گلشن اقبال کراچی

پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی آبادی کے لحاظ سے ایک ایسا شہر ہے جس میں ہر نسل ،مذہب اور زبان کے لوگ بستے ہیں، چنانچہ اس شہر میں ہر علاقے کی اپنی پہچان اور خصوصیات ہیں ۔ البتہ کئی علاقوں کی وجہ شہرت مشاہیر سے منسوب ان کے نام ہیں ۔کراچی کے مشرق میں واقع ایک ایسا ہی ایک علاقہ’’ گلشن اقبال ٹاون شپ ‘‘ہے جس کا شمار سابق صدر ایوب خان کے دور کے چند خوبصورت رہائشی منصوبوں میں ہوتا ہے۔ 

ادارہ ترقیات کراچی کی اسکیم کو رہائشی مقاصد کے لئے 1960 میں منظور کیا گیا تھا لیکن اس منصوبے پر عملدرآمد اگست 1965 میں شروع ہوا، جبکہ16 اپریل 1966 کو اس وقت کے کمشنر وچئیرمین ادارہ ترقیات کراچی سید دربارعلی شاہ نے اولڈ راوینز ایسوسی ایشن کے زیراہتمام یوم اقبال کے سلسلے میں نیشنل میوزیم باغ جناح فرئیر ہال میں منعقدہ ایک تقریب میں اس نئی رہائشی اسکیم گلشن اقبال کے قیام کا اعلان کیا تھا، جو کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی اصطلاحی زبان میں اسکیم 24 کہلاتی ہے، جس کا نام شاعر مشرق ، حکیم الامت علامہ محمد اقبال کے نام پر رکھا گیا تھا۔ 

باغ جناح میں ہونے والی اس تقریب کا اہتمام اولڈ راوینز ایسوسی ایشن نے کیا تھا۔ دو روزہ تقریب میں علامہ محمد اقبال کے خطوط اور کتابوں کو بھی نمائش کے لئے رکھا گیا تھا۔ اس تقریب کا افتتاح پاکستان میں متعین ایران کے سفیر ممتاز حسن ہوشنگ انصاری نے کیا تھا ۔نمائش میں ایران ۔عراق ۔ترکی اور روس کے مندوبین اور علامہ محمد اقبال کے عزیزوں و دوستوں نے شرکت کی تھا ۔نمائش میں شرکت کے لئے باقاعدہ اخبارت میں اشتہار دیا گیا تھا اور قومی اخبارات نے خصوصی نمبر شائع کئے تھے۔

گلشن اقبال کا علاقہ 12ہزار 664 ایکڑرقبے پر مشتمل ہے جو یونیورسٹی روڈ سابقہ کنٹری کلب روڈ کی دونوں جانب سوئی گیس ٹرمینل تک جاتا ہے۔ اس کے مشرق میں ملیرکنٹونمنٹ ۔ مغرب میں فیڈرل بی ایریا۔ شمال میں لیاری ندی (گڈاپ) اور جنوب میں جمشید روڈ واقع ہے۔گلشن اقبال کی آباد کاری کے لئے ادارہ ترقیات کراچی (کے ڈی اے) نے زمین محکمہ ریونیو اور قدیم زمینداروں سے نقد قیمتیں ادا کرکے خریدی تھیں۔ ادارہ ترقیات کراچی کی یہ اسکیم 1960میں منظور ہوئی تھی لیکن ترقیاتی کام کا آغاز 1965میں ہوا اسکیم کی تعمیری لاگت 4کروڑ 30لاکھ 76ہزار روپے مختص کی گئی تھی۔

اس رہائشی علاقے کو 19بلاکس میں تقسیم کیا گیا زمینوں کا رقبہ کم ازکم دو سو مربع گز اور زیادہ سے زیادہ دو ہزارمربع گز رکھا گیا۔ کراچی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی طرف سے یہاں ہاؤسنگ اسکیموں کو بھی زمین الاٹ کی گئیں۔ 1970کی دہائی میں حکومت کی طرف سے بلاک 4اے میں کراچی کے جید صحافیون کو رہائشی پلاٹ الاٹ کئے گئے تھے ۔

گلشن اقبال کراچی

2017 کی مردم شماری میں گلشن اقبال ٹاؤن کی آبادی کا تخمینہ تقریباً 841,800 ہے جس میں سے 99.5% مسلمان ہیں۔ یہاں مردوں کی تعداد 433،347، خواتین کی تعداد 408,298 اور خواجہ سراوں کی تعداد 155 ہے جبکہ حالیہ آبادی ایک محتاط اندازہ کے مطابق گیارہ لاکھ سے زائد ہے۔ یہاں کئی لسانی اکائیاں آباد ہیں۔ ان میں مہاجر، سندھی ، پنجابی، کشمیری، سرائیکی، پشتون ، بلوچی اور ہزارہ وال وغیرہ شامل ہیں۔ گلشن اقبال کو انتظامی طور پر گلشن اقبال پولیس اسٹیشن ، عزیز بھٹی پولیس اسٹیشن، مبینہ ٹاون پولیس اسٹیشن ، پی آئی بی پولیس اسٹیشن اور نیوٹاون پولیس اسٹیشن کی حدود میں تقسیم کیا گیا ہے۔

