پاکستانی سیاست کا ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘: الیکشن میں سیاسی جماعتیں اپنے لیے صاف اور مخالف کے لیے ناہموار میدان کیوں چاہتی ہیں؟

پاکستان میں عام انتخابات کے انعقاد کی تاریخ کا اعلان ہو چکا ہے اور اس وقت جو معاملہ سب سے زیادہ زیرِ بحث ہے وہ ہے ’لیول پلیئنگ فیلڈ۔‘

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں انتخابی نتائج اکثر متنازع رہے ہیں، یوں بعد ازاں تشکیل پانے والی حکومتیں سیاسی عدم استحکام کا شکار رہی ہیں۔

دیکھا جائے تو یہ بحث خاصی قابل تشویش قرار دی جا سکتی ہے تاہم پاکستان میں لیول پلیئنگ فیلڈ سے مراد کیا ہے؟ کیا یہ ایسا میدان ہے جو ایک جماعت کے لیے ہموار اور دوسری کے لیے کھدا ہوا ہو؟

لیول پلیئنگ فیلڈ کا بظاہر یہی مطلب ہے کہ تمام سیاسی جماعتوں اور سٹیک ہولڈرز کو انتخابی میدان میں اُترنے کے یکساں مواقع حاصل ہوں۔

اس وقت صورتحال کیا ہے؟ کس جماعت کو سب سے زیادہ تشویش ہے اور کیوں؟ اِن ہی پہلووں کا یہاں جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔

ماضی میں ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ کی کیا صورتحال رہی؟

پاکستانی الیکشن

پاکستان میں نئے الیکشن کی تاریخ کا اعلان ہو چکا مگر سنہ 2018 میں حکومت سازی کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف اس وقت ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہے اور اُس جماعت کے چیئرمین اور سابق وزیر اعظم عمران خان جیل میں ہیں۔

سنہ 2018 میں مسلم لیگ ن کے قائد میاں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز جیل میں تھے اور ہر سو ان سے متعلق کرپشن کی کہانیاں زبان ذد عام تھیں۔

سنہ 2013 میں آئین کے آرٹیکل 62 اور 63 کا بڑا شور تھا۔ امیدواروں کی اہلیت کو مذہبی سوالات کے ذریعے جانچنے کی کوشش کی جاتی رہی۔

سنہ 2008 کے عام انتخابات میں جعلی ڈگریوں پر بعض امیدوار نااہل قرار پائے، چودھری شجاعت نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ’پی پی پی کا مشرف کے ساتھ معاہدہ ہو گیا تھا، ہمیں ہروانے کے لیے پکا بندوبست کیا گیا۔‘

سنہ 2002 کے الیکشن میں بی اے کی شرط لگا کر بعض سیاست دانوں کو سیاسی عمل سے باہر رکھا گیا۔ مسلم لیگ ن کو توڑ کر ق لیگ بنائی گئی۔

سنہ 1997 کے الیکشن میں پیپلز پارٹی کے حوالے سے کرپشن کی کہانیاں ہر خاص و عام کی زبان پر تھیں۔ اسی طرح سنہ 1993 میں بھی پیپلزپارٹی کے حوالے سے کرپشن کا پروپیگنڈا سننے کو ملتا رہا۔

سنہ 1990 اور سنہ 1988 کے انتخابات میں پروپیگنڈا کے ساتھ ساتھ بات کردار کشی تک پہنچ گئی۔ پیپلزپارٹی کے خلاف آئی جے آئی اتحاد بنا اور کھلم کھلا پیسہ خرچ کیا گیا۔

سنہ 1985 کا الیکشن تو نرالا ثابت ہوا۔ الیکٹ ایبلز اور برادری کلچر کی راہ ہموار ہوئی۔

سنہ 1977 کے الیکشن میں سیاسی اتحاد بنا جس نے نتائج کو تسلیم نہ کیا۔ سیاسی بساط ہی لپیٹ دی گئی۔

اس طرح 1970 کے الیکشن میں دائیں بازوں کی جماعتوں کو اخلاقی ومالی سپورٹ بھی مہیا ہوئی۔

مسلم لیگ ن

تیروں کا رُخ مسلم لیگ ن کی طرف کیوں؟

مسلم لیگ نون سے وابستہ حلقوں کا کہنا ہے کہ نون لیگ کو کم ازکم سنہ 1997 کے بعد کبھی لیول پلیئنگ فیلڈ نہ مل سکی۔ جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ سنہ 2002 کے الیکشن میں مسلم لیگ ن کو توڑ کر ق لیگ بنائی گئی۔

