کراچی پاکستان کے ان خوش قسمت شہروں میں سے ایک ہے جہاں خوبصورت اور دلکش ساحل موجود ہیں، دنیا بھر میں ساحلی شہروں کو ایک خاص اہمیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ وہ تجارت، صنعت و حرفت اور سیاحت کے لئے انتہائی اہم ہوتے ہیں، آج بھی دنیا بھر میں تجارتی سامان اور پیٹرولیم کی مصنوعات کی نقل و حمل کے لئے بحری جہاز ہی استعمال ہوتے ہیں ایسے شہر جہاں ساحل واقع ہوں سیاحوں کے لئے انتہائی پرکشش ہوتے ہیں اور وہ دوسرے شہروں کی نسبت ان شہروں میں آنا پسند کرتے ہیں۔
کراچی کو پاکستان کا سب سے بڑا ساحلی شہر ہونے کا منفرد اعزاز حاصل ہے اور یہ شہر سمندر کے کنارے آباد ہونے کے باعث ملک بھر کے لوگوں کی توجہ کا مرکز ہے، دنیا کے مختلف ساحلی شہروں میں واٹر اسپورٹس کے حوالے سے کھیل منعقد کئے جاتے ہیں جس سے اس شہر کو بڑے پیمانے پر ریونیو حاصل ہوتا ہے، کراچی میں شہروں کی تفریح و طبع کے لئے دس سے زائد ساحل موجود ہیں جہاں لاکھوں کی تعداد میں شہری سمندر کی لہروں، مزیدار کھانوں، کشتی رانی اور واٹر اسپورٹس کی مختلف سرگرمیوں سے لطف اندوز ہوتے ہیں بعض ساحلوں پر ہٹس بنے ہوئے ہیں جہاں پر لوگ اپنے خاندا ن کے افراد کے ہمراہ راتوں کو بھی قیام کرتے ہیں اور مختلف تقریبات بھی منعقد کی جاتی ہیں۔
کراچی کو پاکستان کا سب سے بڑا ساحلی شہر ہونے کا اعزاز حاصل ہے
آج کل شادی بیاہ کے سلسلے کی تقریبات جن میں مہندی، مایوں کی رسمیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں ساحل پر واقع خوبصورت ہٹس میں منعقد کرنے کا رواج بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ پہلے ہماری سمندری حدود کی حد بارہ میل تک تھی، 21 مارچ 1973ء کو حکومت پاکستان نے سمندروں کے بین الاقوامی قانون کے تحت سمندری حدود کو ساحل سے پچاس میل تک توسیع کردی، پاکستانی سمندری حدود میں جہاں ماہی گیروں کو فائدہ ہوا، وہیں مچھلی کی پیداوار میں بھی اضافہ ہوا، اب پاکستان کی حدود میں جہاز بغیر کسی اجازت کے پچاس میل تک سمندر میں جا سکتے ہیں، آیئے جانتے ہیں کہ کراچی کے کون کون سے ساحل آپ کی آمد کے منتظر ہوتے ہیں۔
منوڑہ فرنٹ بیچ
