے رہے اور اس حوالے سے الیکشن کمیشن کو بھی تنقید کا نشانہ بناتے آئے۔
کراچی میں اکتوبر کے پہلے ہفتے میں بلدیاتی نمائندوں سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو کا دعویٰ تھا کہ ملک میں پی پی پی واحد جماعت ہے جو وقت پر انتخابات کا انعقاد چاہتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کبھی کوئی نام نہاد رہنما ٹی وی پر آتا ہے اور کہتے ہیں حلقہ بندیوں تک انتخابات میں تاخیر ہونی چاہیے، حلقہ بندیوں کو تسلیم کرتے ہیں لیکن جب وہ عمل مکمل ہو چکا ہے تو پھر اب انتخابات کی تاریخ دینا میں کوئی مسئلہ نہیں ہونا چاہیے۔
بلاول بھٹو کے اس بیان کے بعد سابق صدر آصف علی زرداری کا 9 ستمبر کو ایک بیان سامنے آیا جس میں انھوں نے الیکشن کمیشن پر اعتماد کا اظہار کیا جو بلاول بھٹو کے بیانات اور موقف کے برعکس تھا۔
بلاول ہاؤس کی جانب سے صدر زرداری کے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ انھیں چیف الیکشن کمشنر اور تمام ممبران پر پورا اعتماد ہے، مردم شماری کے بعد الیکشن کمشن نئی حلقہ بندیاں کروانے کا پابند ہے۔
سابق صدر نے پاکستان فوج کے زیر انتظام سرمایہ کاری کے منصوبے ایس آئی ایف سی کے جلد تکمیل کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک اس وقت ایک معاشی بحران سے گزر رہا ہے جس کے لیے ہم سب کو سیاست کے بجائے معیشت کی فکر پہلے کرنی چاہیے۔
آصف علی زرداری کا جب یہ بیان سامنے آیا اس وقت بلاول بھٹو ٹھٹہ، سجاول سے ہوتے ہوئے بدین میں جلسہ کر چکے تھے۔
اس جلسے میں موجود ایک صحافی نے بی بی سی کو بتایا کہ کراچی سے آنے والے صحافیوں کو سابق صوبائی وزرا اور پی پی کی قیادت نے گزارش کی تھی کہ آصف زرداری کے بیان کی روشنی میں بالخصوص اختلافات کے حوالے سے کوئی سوال نہیں کیا جائے گا تاہم بدین کے ایک صحافی نے بلاول بھٹو سے سوال کیا کہ آپ کے موقف اور آصف زرداری کے موقف میں تضاد ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ جہاں تک گھر کے معاملات ہیں وہ صدر زرداری کے پابند ہیں لیکن جہاں تک سیاسی اور آئینی باتیں ہیں، جہاں تک پارٹی پالیسی کی باتیں ہیں وہ اپنی پارٹی اور اپنے کارکنوں اور سی ای سی کے فیصلوں کے پابند ہیں۔

’بلاول جوڑ توڑ، ڈرائنگ روم یا اسٹیبلشمینٹ پر مکمل انحصار کے حق میں نہیں‘
اس صورتحال کے بارے میں مزید جاننے کے لیے بی بی سی نے سندھ کی سیاست پر نظر رکھنے والے صحافی امداد سومرو سے بات کی ہے۔ امداد سومرو کا خیال ہے کہ ایسے بیانات ظاہر کرتے ہیں کہ دونوں باپ بیٹے میں پیچیدہ اختلافات موجود ہیں۔
اس بارے میں مزید بات کرتے ہوئے امداد سومرو نے کہا کہ ’بلاول خود کو وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر پیش کرنے کے لیے ماحول بنا رہے ہیں، تو پھر جب ایسے بیانات سامنے آئیں گے تو لوگوں میں اس پر بحث بھی ہو گی اور یہ تاثر پیدا ہو گا کہ زرداری ابھی بلاول کو وزیراعظم نہیں بنانا چاہتے۔‘
امداد سومرو کا ماننا ہے کہ ’دوسری طرف پیپلز پارٹی کا ایک دھڑا ایسا بھی ہے، جو یہ سمجھتا ہے کہ زرداری کی چھاپ یا ان کا سایہ بلاول کو پیپلز پارٹی کی جو اصل عوامی سیاست تھی، وہ نہیں کرنے دے رہی اور اسی لیے عوام پیپلز پارٹی کی طرف نہیں جا رہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلاول اور زرداری کے متضاد بیانات سے ایک تاثر یہ بھی جائے گا کہ پیپلز پارٹی میں معاملات ٹھیک نہیں۔
’تو ناراض کارکنوں کا جھکاؤ بلاول کی طرف ہو گا اور بلاول کے لیے ایک مثبت چیز بھی ثابت ہو گی۔‘
لیکن آخر اس اختلاف رائے کی وجہ کیا ہے؟ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صحافی امداد سومرو نے کہا کہ ’بلاول جوڑ توڑ، ڈرائنگ روم یا اسٹیبلشمینٹ پر مکمل انحصار کے حق میں نہیں۔ بلاول چاہتے ہیں کہ وہ پیپلز پارٹی کے کھوئے ہوئے مقام کے لیے کام کریں، زردای نہیں چاہتے کہ بلاول کھل کر وہ سیاست کریں جو ان کے نانا (ذوالفقار علی بھٹو) یا والدہ (بے نظیر بھٹو) کر چکے ہیں۔‘
