کراچی اور کراچی کا ناظم آباد تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ کراچی میں آنے والے ادب پسند مہاجرین کی بڑی تعداد کا مسکن ناظم آباد ہوا کرتا تھا، 1950 سے 1970 تک ناظم آباد ہندوستان کی مسلم تمدن کا مرکز اور گنگا جمنی تہذیب کا وارث ہوا کرتا تھا، پنجاب یا بنگال سے نقل مکانی کرنے والے افراد اس صوبے کے بھارتی حصے سے پاکستانی علاقے میں منتقل ہوئے، اس کے نتیجے میں لاہور اور ڈھاکا میں تہذیب کی ہم رنگی برقرار رہی۔
کراچی پہنچنے والے مہاجرین اس سے مختلف تھے، ان میں سے بیشتر اپنے آبائی علاقوں میں شورش کے سبب، تو دیگر نئے ملک میں نئے مواقعوں کی تلاش میں کراچی پہنچے تھے، ان کا تعلق برصغیر کے تہذیبی مراکز لکھنؤ، دہلی، امروہا اور حیدرآباد سے تھا۔
مہاجرین کے لیے یہ موقع تھا کہ وہ جو پیچھے چھوڑ آئے ہیں اسے دوبارہ حاصل کرسکیں، جیسے کہ ڈاکٹر آصف اسلم فرخی نے کہا تھا،’ناظم آباد میں گھر ہونے کا مطلب ترقی اور متمول ہونے کی نشانی تھا، یہ اپنی بنیاد اور ملکیت قائم کرنے جیسا تھا، گھر حاصل کرنا ایک مشکل کام تھا اورکئی پڑھے لکھے مڈل کلاس مہاجرین کے لیے یہ پاکستان میں ان کی پہلی ذاتی زمین تھی۔
ناظم آباد میں نئے آغازکا ایک واضح اشارہ تھا، اسی روح میں ادیب اور اسکالر شان الحق حقی نے اپنے گھر کو شعاعِ ساز کا نام دیا، دیگر کئی افراد نے اپنے آباؤاجداد اور پہچان کو تعظیم دینے کی روایت جاری رکھی۔ شہر کو اپنی تہذیب میں ڈھالنے کی خواہش فن تعمیر میں دکھائی دیتی ہے، ناظم آباد میں واقع گھروں میں قائم برآمدے اور باغات میں شمالی انڈیا کے گھروں کی سی جھلک دکھائی دیتی۔
کلاسیکی انداز کے آہنگ سے جدید اسٹائل کی بناوٹ جو آرٹ ڈیکو، مغلیہ دور کے ستونوں اور باہری چکردار زینوں میں دکھائی دیتی ہے۔کھلی جگہوں کا ہونا بھی ضروری تھا کیونکہ 1956 تک بجلی یہاں نہیں پہنچ پائی تھی اور پورا گھر گرمیوں میں گرمی کی شدت سے بچنے کے لیے ورانڈوں اور دالان میں سونے کو ترجیح دیتا تھا۔
1950 کے درمیان تک ناظم آباد کی آبادی کافی بڑھ چکی تھی، شعرا، فنکار، سرکاری ملازمین اور مسلم دانشوروں کی بڑی تعداد ماحول کو آباد کرچکی تھی ، اس وقت کے ناظم آباد کا موازنہ 1920 میں پیرس کے علاقے مونٹپرنیسے سے کیا جاسکتا ہے جب وہاں پکاسو، ہیمنگوے، بیکٹ اور کئی مشہور لیجنڈ آباد تھے۔
سڑک کنارے درختوں کی قطاروں میں کشادہ راستے پر چلتے آپ کبھی صادقین سے ٹکرا جاتے جو ناظم آباد بلاک 2 میں واقع اپنے گھر سبطین منزل میں آباد تھے اور اگر آپ کسی ادیب یا لکھاری کی تلاش ہوتی تو پاس ہی موجود ابن انشا سے مختصراً بات چیت ہوسکتی تھی سیاست دان، ڈاکٹرز، وکلا، معلم سب ایک ہی سڑک پر آباد تھے۔
آج کے دور میں تہذیبی ماحول کا تصور کرنا تھوڑا مشکل ہوجاتا ہے، لیکن اس وقت رات دیر تک گھر کسی چوری کے ڈر کے بغیر کھلے رہتے ہر کوئی ایک دوسرے سے واقفیت رکھتا تھا۔ اور اپنے گھرو ں یا ناظم آباد کلب جیسی جگہوں پر اکھٹے ہوتے جہاں رات گئے تک برج کھیلتے یا ایڈیٹوریم میں کوئی کھیل دیکھتے ہوئے وقت گزارا جاتا۔
اگر کسی کو پڑھنے کا شوق ہوتا تو وہ ناظم آباد میں موجود کئی لائبریریوں میں سے کسی لائبریری کا رخ کرتا،3ہزار کتب اور 375 ادبی میگزین کے ساتھ موجود غالب لائبریری ایک مشہور مقام تھا، جسے فیض احمد فیض اور مرزا ظفرالحسن کی زیرنگرانی حبیب بینک نے تعمیر کیا تھا۔ان دونوں نے اس سے قبل ادارہ یادگار غالب کے قیام کے لیے بھی کام کیا تھا اور غالب لائبریری بھی ان کی شبانہ روز محنت کا نتیجہ تھی، اس لائبریری کو صادقین کے پینٹ کیے گئے ٹن سائن کی وجہ سے خاص اہمیت حاصل تھی جبکہ صادقین نے لائبریری کے اندرونی حصوں کے لیے بھی مصوری کی۔ ادبی شخصیات یہاں بیٹھ کر مطالعہ یا لیکچرز دیتیں اور غازی صلاح الدین تو اس مقام پر عصمت چغتائی، سبطِ حسن، جوش ملیح آبادی، جیلانی بانو، صفدر جعفری اور دیگر کئی معروف افراد کے ساتھ ہونے والے مکالموں کو یاد کرتے۔
