سوشل میڈیا انفلوئنسر جنید اکرم نے حال ہی میں تفریحی مقاصد کے لیے پاکستانی ساحلوں پر جانے کے تجربوں پر ایک ویڈیو پوسٹ کی لیکن شاید اس پر ویسا ردعمل نہیں آیا جس کی وہ امید کر رہے تھے۔
اس ویڈیو کا لطف اٹھانے کے بجائے کئی لوگ انھیں کم آمدنی کمانے والے طبقے کا ’مذاق اُڑانے‘ پر تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
جنید اکرم کو پاکستان کے عام لوگوں کی زندگیوں اور سماجی رویوں پر مزاحیہ کمنٹری کے لیے جانا جاتا ہے مگر بعض سوشل میڈیا صارف اب ان پر ’طبقاتی تفریق‘ ظاہر کرنے کا الزام لگا رہے ہیں۔
بی بی سی نے جنید اکرم کا موقف جاننے کے لیے ان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی ہے۔ تاہم اب تک ان کی طرف سے کوئی جواب موصول نہیں ہوا ہے۔

جنید اکرم نے اپنی ویڈیو میں ایسا کیا دکھایا؟
22 نومبر کو فریحہ نام کی صارف نے ٹویٹ کیا تھا کہ ’کراچی میں بظاہر 15 ساحل ہیں اور میں صرف پانچ پر گئی ہوں۔ یہ کیسا انصاف ہے؟‘
اس ٹویٹ کے جواب میں جنید اکرم نے یہ ویڈیو ایکس پر پوسٹ کی۔ انھوں نے انسٹاگرام پر بھی اسے لگایا۔
ایکس پر شائع کی جانے والی 31 سیکنڈ کی ویڈیو کے آغاز میں جنید اکرم سمندر کے کنارے چلتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں اور لکھا آتا ہے کہ ’بیچ پر جانے پر ایسا محسوس ہوتا ہے۔‘
اگلے شاٹ میں شلوار قمیض میں ملبوس ایک شخص سمندری لہروں میں خوشی سے چھلانگ لگاتا نظر آتا ہے۔ اس کے بعد آنے والے سین میں دو کھیڑی، شلوار قمیض اور کوٹ میں ملبوس مرد ساحل کی گیلی ریت پر مل کر انگلی سے دل بنا رہے ہوتے ہیں۔
پھر ایک شاٹ میں ایک سندھی ٹوپی پہنے شخص سمندر کے سامنے اپنی شلوار اتار کر نِکر پہنتا ہے۔ اس کے بعد چار لوگ مل کر ایک ہی انداز میں ناچ رہے ہوتے ہیں۔ ہر سین کے آخر میں جنید نظر آتے ہیں اور ان کے چہرے کے تاثرات مایوسی اور حیرت والے ہوتے ہیں، یعنی وہ اس طرح کی چیزوں پر ناپسندیدگی ظاہر کر رہے ہوتے ہیں۔
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اس پوسٹ میں استعمال کی جانے والی ویڈیوز بظاہر ان کی خود بنائی ہوئی نہیں ہیں۔ یہ بھی ضروری نہیں کہ تمام مناظر پاکستانی ساحلوں کے ہیں
لوگوں کی تنقید اور حمایت
بعض لوگوں نے الزام لگایا کہ اس ویڈیو میں جنید اکرم ایک نامناسب پیغام دے رہے ہیں اور لوگوں کے بارے میں جانے انجانے میں غلط رائے کو فروغ دیا جا رہا ہے۔ ان کا موقف ہے کہ اگر ایسا ہی کچھ غیر ملکی یا سفید فام افراد کر رہے ہوتے تو ان پر ایسی تنقیدی ویڈیو بنا کر نچلے طبقے کا مذاق نہ اڑایا جاتا۔
جنید اکرم کی ویڈیو پر تبصرہ کرتے ہوئے ذولفقار علی بھٹو جونیئر نے ٹویٹ کیا کہ ’جب آپ ساحل پر جاتے ہیں تو لوگوں کو گھورا نہ کریں۔ اس ویڈیو میں کوئی بھی کچرا نہیں پھینک رہا، نہ جنگلی حیات کو تنگ کر رہا تھا۔‘
’کوئی نہیں چاہتا کہ جب وہ تفریح کر رہے ہوں تو ایک عجیب شخص ان کو گھورے اور یا ان سے متعلق رائے بنائے۔ اپنے ساحلوں اور لوگوں کا احترام کریں۔‘
ایک اور صارف عثمان انصاری نے جنید اکرم پر الزام لگایا کہ اگر ویڈیو میں دکھائے گئے لوگ سفید فام ہوتے تو شاید انھیں ان سے مسئلہ نہ ہوتا۔
وہ کہتے ہیں کہ ’یہ لوگ بس ان لمحات سے لطف اندوز ہو رہے ہیں لیکن آپ نے اس پر انتہائی جانبدار اور غلط رائے قائم کرنے والی ویڈیو بنائی ہے۔ ایک طرف آپ کہتے ہیں لوگوں کو زندگی گزارنے دو تو دوسری طرف آپ ان کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔
’یہ منافقت ہے جنید بھائی۔ اگر یہی گوری جلد والے ہوتے تو پاؤں پڑ جاتے آپ۔‘

ذیشان نے کہا کہ لوگ ساحل سمندر اپنی روزمرہ کی مشکلات کو بھلانے کے لیے جاتے ہیں۔ ’جنید بھائی یہی چھوٹی چھوٹی خوشیاں ہیں ہمارے لوگوں کی۔ پاکستان کے عوام ہر طرح کے مسائل سے گھرے ہوئے ہیں۔
’مگر جب وہ سمندر کے کنارے یا کسی بھی تفریحی مقام پر جاتے ہیں تو اپنے تمام مسائل اور پریشانیوں کو بھول کر ان لمحات سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ خیر آپ اچھے انسان ہیں سمجھیں گے۔ شکریہ۔‘
مگر شارق زاہد نے سخت موقف اپنایا اور لکھا کہ ’مراعات یافتہ طبقے کا غریبوں کا مذاق اڑانا اچھا مزاح نہیں۔‘

تاہم کئی لوگ جنید اکرم کے دفاع میں بھی سامنے آئے۔
جیسے فیصل نے لکھا کہ ان پر تنقید کرنا آسان ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان کے ساحلوں پر ماحول اچھا ہو تاکہ وہاں فیملیز بھی لطف اندوز ہو سکیں۔
جبکہ راہل پوچھتے ہیں کہ جو لوگ جنید اکرم پر تنقید کر رہے ہیں ’کیا وہ کراچی کے ساحلوں کو دورہ کرتے رہتے ہیں؟‘ ان کی رائے میں یہاں ماحول ہرگز اچھا نہیں جسے بہتر کرنے کی ضرورت ہے۔
انھوں نے مزید کہا کہ یہ ایک مزاحیہ ویڈیو ہے، اس پر سنجیدہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ’سب گھر کا غصہ ٹوئٹر پر اُتار رہے ہیں۔‘
یہاں یہ بھی بتانا ضروری ہے کہ جہاں ٹوئٹر پر اس ویڈیو پر کافی تنقید ہوئی انسٹاگرام پر اسے 49 ہزار سے زیادہ بار پسند کیا گیا اور کمنٹ میں بھی لوگوں نے ہنسے والے ایموجیز بنائے۔