’زرداری چاہتے ہیں کہ ٹھہراؤ کی سیاست ہو، زرادری چاہتے ہیں کہ جہاں جلسے جلوس ہوں وہاں ڈرائنگ روم کے اندر جوڑ توڑ کی سیاست بھی ہو، زرداری الیکٹیبلز پر انحصار کرنا چاہ رہے ہیں جبکہ بلاول سمجھتے ہیں کہ زیادہ انحصار عوامی سیاست پر ہونا چاہیے۔ یہ اختلاف رائے بھی ہے، الگ الگ آرا بھی ہے، اور یہ پارٹی کے اندر ایک تنازع بھی ہے، جو بے نظیر بھٹو کی موت کے بعد پارٹی میں سامنے آتا رہتا ہے۔‘
صحافی امداد سومرو نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے اور ملک میں ہونے والے عام انتخابات کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی جتنی مرضی کوشش کر لے وہ اس الیکشن میں اکثریت حاصل نہیں کر سکتی اور انھیں لوگوں کو ساتھ لے کر چلنا پڑے گا۔
’اس لیے بھی زرداری چاہتے ہیں کہ نون لیگ یا مولانا فضل الرحمان کے ساتھ تلخیاں نہ بڑھائی جائیں۔ بلاول کی تقریروں میں نواز شریف پر براہ راست حملے ہیں، زرداری کو علم ہے کہ الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی کے لیے سولو فلائٹ مشکل ہو گی، نہ صرف سیاسی قوتوں بلکہ اسٹیبلشمینٹ کی ضرورت پڑ سکتی ہے، اس لیے زرداری ٹھر ٹھر کر سیاست کر رہے ہیں۔‘
انھوں نے مزید کہا کہ ’آصف زرداری کو اس بات کا بھرم ہے اور یوں کہہ لیں کہ غرور ہے کہ میں مفاہمت کی سیاست اور جوڑ توڑ کا بادشاہ ہوں، لہٰذا مجھے جلسوں اور عوام کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔‘

کیا زرداری کا بیان بلاول بھٹو کی سیاست اور الیکشن مہم پر اثر انداز ہو سکتا ہے؟
صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی کے مطابق کہ ہو سکتا ہے کہ آصف زرداری کے ذہن میں بات کرتے ہوئے یہ بات نہ ہو مگر ان کے اپنے بیٹے سے متعلق بیان سے اُس الیکشن مہم پر ضرور اثر پڑے گا جو بلاول زور و شور سے چلا رہے ہیں۔
’جب بڑے لیڈر بولتے ہیں تو ان کا ایک ایک لفظ معنی رکھتا ہے۔ ہم یہ نہیں جانتے کہ انھوں نے یہ جانتے بوجھتے کہا یا نہیں مگر یہ بیان دھچکہ ضرور پہنچائے گا۔‘
عاصمہ شیرازی کے مطابق بلاول کے اس بیانیے میں وزن ہے کہ نئی نسل کو آگے آنے دیا جائے اور انھوں نے خیبرپختونخوا میں الیکشن مہم کے سلسلے میں منعقدہ جلسوں میں اپنے اس بیانیے کے حق میں بیانات دیے اور اس پر زور دیا، مگر پھر اچانک آصف زرداری کی طرف سے اس کے برعکس بیان کے آ جانے نے بلاول کی جانب سے الیکشن مہم کے دوران بنائے گئے پورے تاثر کو زائل کیا ہے۔
عاصمہ کی رائے میں سابق صدر آصف زرداری ہمیشہ حقیقت پسندانہ سیاست کرتے آئے ہیں اور ابھی بھی کر رہے ہیں۔
’اس تناظر میں یہ سوچا جا سکتا ہے کہ وہ اپنی طرز کی سیاست کر رہے ہیں مگر بلاول ایک نئے ڈھنگ سے سیاست کرنا چاہتے ہیں جس کے باعث اُن کو پنجاب میں پذیرائی مل سکے۔‘
عاصمہ شیرازی کا کہنا تھا کہ آصف زرداری کے اس بیان سے پارٹی کے اندر اختلاف اور کشمکش والی صورتحال نظر آتی ہے اور یہ اختلاف بنیادی طور پر طرز سیاست پر ہے اور کافی عرصے سے ہے۔
’بلاول نے ماضی قریب میں کئی ایسے بیانات دیے ہیں جو اس کی عکاسی کرتے ہیں۔ پیپلز پارٹی میں اندر سے کافی ایسی آوازیں ہیں کہ اگر آپ نے مسلم لیگ کے ساتھ مل کر سیاست کی تو پنجاب کی حد تک پی پی پی ناکام رہے گی، اور بلاول چاہتے ہیں کہ پنجاب میں کچھ سیاست ہو۔ یہ ہو سکتا ہے کہ آصف صاحب کو پیغام ملا ہو کہ الیکشن کے بعد کا منظرنامہ بھی کافی اہمیت کا حامل ہو گا جس کو مدنظر رکھنا ضروری ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ زرداری صاحب کا بیان تین امکانات پر روشنی ڈالتا ہے: اوّل یہ کہ پیپلز پارٹی کے اندر فیصلہ سازی اور لیڈر شپ کے حوالے سے کشمکش یا دو رائے کا امکان ہو سکتا ہے، دوسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ پیپلز پارٹی پنجاب سے پریشر ہو کہ اگر زرداری صاحب کے بغیر پارٹی آگے چلتی ہے تو پنجاب میں کچھ بہتر نتائج حاصل کیے جا سکتے ہیں اور تیسرا امکان یہ ہو سکتا ہے کہ یہ گڈ کاپ بیڈ کاپ کا کھیل ہے، جس کی اگرچہ آصف زرداری نے تردید کی، مگر بالکل ویسی سیاسی چال جیسا کہ مسلم لیگ میں مفاہمتی اور مزاحمتی دو چہرے نظر آتے ہیں مگر وقت آنے پر ایک چہرہ چپکے سے پس منظر پر چلا جاتا ہے۔