26 مارچ 1971 کا دن تھا۔ انڈیا کی ریاست میگھالیہ میں انڈین بارڈر سکیورٹی فورس کی 83ویں بٹالین کے ہیڈکوارٹر کے ڈپٹی کمانڈنٹ وریندر کمار گور صبح 2 بجے فون کی گھنٹی بجنے سے بیدار ہوئے۔
مانکچر چوکی کے انچارج نے انھیں فون پر بتایا کہ مشرقی پاکستان کے کچھ لوگ انڈیا میں پناہ لینا چاہتے ہیں۔
گور نے کہا ’میں اس کی اجازت نہیں دے سکتا کیونکہ بی ایس ایف کے پاس اس طرح کا فیصلہ لینے کا اختیار نہیں۔ میں یہ خبر صبح اپنے اعلیٰ افسران تک پہنچا دوں گا لیکن تب تک ایسا نہیں ہو سکتا۔ کسی کو بھی انڈیا کی حدود میں داخل ہونے کی اجازت نہ دیں۔‘
چند منٹ بعد باگھمارہ چوکی کے ایک سنتری نے بھی یہی خبر دی تو گوڑ نے فوراً اپنے سینیئر ڈی آئی جی باروا کو کوڈ لینگویج میں پیغام بھیج کر صورتحال سے آگاہ کیا۔
ڈی آئی جی کی طرف سے کوئی جواب نہیں آیا کیونکہ وہ اس وقت گہری نیند میں تھے۔ بی ایس ایف ہیڈکوارٹر سے کسی نے ڈی آئی جی کو جگایا اور انھیں سرحد پر نقل و حرکت کے بارے میں آگاہ کیا۔
گور کے پیغام کا جواب دیتے ہوئے، انھوں نے کہا کہ پناہ گزینوں کو اس رات کے لیے انڈین علاقے کے اندر رہنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
اس دوران ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہیوں نے بی ایس ایف کے افسران کو مشرقی پاکستان آنے کی دعوت دی۔
انڈین بارڈر سکیورٹی فورس کا کردار
ہیڈ کانسٹیبل نورالدین بنگالی ایسٹ پاکستان رائفلز کی چھگلنائیہ چوکی کے انچارج تھے۔ ان کی دوستی پرمل کمار گھوش سے تھی جو انڈیا میں سری نگر پوسٹ پر تعینات تھے۔ وہ اکثر بارڈر پر آتے اور گھوش سے ملتے۔
26 مارچ کو پاکستانی فوج کی کارروائی کے بعد، نورالدین نے پرمل گھوش سے سرحد پار کرنے اور پاکستانی فوج کیخلاف مدد کرنے کی درخواست کی۔ گھوش نے اپنی وردی بدلی اور سادہ لباس پہن لیا۔
بعد میں گھوش نے پروفیسر علی کی فرضی شناخت قائم کی اور نورالدین کے ساتھ سبھا پور پل پر پہنچے جہاں ایسٹ پاکستان رائفلز کے چھ سپاہی پہلے سے موجود تھے۔
واپس آنے کے بعد اپنی رپورٹ میں انھوں نے مشرقی پاکستان میں جاری آپریشنز کے بارے میں معلومات تو دیں لیکن یہ نہیں بتایا کہ وہ خود سرحد پار کر کے مشرقی پاکستان میں داخل ہوئے۔ اگلے دن ان کے سینیئر لیفٹیننٹ کرنل اے کے گھوش ان کی پوسٹ پر ان سے ملنے آئے۔
اوشینور مجمدار اپنی حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب ’انڈیاز سیکرٹ وار بی ایس ایف اینڈ نائن منتھس ٹو دی برتھ آف بنگلہ دیش‘ میں لکھتے ہیں کہ چائے پینے کے بعد، پرمل گھوش نے اپنے اعلیٰ افسر اے کے گھوش کو بتایا کہ وہ خود سرحد پار کر کے سبھا پور پل پر پہنچے۔