سنہ 2008 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ اور بے نظیر بھٹو کے مابین پرویز مشرف کو صدر رہنے کے معاملے پر معاملات طے پا گئے تھے۔ جس کی وجہ سے پیپلز پارٹی کو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر آیا۔

لیکن بے نظیر بھٹو اور مشرف کے درمیان ڈیل کے اثر کو پیپلز پارٹی رہنما فیصل کریم کنڈی رد کرتے ہیں۔ فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں ’اگر محترمہ بے نظیر بھٹو سنہ 2008 کے الیکشن میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ڈیل کر کے آتیں تو وہ پھر وزیرِ اعظم بھی بن جاتیں اور پنڈی میں شہید نہ ہوتیں۔‘

ان کے مطابق ’بی بی کے بعد پیپلز پارٹی کلین سویپ کرتی مگر انھیں سادہ اکثریت نہیں لینے دی گئی۔‘

اسی طرح مسلم لیگ ن کے مذکورہ حلقوں کے مطابق سنہ 2013 کے الیکشن میں آصف علی زرداری صدر تھے اور نگراں سیٹ اَپ اُن کی ایما پر تشکیل پایا گیا مگر نوازشریف کی پارٹی برسرِ اقتدار آ گئی۔

سنہ 2018 کے الیکشن میں نواز شریف اور اُن کی بیٹی مریم نواز شریف قید و بند میں تھے اور اُن کی پارٹی کو توڑا گیا۔

یوں پی ٹی آئی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ بنائی گئی اور مسلم لیگ نون کو الیکشن لڑنے کے یکساں مواقع میسر نہ آ سکے۔

اگر حالیہ وقت میں دیکھا جائے تو لیول پلیئنگ فیلڈ میسر ہونے کا طعنہ مسلم لیگ نون کو سننے کو مل رہا ہے۔ اس ضمن میں پاکستان مسلم لیگ نون کے سینیئر رہنما زبیر عمر کہتے ہیں کہ ’سنہ 2018 میں میاں نواز شریف اور مریم نواز جیل میں تھے۔ حنیف عباسی اور دانیال عزیز کو نا اہل کر دیا گیا تھا۔ ہم اُس وقت بھی فری اینڈ فئیر الیکشن چاہتے تھے اور اب بھی مطالبہ یہی ہے۔‘

بول بھٹو

پیپلز پارٹی کا بڑھتا ہوا خدشہ

پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے 12 ستمبر کو سکھر میں ایک مقامی صحافی کے سوال کے جواب میں کہا تھا کہ ’ملک میں اس وقت ہر کسی کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں اور یہی میرا اعتراض ہے۔‘

واضح رہے کہ اُس وقت میاں نوازشریف کی واپسی نہیں ہوئی تھی۔ پھر چند دن بعد بلاول بھٹو زرداری نے اوکاڑہ میں کہا تھا کہ ’نوازشریف کی واپسی کا مطالبہ ہمارا پرانا ہے۔‘

اگر دیکھا جائے تو لیول پلیئنگ فیلڈ سے متعلق مختلف سیاسی جماعتوں یا بنیادی طور پر پیپلز پارٹی کی جانب سے بڑھتے ہوئے خدشے نے اُس وقت زیادہ جنم لیا ،جب میاں نوازشریف کی واپسی پر اُن کو مخصوص قسم کا پروٹوکول ملنا شروع ہوا۔

تاہم یہ تاثر کہ مسلم لیگ ن کے لیے فضا سازگار بنائی جا رہی ہے، اِن کے رہنماؤں کے مقدمات ختم کیے جا رہے ہیں اور اس جماعت کو الیکشن کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ دی جارہی ہے اس پر مسلم لیگ ن کے حلقوں کی جانب سے کہا جاتا ہے کہ یہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں بلکہ اُن زیادتیوں کا ازالہ ہے جو اس جماعت پر سنہ 2018 کے الیکشن میں کی گئی تھیں۔

زبیر عمر کہتے ہیں کہ ’اس وقت لیول پلیئنگ فیلڈ کا شور پیپلز پارٹی کی جانب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ وہ 16 ماہ کی حکومت میں ہمارے اتحادی تھے۔لیکن اُن کو یہ سمجھنا چاہیے کہ حکومت کے خاتمے کے بعد انتخابات میں اپنے اپنے مینڈیٹ کے ساتھ جانا ہے۔ پیپلزپارٹی کو وہ پذیرائی عوام میں نہیں مل رہی جو مسلم لیگ ن کو مل رہی ہے۔‘