حال ہی میں منوڑہ فرنٹ بیچ کے نام سے ایک خوبصورت تفریحی مقام کی تعمیر کو مکمل کرکے شہریوں کو محفوظ، صاف ستھرے ماحول میں تفریح کے مواقع فراہم کئے گئے ہیں، منوڑہ کراچی کے جنوب میں واقع ایک چھوٹا سے جزیرہ ہے جو کراچی پورٹ کے جنوب میں واقع ہے۔یہ بارہ کلو میٹر ایک ریتیلی سڑک کے ذریعے کراچی سے جڑا ہوا ہے، کشتی کے ذریعے بھی کیماڑی سے دس سے پندرہ منٹ میں منوڑہ پہنچا جاسکتا ہے، منوڑہ اپنے دیگر چھوٹے جزیروں سمیت ایک خوبصورت سیاحتی مقااور فطرت کے حسین مناظر سے بھرپور پرسکون جگہ ہے۔کہا جاتا ہے کہ دنیا پر اپنی حکومت قائم کرنے کے خواب دیکھنے والے سکندر اعظم جب دنیا کو فتح کرنے کے لئے نکلے تو ان کا بحری بیڑا منوڑہ پر بھی لنگر انداز ہوا تھا۔
اس طرح سندھ پر حکمرانی کرنے والے تالپور دور میں بھی شہر کی حفاظت کے لئے ایک بندرگاہ تعمیر کی گئی اور چھوٹے پیمانے پر تجارت شروع کی گئی تھی، اس طرح منوڑہ اپنی ایک بھرپور تاریخ رکھتا ہے، حال ہی میں منوڑہ واٹر فرنٹ بیچ کا منصوبہ 650 ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے اس طرح اسے کراچی کا پہلا ترقی یافتہ ساحل ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ اس کے ڈیزائن میں اس بات کا خیال رکھا گیا ہے کہ یہ خاندان بھر کے افراد کی تفریح کے لئے تمام ضروریات مہیا کرے، منوڑہ کنٹونمنٹ کی آباد ی 13 ہزار 287 ہے اور اس کے خاص خاص علاقوں میں کچھی لائن، کے پی ٹی بنگلوز، پی این ایس کوآرٹرز، ایم ای ایس کالونی، پی این ایس ہمالیہ، یونس آباد، فالٹ ایریا اور کاکا پیر شامل ہیں۔
واٹر فرنٹ بیچ پر فیملیز کے لئے محفوظ ماحول مہیا کیا گیا ہے، پارکنگ، گیزوبا، ٹیفلون شیڈز اور بینچوں سے آراستہ کیا گیا ہے، ساحل پر رنگ برنگے ٹائلز کے ساتھ ساتھ برقی قمقمے اور فلڈ لائٹس بھی لگائی گئی ہیں، ساحل کے سامنے والے حصے میں 29 سائبان بنائے گئے ہیں جس کا اسٹرکچر 7.9 ایکڑ رقبے پر پھیلا ہوا ہے، انگریز حرف ایل کی شکل میں 76 بینچیں اور ان کے ساتھ میزیں نصب کی گئی ہیں، بچوں کی تفریح و طبع کے لئے پلے ایریا بھی بنایا گیا ہے، یہ پرکشش، خوبصورت اور دلکش ساحل آپ کو خوش آمدید کہنے کے لئے تیار ہے۔
ہمارے سمندری حدود کی حد بارہ میل تھی، 21مارچ 1973ء کو 50میل تک توسیع کردی
کلفٹن ساحل
کراچی کا دوسرا ساحل کلفٹن پر واقع ہے۔ ایک زمانے میں سب سے زیادہ شہری یہاںایا کرتے تھے صدر سےکلفٹن تک بس چلا کرتی تھی اور ٹیکسوں ،گھوڑا گاڑیوں کے ذریعے بھی شہر کے مختلف حصوں سے شہری کلفٹن کے ساحل پر پہنچتے تھے ،یہاں ایک بہت بڑا پلے لینڈ بنا ہوا تھا اور بہت بڑی تعداد میں برقی جھولے لگے ہوئے تھے، الیکٹرک کار، خودکار جھولے، سمندری سیپ سے بنے ہوئے مختلف کھلونے، فریمز، زیور، کھانے پینے کی اشیاء خصوصاً تلی ہوئی مچھلی کے اسٹالز بڑے پیمانے پر تھے، یہاں بڑی تعداد میں شہریوں کی آنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہاں صوفی بزرگ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کا مزار واقع ہے جب لوگ حضرت عبداللہ شاہ غازیؒ کے مزار پر حاضری کے لئے آتے تو کلفٹن کے ساحل کا بھی رخ کرتے تھے۔
اسی طرح یہاں تاریخی جہانگیر کوٹھاری پریڈ اور وہ ڈوم بھی تھا جسے اکثر فلموں میں دکھایا جاتا تھا جس کے باعث شہریوں کو یہ جگہ انتہائی پرکشش لگتی تھی، راستے میں تین تلوار اور دو تلوار کی چورنگیاں ہیں جسے لوگ آج بھی شوق سے دیکھتے ہیں، ساحل پر اونٹ اور گھوڑے کی سواری بھی دستیاب ہے۔ 2006ء میں پلے لینڈ کو ختم کرکے یہاں 130 ایکڑ رقبے پر باغ ابن قاسم تعمیر کردیا گیا ہے،اس کے پچھلی جانب سڑک پار کرنے کے بعد بیچ ویو پارک بنا دیا گیا ہے جو 1.7 کلو میٹر طویل ہے جس کے باعث ساحل لوگوں کی آمدورفت نسبتاً کم ہوگئی ہے، حال ہی میں یہاں اربن فاریسٹ بنایا گیا ہے اوردرخت لگائے گئے ہیں۔
سی ویو
کراچی کا تیسرا ساحل سی ویو ہے جہاں بڑی تعداد میں شہریوں کی آمدورفت رہتی ہے، یہ مقام عبدالستار ایدھی ایونیو پر واقع ہے یہاں ڈیفنس ہاؤسنگ اتھارٹی نے تین پارکس بھی تعمیر کئے ہیں، ساحل پر ترقیاتی کام کرائے گئے ہیں، بیٹھنے کے لئے بینچز ہیں، واکنگ اور سائیکلنگ کے لئے ٹریک بنایا گیا ہے، کھانے پینے کی اشیاء فروخت کرنے والی کمپنیوں کی برانچز بھی ہیں، رات گئے تک شہریوں کی ایک بڑی تعداد ساحل پر موجود رہتی ہے۔ساحل کے سامنے رہائشی اپارٹمنٹس ہیں جس کی وجہ سے یہاں ہر وقت رونق رہتی ہے۔
سڑک کے ساتھ ساتھ مختلف ریسٹورنٹس اور فوڈ اسٹالز موجود ہیں جہاں اکثر رات میں لوگ کھانا کھاتے ہوئے ہیں، اس ساحل پر اگست 2017ء میں اے کے خان پارک تعمیر کیا گیا جس کا افتتاح لیفٹیننٹ جنرل شاہد بیگ مرزا صدر ایگزیکٹو بورڈ ڈی ایچ اے کراچی نے کیا تھا یہ اب بھی ہے جبکہ نشان پاکستان کے نام سے بھی ایک مونومنٹ تعمیر کیا گیا ہے جہاں پاکستان کا بہت بڑا پرچم لہرا رہا ہے، چنکی منکی پلے لینڈ کے علاوہ خیابان اتحاد کے سامنے اس ساحل پر ایک اور پارک بھی بنایا گیا ہے۔
اس طرح یہاں مختلف نوعیت کی تفریحی سہولیات شہریوں کے لئے دستیاب ہیں، آگے بڑھیں تو دو دریا ہے یہاں پر مختلف ریسٹورنٹس اپنے لذیز کھانوں کی وجہ سے مشہور ہیں اور بڑی تعداد میں شہری ان ریسٹورنٹس کا رخ کرتے ہیں۔ ریسٹورنٹس کے آخری حصے میں جو نشستیں ہیں ان پر بیٹھ کر یہ محسوس ہوتا ہے کہ آپ سمندر کے اوپر بیٹھے ہوئے ہیں، اس علاقے میں تیزی کے ساتھ عالمی سطح کی تعمیراتی کمپنیاں اپنے پروجیکٹس بنا رہی ہیں اور رہائش کے اعتبار سے یہ کراچی کا اب مہنگا ترین علاقہ بن چکا ہے۔