اے کے گھوش نے کہا کہ ’میری اجازت کے بغیر آپ کی بین الاقوامی سرحد عبور کرنے کی ہمت کیسے ہوئی؟ کیا آپ کو اندازہ ہے کہ آپ کا کورٹ مارشل ہو سکتا ہے۔‘
یہ کہہ کر گھوش غصے سے اٹھے اور جیپ کی طرف بڑھے۔ پرمل نے سلام کیا لیکن اے کے گھوش نے کوئی جواب نہیں دیا۔ اب پرمل گھوش کو لگا کہ ان کی نوکری خطرے میں ہے۔
انڈیا کی مشرقی سرحد سے 2000 کلومیٹر دور دلی میں ہوم سکریٹری گووند نارائن کی رہائش گاہ پر ایک اعلیٰ سطحی میٹنگ ہوئی جس میں بارڈر سیکورٹی فورس کے ڈائریکٹر کے رستم جی اور را کے ڈائریکٹر آر این کاو کے علاوہ حکومت کے کئی سینیئر افسران نے شرکت کی۔
اس میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ بارڈر سکیورٹی فورس مدھیہ پردیش کے ٹیکن پور میں اپنی اکیڈمی سے کچھ سینیئر افسران کو مشرقی پاکستان کی سرحد پر بھیجے گی تاکہ وہاں کی صورتحال پر نظر رکھی جا سکے۔
اگلے دن لیفٹیننٹ کرنل اے کے گھوش دوبارہ سری نگر چوکی پر پہنچے۔ اس بار وہ مسکراتے ہوئے اپنی جیپ سے نیچے اترے اور کہا ’پچھلی بار جو چائے تم نے دی تھی وہ میں نے نہیں پی۔ آج میں چائے پیوں گا۔‘
اسسٹنٹ کمانڈنٹ پرمل گھوش کو یہ سن کر سکون ملا۔ اب انھیں لگا کہ کورٹ مارشل کا امکان ختم ہو گیا ہے۔
اوشینور مجمدار لکھتے ہیں کہ 29 مارچ کو پرمل گھوش ایک بار پھر پروفیسر علی کے بھیس میں مشرقی پاکستان کی سرحد میں داخل ہوئے۔ اس بار وہ اپنے اعلیٰ افسران کی رضامندی سے مشن پر گئے۔ ان کے ساتھ ایسٹ پاکستان رائفلز کے نورالدین اور سپاہی تھے۔ کچھ بی ایس ایف اہلکار سادہ کپڑوں میں ملبوس تھے۔
مشرقی پاکستان میں باغی یہ سن کر خوش ہوئے کہ انڈیا نے ان کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ انھوں نے پرمل گھوش کو اپنے کندھوں پر اٹھایا اور ناچنے لگے۔ گھوش نے وہاں میجر ضیا الرحمان سے ملاقات کی جنھوں نے انڈیا سے اسلحہ کی درخواست کی۔
اندرا گاندھی نے کہا ’پکڑے نہ جانا‘
دلی میں انڈیا کے آرمی چیف جنرل سیم مانیکشا نے مکتی باہنی کو محدود مدد فراہم کرنے پر اتفاق کیا۔
بی ایس ایف کے ڈائریکٹر رستم جی نے یہ خبر لیفٹیننٹ کرنل گھوش کو دی۔ گھوش نے پرمل گھوش کو ہدایت دیتے ہوئے 92ویں بٹالین کے ہیڈکوارٹر سے مارٹر اور کچھ توپیں بھیجنے کا انتظام کیا۔
اگلے دن یعنی 30 مارچ کو پرمل گھوش نے یہ سامان مکتی باہنی کے سپاہیوں کو پہنچایا۔ 29 مارچ کو مشرقی پاکستان میں خبر پھیل گئی کہ انڈین دفاعی حکام نے باغیوں سے ملاقات کی ہے اور مکتی باہنی کی حمایت ہو رہی ہے۔
میجر ضیا نے یہ خبر مکتی باہنی کے دیگر ارکان تک پہنچا دی۔ اسی دوران جب بی ایس ایف کے ڈائریکٹر رستم جی وزیر اعظم اندرا گاندھی کے پاس مشورہ لینے گئے تو گاندھی نے کہا ’جو چاہو کرو لیکن پکڑے نہ جاؤ۔‘
عوامی لیگ کے رہنماؤں نے اندرا گاندھی سے ملاقات کی
30 مارچ 1971 کو بارڈر سکیورٹی فورس کو اطلاع ملی کہ عوامی لیگ کے دو سینیئر رہنما تاج الدین احمد اور امیر الاسلام سرحد پر پہنچ گئے ہیں تو بی ایس ایف کے آئی جی گولک مجمدار کو خفیہ پیغام بھیج کر اطلاع دی گئی۔
مجمدار نے اپنے سینیئر رستم جی سے ہاٹ لائن پر رابطہ کیا تو رستم جی یہ اطلاع ملتے ہی ہوائی اڈے پر پہنچے اور طیارے میں کلکتہ پہنچے۔ مجمدار رستم جی کو لینے ایئرپورٹ گئے۔ اس وقت رات کے بارہ بج رہے تھے۔
رستم جی لکھتے ہیں کہ ’مجمدار مجھے ہوائی اڈے کے قریب کھڑی ایک جیپ میں لے گئے۔ تاج الدین احمد اس میں بیٹھے ہوئے تھے۔ جیپ کو سکیورٹی اہلکاروں نے گھیر لیا تھا۔ ہم نے انھیں اور امیر الاسلام کو اپنی کالی ایمبیسیڈر گاڑی میں بٹھایا اور آسام ہاؤس لے گئے۔‘
وہ لکھتے ہیں کہ ’میں نے انھیں اپنا کرتہ پاجامہ دیا تاکہ وہ نہانے کے بعد صاف ستھرے کپڑے پہن سکیں۔ تب تک صبح کے ایک بج چکے تھے۔ رات کے اس وقت کھانے کو کہیں نہیں مل رہا تھا۔ چنانچہ آئی جی گولک نے خود ان دونوں کے لیے آملیٹ بنایا۔‘
رستم جی لکھتے ہیں کہ ’اگلے دن گولک اور میں نیو مارکیٹ گئے، وہاں ہم نے تاج الدین اور امیرالدین کے لیے کپڑے، سوٹ کیس اور ضرورت کی اشیا خریدیں۔ یکم اپریل کو گولک تاج الدین اور ان کے ساتھی کو لے کر دلی گئے جہاں انھیں ایک سیف ہاوس میں رکھا گیا۔ دو دن بعد ان سے وزیر اعظم اندرا گاندھی نے ملاقات کی اور وہ دلی میں ایک ہفتہ گزارنے کے بعد 9 اپریل کو کلکتہ واپس آئے۔‘
بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کو ایک آئین کی ضرورت تھی۔ بی ایس ایف کے لا آفیسر کرنل این ایس بینس نے بیرسٹر امیر الاسلام کی، جو تاج الدین احمد کے ساتھ تھے اور بنگلہ دیش کے عارضی آئین کا مسودہ تیار کرنے میں مدد کی۔
کلکتہ کے ایک اور بیرسٹر سبروتو رائے چودھری نے ان کی دوبارہ جانچ کی۔ نئے ملک کا نام کیا ہونا چاہیے اس پر بہت بحث ہوئی۔ اس کے لیے مشرقی بنگال اور آزاد بنگلہ جیسے کئی نام تجویز کیے گئے۔
آخر میں تاج الدین نے کہا کہ ’شیخ مجیب نے بنگلہ دیش نام کی حمایت کی۔‘ چنانچہ تمام رہنما بنگلہ دیش کے نام پر متفق ہو گئے۔