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ عمران خان کی حکومت کے خاتمے کے بعد اور نو مئی کے واقعہ کے درمیانی عرصہ میں یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اسٹیبلشمنٹ تمام سیاسی جماعتوں کو ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ دینے کا فیصلہ کر چکی مگر نو مئی کے بعد صورتحال تبدیل ہوئی۔

عمران خان

عوام سلیکشن کو قبول نہیں کریں گے: فیصل کریم کنڈی

پیپلز پارٹی جنوبی پنجاب اور بلوچستان میں وہاں کے الیکٹ ایبلز پر نظریں جمائے ہوئے تھی اور بعض رہنماؤں نے شمولیت کے اشارے بھی دے دیے تھے مگر نوازشریف کی واپسی کے بعد دونوں مقامات پر سیاسی صورتحال تبدیل ہوتی دکھائی دی۔

یوں بعض حلقوں کا خیال ہے کہ پیپلز پارٹی اسی وجہ سے ’لیول پلیئنگ فیلڈ‘ نہ ہونے کا واویلا کر رہی ہے۔

لیکن کیا واقعی ایسا ہی ہے۔۔۔؟ اس بارے میں پیپلز پارٹی کے فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں ’کچھ ماہ پہلے تک تو سب کچھ ٹھیک تھا۔ اب الیکشن قریب آیا ہے اور ہمیں محسوس بھی ہو رہا ہے تو ہم بات بھی کر رہے ہیں۔‘

جبکہ زبیر عمر کہتے ہیں ’پنجاب میں مسلم لیگ ن مضبوط ہے اور پیپلزپارٹی کمزور ہے۔ الیکٹ ایبلز کی کوئی اپنی آئیڈیالوجی نہیں ہوتی۔ پیپلزپارٹی کا خیال تھا کہ جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے الیکٹ ایبلز اُن کے ساتھ جائیں گے لیکن ایسا نہ ہوا، الیکٹ ایبلز مسلم لیگ ن کی طرف دیکھ رہے ہیں۔‘

زبیر عمر کے مطابق الیکٹ ایبلز اُن کے ساتھ جاتے ہیں، جن کی حکومت بننے جا رہی ہوتی ہے۔ ہم تو اب پیپلز پارٹی کے ساتھ ہمدردی ہی کر سکتے ہیں۔‘

دوسری طرف فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں جو الیکٹ ایبلز نون لیگ کے ساتھ جانا چاہتے ہیں، ہمیں اُن پر اعتراض نہیں مگر جس طریقے سے جا رہے ہیں، وہ قابلِ تشویش ہے۔ اس بار پاکستان کے عوام سلیکشن کو قبول نہیں کریں گے۔‘

سینیئر تجزیہ کار سلمان غنی کہتے ہیں کہ ’بلاول کا خیال ہے کہ مقتدرہ میاں نوازشریف کو زیادہ سہولت دے رہی ہے۔ یوں وہ سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے مقابلے میں اُن کی جماعت کو دیوار کے ساتھ لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔‘

سلمان غنی کے مطابق ’جنوبی پنجاب اور بلوچستان سے جو لوگ شامل ہونا چاہتے تھے، اُن کو روک دیا گیا۔ لہٰذا بلاول کہہ رہے ہیں کہ لیول پلیئنگ فیلڈ نہیں دی جا رہی۔‘

سیاسی تجزیہ کار فاروق حسنات کہتے ہیں’ پیپلزپارٹی کی گھبراہٹ یہ ہے کہ اُن کو لگتا ہے نواز شریف کو وزیرِاعظم بنایا جائے گا۔ وہ یہ چاہتے ہیں کہ اُن کی جماعت محض سندھ تک محدود نہ رہے بلکہ وفاق میں بھی زیادہ سے زیادہ حصہ ملے۔‘

’ نواز شریف کے ساتھ امتیازی رویے پر سوال اُٹھتے ہیں‘

پاکستانی سیاسی جماعتوں کا المیہ ہے کہ وہ فری اینڈ فئیر الیکشن سے مراد یہ لیتی ہیں کہ جس میں اُن کی کامیابی کا عنصر یقینی ہو۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے میں ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا جاتا ہے۔

اس وقت مسلم لیگ ن کے اطمینان کو دیکھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ کو’حق‘ سمجھ رہی ہے اور پیپلزپارٹی کی تشویش کا مطلب ہے کہ وہ اس’ حق‘ سے محروم ہو رہی ہے۔

فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں کہ ’میاں نواز شریف کی واپسی پر سویلین ادارے جس طریقے سے ٹریٹ کر رہے ہیں، وہ سب کے سامنے ہے جبکہ ملک میں اور بھی کئی سابق وزیرِ اعظم موجود ہیں، جیسا کہ یوسف رضا گیلانی، راجہ پرویز اشرف مگر جو امتیازی رویہ میاں نوازشریف کے ساتھ روا رکھا جا رہا ہے، اُس سے سوال اُٹھتے ہیں۔‘

دوسری طرف پاکستان مسلم لیگ ن کے رہنما زبیر عمر کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن کی ذمہ داری ہے کہ وہ لیول پلیئنگ فیلڈ سب جماعتوں کو دے۔

’اگر کوئی جماعت معترض ہے تو اُس کو چاہیے کہ الیکشن کمیشن اور سپریم کورٹ سے رجوع کرے۔‘

پی ٹی آئی سے وابستہ رہنما پارٹی کو چھوڑ کر مختلف پارٹیوں میں جا رہے ہیں یا الیکٹ ایبلز ایک مخصوص جماعت کا رُخ کر رہے ہیں اور کیا الیکٹ ایبلز کسی کے اشارے کے بغیر ایسا کر رہے ہیں؟

اس بارے میں پرویز رشید کہتے ہیں کہ ’پی ٹی آئی کے جو لوگ پارٹی چھوڑ رہے ہیں یا چھوڑ چکے ہیں، وہ خود بتائیں کہ اُن کو کس نے پارٹی چھوڑنے کا کہا۔‘

نواز شریف

’پی ٹی آئی وکلا کا گھنٹوں ٹی وی پر بولنا لیول پلیئنگ فیلڈ ہے‘

موجودہ وقت میں پی ٹی آئی سمیت تمام جماعتوں کو انتخابی میدان میں اُترنے کے یکساں مواقع مہیا ہیں؟ اس سوال کے جواب میں پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما پرویز رشید نے کہا کہ ’کوئی سیاسی جماعت یہ شکایت نہیں کر رہی کہ یکساں مواقع میسر نہیں، اگر کسی جماعت کو یا اُن کے لوگوں کو شکایت ہے تو وہ سامنے آ کر کہیں۔ 2018 میں جس طرح ہمارے لوگوں کو توڑا جا رہا تھا تو ہمارے لوگ شکایت کے ساتھ سامنے آئے تھے۔‘

فیصل کریم کنڈی کہتے ہیں ’اگر 2018 میں سلیکشن غلط تھی تو اب بھی غلط ہے۔ ہم صرف یہ کہہ رہے ہیں کہ فری اینڈ فئیر الیکشن ہوں۔ ووٹرز نون لیگ کو ووٹ دیں یا کسی اور پارٹی کو ہمیں کوئی شکایت نہیں۔‘

زیبرعمر کہتے ہیں لیول پلیئنگ فیلڈ سب کو ملنی چاہیے۔ ’الیکشن اُسی وقت تک ہی درست نتائج کے حامل ہوں گے جب سب جماعتوں کے لیے لیول پلیئنگ فیلڈ ہو گی، مواقع یکساں ہوں گے۔ اقتدار عوام کے بل بوتے پر ملنا چاہیے۔‘

یہ سوال کہ پاکستان تحریکِ انصاف کو الیکشن لڑنے کے یکساں مواقع میسر آ رہے ہیں؟ اس بارے میں پرویزرشید کہتے ہیں ’لیول پلینگ فیلڈ کے مواقع موجود ہیں۔ اُن کے ورکر بولنے کو تیار نہیں مگر اُن کے وکلا ٹی وی پر بیٹھ کر کئی کئی گھنٹے بول رہے ہیں، یہ لیول پلینگ فیلڈ نہیں تو کیا ہے۔‘

یہی سوال جب سینیئر تجزیہ کار پروفیسر فاروق حسنات کے سامنے رکھا گیا تو اُنھوں نے کہا ’اس وقت سیاسی جماعتوں کو یکساں مواقع نہیں دیے جارہے ہیں۔ الیکشن کی تاریخ کا معاملہ سپریم کورٹ میں گیا وہاں ریمارکس دیے گئے کہ الیکشن کے لیے سب کو یکساں مواقع دیے جائیں۔ معاملہ یہ ہے کہ الیکشن کے اعلان کے بعد پی ٹی آئی کارنر میٹنگ بھی کرنا چاہتی ہے تو نہیں ہونے دی جاتی جبکہ نوازشریف کا لاہور میں جلسہ ہو جاتا ہے۔‘

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں