کراچی میں بہت سی تاریخی عمارات ہیں اور ہر عمارت ہی اپنی جگہ انتہائی اہم ہے، حکومت سندھ نے ایک نوٹیفکیشن کے ذریعے کراچی کی متعدد عمارتوں اور مقامات کو تاریخی ورثہ قرار دیا ہے جس کا مقصد ان عمارات کو محفوظ بنانا ہے اور ان کی بیرونی ساخت کو اسی طرح قائم و دائم رکھنا ہے جس طرح یہ ماضی میں تعمیر کی گئی تھیں، بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے کراچی کی پانچ عمارات کو خصوصی اہمیت حاصل ہے کیونکہ یہ عمارات ان قائدین کے حوالے سے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔
ان میں وزیر مینشن اولڈ سٹی ایریا، سندھ مدرسۃ الاسلام شاہراہ لیاقت، قائد اعظم ہائوس میوزیم فاطمہ جناح روڈ ،قصر فاطمہ کلفٹن اور مزار قائد اعظم نمائش خاص اہمیت کی حامل ہیں، وزیر مینشن جہاں قائد اعظم پیدا ہوئے ، سندھ مدرسۃ الاسلام جہاں قائد اعظم نے ابتدائی تعلیم حاصل کی، قائد اعظم ہاؤس میوزیم اور قصر فاطمہ جہاں قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح نے رہائش اختیار کی اور مزار قائد اعظم جہاں بانی پاکستان آرام فرما ہیں، شارع فیصل سے گزرتے ہوئے ایک تاریخی عمارت ہے جسے قائد اعظم ہائوس میوزیم کہا جاتا ہے جب ہم شارع فیصل سے فاطمہ جناح روڈ کی جانب مڑتے ہیں تو اسی سنگم پر یہ عمارت واقع ہے جسے ماضی میں’’ فلیگ اسٹاف ہاؤس‘‘ کہا جاتا تھا لیکن اب اس عمارت کا نام ’’قائد اعظم ہاؤس میوزیم‘‘ ہے۔
یہ عمارت 1922 ء تک رام چند ہنس راج کوچی لوہانا کی ملکیت تھی اور شواہد یہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے ہی اس عمارت کو تعمیر کرایاتھا۔اس زمانے میں یہ تاریخی عمارت اسٹاف لائنز میں پلاٹ نمبر 241 پر تعمیر کی گئی تھی اور یہ علاقہ کراچی کنٹونمنٹ بورڈ کا حصہ تھا اور آج بھی کنٹونمنٹ بورڈ ہی کے زیر انتظام ہے۔ 1940ء میں برٹش انڈین آرمی نے اس عمارت کو اپنے فوجی افسران کی رہائش کے لئے حاصل کرلیا تھا، جنرل ڈیگلاس ڈیوڈگریسی جو سندھ ایریا کے کمانڈر آفیسر تھے انہوں نے اپنی رہائش گاہ کے طور پر بھی استعمال کیایعنی جی او سی کی یہ سرکاری رہائش گاہ قرار پائی اور اسی نسبت سے اس عمارت کو’’ فلیگ اسٹاف ہائوس‘‘ کا نام دیا گیا، جنرل ڈیگلاس ڈیوڈگریسی 1943 سے 1947 تک اس عمارت میں مقیم رہے، وہ پاکستان آرمی کے پہلے چیف آف دی جنرل اسٹاف اور ڈپٹی کمانڈر انچیف بھی رہے، 1943ء میں یہ عمارت سہراب کے ایچ کٹرک کی ملکیت تھی قائد اعظم نے سہراب کے ایچ کٹرک سے اس عمارت کو ایک لاکھ 15 ہزار میں خرید لیا تھا، عمارت کو خریدنے کا یہ معاہدہ 14 اگست 1943ء کو کیا گیا۔
قائد اعظم نے اس عمارت کو خریدنے کے لئے پانچ ہزار روپے پیشگی ادا کئے اور باقی رقم کی ادائیگی کے لئے طے پایا کہ یہ بعد میں ادا کی جائے گی۔سہراب کٹرک ایک ممتاز شہری ہونے کے علاوہ کراچی کے میئر بھی رہ چکے ہیں انہیں اس بات کا بخوبی اندازہ تھا کہ بانی پاکستانی قائد اعظم محمد علی جناح کو یہ عمارت فروخت کرنا بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کیونکہ قائد اعظم ان کی بہن محترمہ فاطمہ جناح اور ان کے خاندان کے دیگر افراد نے پاکستان بنانے کے لئے بھرپور جدوجہد کر رہے تھے اور برصغیر کے مسلمانوں میں تحریک پیدا کر رہے تھے کہ وہ اپنے لئے ایک آزاد اور خود مختار ملک حاصل کریں جہاں وہ اپنے عقائد و نظریات کے ساتھ زندگی بسر کرسکیں۔