سینڈزپٹ
گلبائی سے ماری پور کی طرف جائیں تو سب سے پہلے جو ساحل آتا ہے اسے سینڈز پٹ کا نام دیا گیا ہے، اس کا مطلب ریت کا ٹیلہ ہوتا ہے ،یہاں پر مختلف سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کے 209 ہٹس بنے ہوئے ہیں جہاں ہفتہ، اتوار اور سرکاری تعطیلات میں ہزاروں شہری اپنے خاندان کے ہمراہ ساحل سمندر سے لطف اندوز ہونے کے لئے آتے ہیں، فروری2022 ء میں سینڈز پٹ پر ایک پرائیویٹ کمپنی نے واٹر اسپورٹس بنایا ، جس سے اس ساحل کی کشش میںاضافہ ہوا ہے، یہاں دنیا میں نایاب نسل کے گرین ٹرٹرلز کی افزائش بھی کی جاتی ہے، وائلڈ لائف کا ایک ادارہ بھی قائم ہیں جو تمبر کے خوبصورت جنگلات میں گھیرا ہوا ہے۔
ساحل کے ایک طرف خوبصورت تمبر کے درخت نظر آتے ہیں اور سائبریا سے آئے ہوئے پرندے بھی بڑی تعداد آپ کو مل سکتے ہیں، کچھ عرصے قبل تک یہاں کھانے پینے کی اشیاء دستیاب نہیں تھی لیکن اب مختلف ریسٹورنٹس اور ہوٹلز اس ساحل پر بن گئے ہیں جس کی وجہ سے اب کھانے پینے کی اشیاء آسانی سے دستیاب ہوتی ہیں، ساحل پر اونٹ اور گھوڑے کی سواری کے علاوہ بوٹس بھی ہیں جن سے شہری لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ہاکس بے
جب آپ ماری پور سے مچھلی چوک پہنچتے ہیں تو ایک راستہ دائیں جانب اور ایک راستہ بائیں جانب مڑتا ہے، دائیں جانب مڑنے والا راستہ آپ کو ہاکس بے لے جاتا ہے یہاں گیارہ ہزار ایکڑ رقبے پر مشتمل سب سے بڑی ساحلی رہائشی اسکیم بھی ہے لیکن تاحال یہ اسکیم آباد نہیں ہوسکی ہے، اسکیم ختم ہوتے ہی ہاکس بے کا طویل ساحل شروع ہوجاتا ہے یہ کیونکہ ایک پرسکون جگہ ہے اس لئے شہریوں کی ایک بڑی تعداد یہاں اکثر آپ کو نظر آئے گی، اطراف میں بلوچ خاندان آباد ہیں جن کے بزرگ اس پوری ساحلی پٹی پر امن و امان کی صورتحال کو یقینی بناتے ہیں ان کا کہنا ہے کہ اگر امن و امان کی صورتحال اطمینان بخش ہوگی تو شہری ساحل کا رخ کریں گے اور یہاں کے مقامی لوگوں کو روزگار کے مواقع میسر آئیں گے۔
پیراڈائز پوائنٹ
ہاکس بے سے آگے بڑھنے کے بعد ایک سڑک کینپ ایٹمی پلانٹ کی طرف جاتی ہے اس پلانٹ سے آگے جانے کے بعد پیراڈائز پوائنٹ شروع ہوتا ہے جب آپ وہاں داخل ہوتے ہیں تو قدرت کا وہ حسین شاہکار نظر آتا ہے جو ایک چٹان کی صورت میں ہے اور یہ چٹان میں بیچ سے خالی ہو کر انگریز لفظ زیرو کی شکل اختیار کرلی، جسے دیکھنے کے لئے لوگ بہت دور دور سے آیا کرتے تھے، پانی کی تیز لہروں کے مسلسل ٹکرانے کے بعد سے یہ چٹان اوپر سے ٹوٹ گئی ہے۔