اب سوال پیدا ہوا کہ بنگلہ دیش کی جلاوطن حکومت کہاں حلف اٹھائے؟ رستم جی نے تجویز دی کہ حلف برداری کی تقریب مشرقی پاکستان کی سرزمین پر ہونی چاہیے۔ آخر میں اس جگہ کا انتخاب کیا گیا جو مغربی بنگال کے ایک ضلع سے تین اطراف سے گھرا ہوا تھا۔ یہ جگہ مہر پور شہر کے قریب بیدیا ناتھل میں آم کے گھنے باغات کے درمیان تھی۔
بارڈر سکیورٹی فورس اور فوج کے تعلقات عامہ کے یونٹ کے سربراہ ثمر بوس اور کرنل آئی ریکھیے نے پہل کی اور کلکتہ سے بیدیا ناتھ تک کاروں کے ایک قافلے میں تقریباً 200 صحافیوں کو لے کر گئے۔
صحافیوں کو پہلے نہیں بتایا گیا کہ وہ کہاں جا رہے ہیں۔
مانش گھوش اپنی کتاب ’بنگلہ دیش وار رپورٹ فرام گراؤنڈ زیرو‘ میں لکھتے ہیں کہ بیدیا ناتھ تال کو چاروں طرف سے سادہ لباس میں ملبوس بی ایس ایف کے جوانوں نے گھیر لیا تھا۔ انڈین فضائیہ کے طیاروں نے پاکستان ایئر فورس کے کسی بھی حملے کو ناکام بنانے کے لیے علاقے میں گشت کیا۔
ایسٹ پاکستان رائفلز کے سپاہیوں نے اپنی پھٹی ہوئی وردیوں میں جلاوطن بنگلہ دیش حکومت کے وزرا کو گارڈ آف آنر پیش کیا۔ ایک کونے میں کچھ لوگ امر شونار بنگلہ گا رہے تھے۔
پھر گولک کو ایک قریبی انڈین گاؤں سے طبلہ اور ہارمونیم کا بندوبست کرنے کو کہا گیا۔ دیناج پور سے عوامی لیگ کے رکن اسمبلی یوسف علی نے مائیکروفون پر بنگلہ دیش کی آزادی کا اعلان پڑھا۔ اس کے بعد تمام وزرا نے یکے بعد دیگرے حلف لیا۔ بنگلہ دیش کا قومی پرچم لہرا دیا گیا اور پورا علاقہ جوئے بنگلہ کے نعروں سے گونج اٹھا۔
اس دوران بی ایس ایف کے ڈائریکٹر رستم جی اور آئی جی گولک مجمدار انڈین حدود میں رہ کر پورے آپریشن کی نگرانی کر رہے تھے۔ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کا دفتر 8 تھیٹر روڈ پر قائم کیا گیا تھا۔
تاج الدین احمد اپنے دفتر سے متصل ایک کمرے میں ٹھہرے۔ باقی وزرا کو بالی گنج سرکلر روڈ پر واقع بی ایس ایف کی عمارت میں ٹھہرایا گیا تھا۔
رستم جی نے ایک دن اندرا گاندھی کو فون کیا اور پوچھا کہ اگر کلکتہ میں پاکستان ہائی کمیشن کے تمام بنگالی ملازمین نے رخ بدل لیا تو کیا انھیں آپ کی حمایت ملے گی؟ اندرا گاندھی اس تجویز سے زیادہ خوش نہیں تھیں۔
انھوں نے رستم جی کو خبردار کیا کہ اس آپریشن میں ایک چھوٹی سی غلطی انڈیا کو مشکل میں ڈال سکتی ہے۔
رستم جی نے کہا میں آپ کو مایوس نہیں کروں گا۔ انھوں نے پاکستان کے ڈپٹی ہائی کمشنر حسین علی سے ذاتی طور پر ملاقات کی اور انھیں اپنا موقف تبدیل کرنے پر آمادہ کیا۔ اس کے علاوہ انھوں نے جلاوطن حکومت کے وزیراعظم تاج الدین احمد سے بھی ملاقات کی۔