فلموں کے شوقین افراد کے لیے بھی ناظم آباد کسی جنت سے کم نہ تھا جہاں بہت سے سینما گھر موجود تھے، عام انکلوژر میں 6 آنے دے کر جبکہ باکس سیٹ کے لیے ایک روپیہ ادا کرکے فلم دیکھی جاسکتی تھی، پاک کالونی کی طرف موجود چمن سینما، لبرٹی بلاک 2 میں نیا ریلیکس، پٹرول پمپ چورنگی پہ شالیمار موجود ہوتا تھا، پٹرول پمپ چورنگی کا نام 1956 میں علاقے میں شروع ہونے والے پہلے پٹرول پمپ کی وجہ سےپڑا تھا جبکہ کچھ آگے بڑھیں تو ریجنٹ سینما بھی موجود تھا۔
پڑھے لکھے طبقے کی اس قدر آبادی کے بعد تعلیم کو سنجیدگی سے لیا جانا حیرت انگیز نہیں تھا، 1951 میں بلاک 4 میں قائم ہونے والے ہیپی ڈیل اسکول نے کئی اہم طالب علم پیدا کیے اور اسی طرح بلاک 2 میں قائم گورنمنٹ بوائز سیکنڈری اسکول بھی کئی زرخیز ذہنوں کو سامنے لایا، اسی اسکول کی دوسری جانب واقع گورنمنٹ کالج ناظم آباد تھا جو 1960 کی دہائی میں جنرل ایوب خان کے خلاف ہونے والی طلبہ تحاریک کا اہم گڑھ بنا۔ علم و دانش کا ایک اور مرکز سرسید کالج تھا جس کی طلبا و طالبات کے لیے الگ الگ شاخیں تھیں، سرسید گرلز کالج کی پرنسپل سلمیٰ زمان لڑکیوں کی تعلیم کی اہمیت پر یقین رکھتی تھیں۔
دوسری جانب بلاک 1 میں ناظم آباد اسکول آف آرٹس تھا جو کراچی کا پہلا آرٹ اسکول بھی ہے، رابعہ زبیری کے گھر میں کھلنے والا یہ اسکول بعد میں کراچی اسکول آف آرٹس بن گیا۔
ناظم آباد کھیلوں کے میدان میں بھی کسی سے کم نہ تھا، لیکن جو کھیل گلیوں کی رونق تھا وہ کرکٹ تھا۔
محمد برادرز، حنیف، وزیر، مشتاق اور صادق علی سب نے پاکستان کی نمائندگی کی جبکہ ریئس فرسٹ کلاس کا حصہ بنے، صادق محمد اس وقت کو یاد کرتے ہیں جب وہ ناظم آباد میں کلب کرکٹ کھیلا کرتے تھے،
کھانے میں ناظم آبادی اپنے پرانی پسندیدہ چیزوں کو ہی پسند کرتے تھے، بقول ڈاکٹر آصف فرخی مرحو ، ’فن تعمیراور دانشورانہ سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ کھانا بھی کسی منتقل شدہ تہذیب کا آئینہ دار تھا، باورچیوں اور کھانے پکانے کے ماہرین کے ہمراہ انڈیا کا میٹھا اور کھانا یہاں آیا اس لیے ناظم آباد میں ملنے والی نہاری اتنی ہی ذائقے دار ہوتی جتنی کہ دہلی میں ہوتی تھی اور یہاں ملنے والے پیڑے بدایوں سے بھی اچھے ہوتے‘۔
آج کے دور میں یہ سب چیزیں سراب معلوم ہوتی ہیں اس وقت کا ناظم آباد دہلی اور اوادھ کے بہترین لوگوں کی ایک چھوٹی سی کائنات تھی، لیکن پھر 1970 کی دہائی میں اس کے باسیوں کی یہاں سے منتقلی کے ساتھ ساتھ اس کا یہ کردار کم ہوتا چلا گیا۔
اس تغیر کو غازی صلاح الدین کے مطابق، کراچی کا دانشور طبقہ پی آئی بی کالونی سے ناظم آباد منتقل ہوا اور پھر پی ای سی ایچ ایس اور آہستہ آہستہ مقامات کی اس تبدیلی کے بعد غائب ہوگیا، ہر مرحلے پر کچھ نقصان ہوتا گیا اور سب سے بڑا نقصان تب ہوا جب لکھاری، فنکار، اسکالرز اور دیگر افراد ناظم آباد سے پی ای سی ایچ ایس اور دیگر علاقوں میں متقل ہوگئے، کراچی میں عقلیت کی موت اس وقت شروع ہوئی جب لوگوں نے ناظم آباد سے دور ہونا شروع کر دیا۔اس وقت کا ناظم آباد اب نہیں رہا لیکن اب بھی اڑے اڑے رنگوں میں یاد کی صورت ہزاروں افراد کو اس وقت کا ناظم آباد یاد ہے جو اس بات پر فخر کرتے ہیں کہ وہ اس کا حصہ رہے، جو بلاشبہ برصغیر کی تہذیب سے سجا ایک پررونق علاقہ تھا