ماضی میں یہاں پختہ سڑک بنائی گئی تھی اور شجر کاری کی گئی تھی، یہ ساحل اپنی چٹانوں اور سنہری ریت کی وجہ سے مقبول ہے، یہاں سے غروب آفتاب کا منظر دیکھنا انتہائی سحر انگیز ہے اس منظر کو دیکھنے کے لئے شہری اکثر شام گئے تک یہاں قیام کرتے ہیں اور سمندر کی لہروں اور موجوں سے محظوظ ہوتے ہیں۔
سنہرا پوائنٹ
پیراڈیزاڈ پوائنٹ کے بائیں طرف سہرا پوائنٹ نظر آئے گا، 2004ء میں یہاں ڈبل رویہ سڑک تعمیر کی گئی تھی جو پہاڑوں میں بل کھاتی ہوئی نظر آتی ہے، اس کے ایک جانب مبارک ویلیج ہے ،جبکہ دوسری جانب یہی سڑک حب کی جانب لے جاتی ہے ، یہی راستے پاور پلانٹ اور گڈانی شپ بریکنگ کی طرف بھی لے جاتے ہیں یہاں بارش کا پانی جمع کرنے کے لئے تین چھوٹے چھوٹے ڈیمز بھی تعمیر کئے گئے ہیں جب گاڑیوں میں سوار ہو کر اس سڑک پر سفر کرتے ہیں تو یہاں دو سو سال سے زائد پرانے گاؤں بھی نظر آتے ہیں جہاں لوگ صدیوں سے آباد ہیں۔
دریا حب کا وہ پوائنٹ بھی نظر آتا ہے جہاں سے یہ دریا سمندر میں گرتا ہے، سنہرا پوائنٹ پر دس کلو میٹر تک پہاڑ نظر آتے ہیں ،یہاں پر کشتیاں موجود ہیں جو شہریوں کو سمندر میں لے جاتی ہیں اور بعض مچھلی پکڑنے کے شوقین حضرات بھی ان سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔اس ساحل کا نام سنہرا پوائنٹ اس لئے پڑا کہ ساحل پر جو ریت موجود ہے وہ سنہری رنگ کی ہے اور بہت ہی صاف و شفاف ہے۔
مبارک ولیج ساحل
مبارک ولیج ساحل کراچی کا آخری ساحل ہے ،یہاں کا پانی انتہائی صاف و شفاف ہے۔ لکڑی کے چھوٹے چھوٹے گھر بنے ہوئے ہیں اس کے ایک جانب پہاڑ اور دوسری جانب ساحل ہے، کبھی کبھی سمندر کا شور اپنی جانب متوجہ کرتا ہے، مبارک ولیج پر پیراگلائنڈنگ بھی کی جاتی ہے، ایک سرکاری اسکول کے علاوہ ایک ڈسپنسری بھی یہاں موجود ہے، پرسکون ساحل ہونے کی وجہ سے اکثر لوگ اس کا رخ کرتے ہیں اور ساحل سمندر سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔
ساحل سمندر ہمیشہ سے لوگوں کے لئے پرکشش جگہ رہی ہے کیونکہ جو لطف ساحل سمندر پر بیٹھ کر سمندر کی موجوں، اس کی شور مچاتی لہروں اور ٹھنڈی ہواؤں سے آتا ہے وہ اور کہیں نہیں آسکتا۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے جس میں یہ خوبصورت ساحل خاص طور پر قابل ذکر ہیں ایسے ممالک جنہیں سمندر کی سہولت نہیں ہے وہ ان ساحلوں کے لئے ترستے ہیں، ہمارے ساحلوں کو بہتر کرنے کی ضرورت ہے اور اگر یہاں تفریحی، ثقافتی اور کھیلوں کی سہولیات مہیا کی جائیں تو یہ ساحل مزید پرکشش بن سکتے ہیں۔