18 اپریل کو یہ فیصلہ کیا گیا کہ حسین علی پاکستان سے تعلقات منقطع کریں گے اور بنگلہ دیشی حکومت سے اپنی وابستگی کا اظہار کریں گے۔
عشینور مجمدار لکھتے ہیں کہ کلکتہ میں صبح دس بجے کے قریب ایک شدید طوفان آیا جس نے نہ صرف پارک سرکس گراؤنڈ میں بہت سے درخت اکھاڑ دیے بلکہ اس کھمبے کو بھی اکھاڑ پھینکا جس پر ڈپٹی ہائی کمیشن میں پاکستانی پرچم لہرا رہا تھا۔ جیسے ہی طوفان تھما حسین علی اور ان کا عملہ عمارت تک پہنچا، ان میں سے ایک نے پاکستانی پرچم ہٹا کر اس کی جگہ بنگلہ دیش کا جھنڈا لہرا دیا گیا۔
وہاں موجود بی ایس ایف اہلکاروں نے عمارت پر لگے پاکستانی بورڈ کو ہٹا کر ایک نیا بورڈ لگا دیا جس پر ’آفس آف دی ہائی کمشنر آف دی ریپبلک آف ڈیموکریٹک بنگلہ دیش‘ کے الفاظ درج تھے۔
بی ایس ایف نے ریڈیو ٹرانسمیٹر فراہم کیا
اس آپریشن میں ڈائریکٹر رستم جی، آئی جی آپریشنز میجر جنرل نریندر سنگھ، آئی جی انٹیلی جنس پی آر راجگوپال اور آئی جی ایسٹرن زون گولک مجمدار سب ہائی کمیشن کی سڑک پر بھیس میں کھڑے تھے۔
27 مارچ 1971 کو شام 7 بجے مکتی باہنی کے میجر ضیا الرحمان نے ریڈیو اسٹیشن پر آزادی کا اعلان کیا۔ تین دن بعد پاکستانی طیاروں نے ریڈیو سٹیشن پر بمباری کر کے اسے تباہ کر دیا۔
بی ایس ایف کے ڈائریکٹر رستم جی نے بی ایس ایف کی ٹیکان پور اکیڈمی سے 200 واٹ کا شارٹ ویو ٹرانسمیٹر منگوایا۔ لیفٹیننٹ کرنل اے کے گھوش نے اپنی بٹالین کا پرانا ریکارڈ پلیئر فراہم کیا۔
عشینور مجمدار لکھتے ہیں کہ بی ایس ایف کا سب انسپیکٹر رام سنگھ واحد شخص تھا جو دوسری عالمی جنگ کے دور کے ریڈیو ٹرانسمیٹر کو چلانا جانتا تھا۔ ٹرانسمیٹر دن میں صرف ڈیڑھ گھنٹے تک چلتا تھا۔ انجینیئروں اور سکرپٹ رائٹرز کی ایک ٹیم نے کام شروع کیا۔ پاکستان کے خلاف جنگ لڑنے والے بنگلہ دیش کے لوگوں کے لیے پروگرام نشر کیے گئے، اس دوران اخبارات میں خبریں شائع ہوئیں۔
اس کے بعد پوری دنیا سے بنگلہ دیش کی جدوجہد میں مدد کے لیے لوگوں کو بلایا گیا اور نذرل کے گانے بجائے گئے۔
پرانا ٹرانسمیٹر زیادہ گرم ہونے کی وجہ سے ہر آدھے گھنٹے میں 10 منٹ کا وقفہ لیا جاتا تھا۔ بی ایس ایف کے دو افسران ڈپٹی کمانڈنٹ ایس پی بنرجی اور اسسٹنٹ کمانڈنٹ ایم آر دیشمکھ کو خفیہ ریڈیو سٹیشن چلانے کی ذمہ داری دی گئی تھی۔
ان لوگوں کو اگرتلہ کے سرکٹ ہاؤس میں رہنے کا انتظام کیا گیا تھا اور انھیں آنے جانے کے لیے ایک جیپ دی گئی تھی۔