قائد اعظم ہائوس میوزیم 1865 میں پیلے رنگ کے بھربھرے پتھروں سے تعمیر کیا گیا ہے۔ یہ عمارت 10 ہزار 214 مربع گز کے رقبے پر محیط ہے ، مرکزی عمارت بہت بڑے احاطہ دیوار میں تعمیر کی گئی ہے، دو منزلہ عمارت میں نیچے تین کمرے ہیں، دو اضافی کمرے 16 فٹ 10 انچ چوڑے ہیں جبکہ عمارت میں پہلے برآمدہ ہے پھر عمارت شروع ہوتی ہے نچلی منزل پر پہلا کمرہ قائد اعظم کے مطالعے کے لئے مختص ہے جس میں ایک میز، چار کرسیاں اور دو الماریاں ہیں جن میں نہایت سیلقے سے کتابیں سجی ہوئی ہیں، ایک صوفہ سیٹ اپنی اصلی حالت میں موجود ہے جبکہ میز پر دو پین بھی اسی طرح رکھے ہوئے ہیں جس طرح قائد اعظم رکھا کرتے تھے اس کے برابر والا کمرا ڈرائنگ روم ہے جس میں بیت سے بنی گئیں کرسیاں فوم والا گول میز، ایک شوکیس جس میں چند ظروف رکھے ہوئے ہیں موجود ہے، ایک صوفہ بھی رکھا گیا ہے اور کمرے میں سرخ قالین کی موجودگی کمرے کو دلکش بناتی ہے جبکہ اس کمرے کی چھت کو لکڑی کے خوبصورت کام سے آراستہ کیا گیا ہے۔
دو کمروں کے بعد سیڑھیاں ہیں جو اوپر جانے کے لئے ہیں، بالائی منزل پر تین کمرے ہیں ، اوپری دو کمرے قائد اعظم اور فاطمہ جناح کی خواب گاہیں تھیں، نچلی منزل سے ایک راستہ پچھلی سمت باورچی خانے کو جاتا تھا جہاں اب کچن ختم کرکے انتظامی امور سے متعلق دفتر قائم کردیا گیا ہے، مرکزی عمارت سے ملحق ایک انیکسی بھی اس عمارت کا حصہ ہے جسے اب گیلری میں تبدیل کردیا گیا ہے اور اس میں قائداعظم ، محترمہ فاطمہ جناح اور تحریک پاکستان سے متعلق تصویریں آویزاں کی گئی ہیں، ایک جانب خوبصورت انداز میں ایمان ، اتحاد ، تنظیم تحریر کیا گیا ہے، گیلری میں خوبصورت دبیز قالین بچھائے گئے ہیں۔
قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے کمروں سے ایک دروازہ برآمدے میں جاتا ہے جہاں چائے پینے کے لئے میز اور دو کرسیاں رکھی ہیں، قائد اعظم ہائوس دیکھنے کے بعد یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح سادہ مزاج تھے اور ان کے گھر میں اضافی اشیاء نہیں ہوتی تھیں، ضروری فرنیچر ہی وہ رکھنا پسند کرتے تھے لیکن انتہائی نفیس اور صفائی پسند شخصیات تھیں، گھر کی تمام اشیاء بھی اسی انداز کی تھیں کہ ان سے قائد اعظم کی نفاست کا بھرپور اظہار ہوتا ہے، اگر ہم عمارت میں داخل ہونے کے بعد پچھلے حصے کی جانب جائیں تو بیرک نما مکانات موجود ہیں جبکہ چار گیراج اور تین گارڈ روم بھی ان مکانات کے ساتھ ساتھ تعمیر کئے گئے ہیں جبکہ پچھلی جانب سے عمارت میں آمدورفت کے لئے ایک گیٹ بھی لگایا گیا ہے۔
یہ مکانات دراصل ان ملازمین کے لئے تھے جو فلیگ اسٹاف ہاؤس میں اپنی خدمات انجام دیتے تھے، عمارت کے احاطے میں پیپل کے درخت ہیں جو اس عمارت کو مزید دلکش بناتے ہیں، عمارت کے اندرونی اور بیرونی دروازوں اور کھڑکیوں پر بادامی رنگ کیا گیا ہے جس سے دروازے اور کھڑکیاں بے حد نفیس نظر آتی ہیں، عمارت میں چکور ستون عمارت کی خوبصورتی ، دلکشی میں اضافے کے باعث ہیں، قائد اعظم ہاؤس میوزیم کے احاطے میں ایک فوارہ بھی تعمیر کیا گیا تھا جو اب بھی درست حالت میں ہے، عمارت کی تزئین نو اس طرح کی گئی ہے کہ یہ عمارت قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال نظر آئے یہی اس تاریخی عمارت کی اصل خوبصورتی اور حسن ہے۔
قائد اعظم ہائوس میوزیم کو اس وقت کی وفاقی وزارت برائے تہذیب و تمدن کے سپرد کیا گیا تھا تاکہ اس عمارت کی ازسرنو تزئین و آرائش کرکے قائد اعظم اور محترمہ فاطمہ جناح کے حوالے سے ایک یادگار کے طور پر محفوظ کیا جاسکے اور آنے والی نسلوں کو قائد اعظم کی طرز زندگی ، رہائش اور ان کے زیر استعمال اشیاء کو دیکھنے کا موقع ملے اور وہ جان سکیں کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کتنی نفیس اور دلکش شخصیات تھیں گو کہ قائد اعظم کو اس عمارت میں رہنے کا بہت کم موقع ملا ، انہو ںنے زیادہ تر وقت گورنر جنرل ہائوس جو اب گورنر ہائوس کہلاتا ہے اس میں گزارا اور بیمار ہونے کے بعد زیارت ریذیڈینسی چلے گئے لیکن محترمہ فاطمہ جناح ایک طویل عرصے تک یہاں مقیم رہیں۔
اس عالی شان عمارت کو باقاعدہ محفوظ کرنے اور اسے عظیم یادگار بنانے میں محکمہ آثار قدیمہ اور پبلک ورکس ڈپارٹمنٹ کو خراج تحسین پیش کیا جانا چاہئے کہ انہوں نے اس قومی ورثے کو نہ صرف محفوظ کیا بلکہ باعث افتخار بھی بنایا۔
فلیگ اسٹاف ہاؤس کو بنیادی شکل میں برقرار رکھنے کے لئے 18.66 ملین روپے کی لاگت سے تعمیراتی کام مکمل کیا گیا اور اس عمارت کا نام قائد اعظم ہائوس میوزیم رکھ دیا گیا جس کا باقاعدہ افتتاح اس وقت کے گورنر سندھ شہید حکیم محمد سعید نے 25 نومبر 1993ء کو اپنے دست مبارک سے کیا، قائد اعظم ہائوس میوزیم کی تزئین و آرائش اور ترتیب اس طرح کی گئی جیسے یہ بانی پاکستان قائد اعظم اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے زیر استعمال تھی۔
محترمہ فاطمہ جناح نے 13 ستمبر 1948ء کو قائد اعظم ہاؤس میوزیم میں رہائش اختیار کی اور 1964ء تک اسی عمارت میں مقیم رہیں بعد میں انہوں نے کلفٹن میں واقع قصر فاطمہ جسے موہٹہ پیلس بھی کہا جاتا ہے وہاں مستقل رہائش اختیار کرلی، محترمہ فاطمہ جناح اور ان کی بہن محترمہ شیریں بائی کے انتقال کے بعد یہ عمارت قائد اعظم ٹرسٹ کے حوالے کردی گئی اور فروری 1985 ء نے حکومت پاکستان نے اس عمارت کو 51 لاکھ 7 ہزار روپے میں خرید لیا، یوں یہ عمارت حکومت پاکستان کے زیر انتظام آگئی، یہ آج بھی اپنی جگہ اسی حالت میں موجود ہیں جس طرح یہ عمارت تعمیر کی گئی تھی ،کی تزئین و آرائش بھی کردی گئی ہے ، ضرورت اس امر کی ہے کہ ہمیں ان رہنمائوں سے وابستہ عمارات کو اپنے بچوں اور نوجوانوں کو دکھانا چاہئے تاکہ ماضی کی تاریخ اور تہذ یب و ثقافت سے واقف ہوسکیں۔
یہ عمارت قومی یادگار ہے اور یہاں آکر ہم میں اپنے قائدین سے عقیدت اور قربت کا احساس ہوتا ہے اور یہی احساس ہمیں اپنی آنے والی نسلوں میں بھی پیدا کرنا چاہئے تاکہ وہ تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے مقاصد کو سمجھ سکیں۔