کچھ دن بعد، ریڈیو سٹیشن کو مغربی بنگال منتقل کر دیا گیا جہاں را نے مشرقی پاکستان کے ریڈیو فنکاروں کی مدد سے ریڈیو پروگرام تیار کرنے کا ذمہ لیا۔
29 پل تباہ
بارڈر سیکورٹی فورس کے انجینیئروں اور سپاہیوں نے سبھا پور پل کو منہدم کرنے میں مکتی باہنی کی مدد کی۔ چھ ہفتوں میں بی ایس ایف نے مشرقی پاکستان میں 29 سڑکوں اور ریلوے پلوں کو تباہ کر دیا۔ اس کے نتیجے میں پاکستان فوج کے جوانوں کو سامان کی ترسیل میں تاخیر ہوئی۔
جب بھی بی ایس ایف کے فوجی مشرقی پاکستان کی سرحد میں داخل ہوتے تھے، انھیں اپنی وردی پہننے کی اجازت نہیں تھی نہ ہی وہ انڈیا میں بنائے گئے ہتھیار لے جا سکتے تھے۔ پلاٹون کمانڈر روپک رنجن مترا نے بی ایس ایف کے فوجیوں کو تربیت دینا شروع کی جنھوں نے مشرقی پاکستان میں خفیہ طور پر دراندازی کی تھی۔
عشینور مجمدار لکھتے ہیں کہ انھیں یہ سکھایا گیا کہ السلام علیکم کہہ کر ایک دوسرے کو کیسے سلام کرنا ہے۔
بی ایس ایف کے سپاہیوں نے اپنے نام بھی بدل ڈالے۔ مترا نے اپنا نام بدل کر طالب حسین رکھ لیا۔ وہ ایک دوسرے کو ان کے نئے ناموں سے پکارتے تھے۔
انڈیا نے مکتی باہنی کی مدد سے انکار کیا
اندرا گاندھی کے پرنسپل سکریٹری پرمیشور نارائن ہکسار نے امریکی صدر کے سکیورٹی ایڈوائزر ہنری کسنجر سے پاکستان کو امریکی ہتھیار دیے جانے کی شکایت کی۔ اس کے بعد کسنجر نے انڈیا پر بنگالی باغیوں کو اسلحہ فراہم کرنے کا الزام لگایا لیکن ہکسار نے ان الزامات کی تردید کی۔
دراصل یہ غلط نہیں تھا۔ سری نگر پوسٹ پر نہ صرف 19 راجپوتانہ رائفلز کی چار کمپنیاں تعینات تھیں بلکہ بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکاروں کی مدد کے لیے چھ توپیں اور تین انچ مارٹر بھی تعینات تھے۔
تب بھی اور آج بھی انڈیا نے کھلے عام یہ تسلیم نہیں کیا کہ اس نے مکتی باہنی کی مدد کی۔
نیویارک ٹائمز کے نامہ نگار سڈنی شوئنبرگ ایک تربیتی کیمپ تک پہنچنے میں کامیاب ہو گئے جہاں بارڈر سکیورٹی فورس کے اہلکار مکتی بھانی کے فوجیوں کو تربیت دے رہے تھے۔
انھوں نے انڈیا اور مشرقی پاکستان کی سرحد پر چار دن گزارے اور یہاں تک کہ پاکستانی سرحد میں گھسنے میں کامیاب ہو گئے۔ نیو یارک ٹائمز کے 22 اپریل 1971 کے شمارے میں، انھوں نے ایک مضمون لکھا جس کا عنوان تھا ‘Bengalis to regroup their Forces for Gurrilla Action’۔
اس رپورٹ میں انھوں نے لکھا کہ ’میں نے اپنی آنکھوں سے انڈیا کی بارڈر سیکورٹی فورس کے اہلکاروں کو مکتی باہنی کے فوجیوں کو تربیت دیتے اور مسلح کرتے ہوئے دیکھا۔‘