گلشن اقبال بلاک 1کا آغاز لیاری ایکسپریس وے سے ہوتا ہے 1960کی دہائی میں بلاک 1 اور 2 میں لیاری ندی کے ساتھ دیہی زمینیں پھیلی ہوئی تھیں جہاں کاشت کاری کی جاتی تھی جبکہ کنٹری کلب کے نام سے ایک تفریحی کلب بھی ہوا کرتا تھا۔ اس کلب کی وجہ سے یونیورسٹی روڈ کا پرانا نام کنٹری کلب روڈ کہلاتا تھا تاہم اس زمین پر اب عابد ٹاؤن کے نام سے رہائشی بنگلے اور کثیر المنزلہ فلیٹس تعمیر ہوچکے ہیں۔ سابق صدر جنرل مشرف کے دور میں بلدیاتی نظام متعارف کرائے جانے کے ساتھ ہی کراچی ڈویژن اوراس کے اضلاع کا خاتمہ کرکے کراچی شہری ضلعی حکومت کا قیام عمل میں لایا گیا تھا۔ 

اس نظام کے نتیجے میں شہر کو 18 قصبہ جات (ٹاؤنز) میں تقسیم کردیا گیا ۔ گلشن اقبال ٹاون کی سطح پرانتظامی لحاظ سے 13یونین کونسلوں پر مشتمل تھا، جن میں دہلی سوسائٹی۔ سوک سینٹر۔پیرالہی بخش کالونی(پی آئی بی کالونی)،عیسی نگری ، گلشن اقبال،گیلانی ریلوے اسٹیشن ، شانتی نگر ، جمالی کالونی ، گلشن اقبال ۲ پہلوان گوٹھ ، میٹروول کالونی ، گلزار ہجری اور صفورا گوٹھ شامل تھے۔ 2011 میں سابق صدر آصف علی زرداری کے دور حکومت میں اس نظام کو ختم کر دیا گیا لیکن 2015 میں جب کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کا نظام دوبارہ متعارف کرایا گیا تو گلشن ٹاؤن کو کراچی ضلع شرقی کے حصے کے طور پر دوبارہ منظم کیا گیا ۔ گلشن اقبال میں کراچی کی چھ اہم سڑکیں ہیں۔ ان میں یونیورسٹی روڈ سینٹرل جیل سے شروع ہوکر صفورہ چورنگی سے آگے ملیر کینٹ کی طرف جاتی ہے۔ 

سرشاہ سلیمان روڈ لیاقت آباد نمبر10سے شروع ہوکر نیشنل اسٹیڈیم پر ختم ہوتی ہے ۔ راشد منہاس روڈ سہراب گوٹھ (سپرہائی وے ) سے شروع ہوتا ہے اور شارع فیصل تک جاتا ہے ، شبیر احمد عثمانی روڈ یاسین آباد ( لیاری ایکسپریس وے) سے شروع ہوتا ہے اور مسکن اپارٹمنٹ چورنگی تک جاتا ہے۔ صہبا اختر روڈ سرشاہ سلیمان روڈ سے شروع ہوکر براستہ گلشن اقبال بلاک 13 ڈی کے درمیان سے گزرتا ہوا موچی موڑ اسٹاپ تک جاتا ہے۔ ابوالحسن اصفہانی روڈ سپرہائی وے (سہراب گوٹھ ) سے شروع ہوتا ہے اور سفاری پارک فلائی اوور پر اختتام پذیرہوتا ہے۔ بعض سڑکوں کی چورنگیاں ختم کرکے ان کو سگنل فری کردیا گیا ہے اور چورنگی کی جگہ فلائی اوور اور انڈرپاس تعمیر کئے گئے ہیں لیکن اکثر مقامات کی شناخت اب بھی ان چورنگیوں نام سے ہوتی ہے ۔ جیسا کہ گلشن چورنگی اور نیپا چورنگی وغیرہ۔ 

ٹاون شپ میں فراہمی و نکاسی آب کا نظام دوسرے علاقوں کے مقابلے میں کافی بہتر ہے، زیادہ تر علاقوں میں واٹر بورڈ کی پائپ لائن کے ذریعے پانی تین دن کے وقفے سے سپلائی ہوتا ہے، بجلی کی ترسیل بھی دیگر علاقوں نسبت بہتر ہے، البتہ سوئی گیس کی لوڈ شیڈنگ میں دن بہ دن اضافہ دیکھنے میں آرہا ہے ۔ پوش علاقوں میں نکاسی آب کا نظام بہتر ہے، جبکہ متعدد علاقوں میں سیوریج لائنیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں۔ سڑکوں اور گلیوں میں جگہ جگہ سیوریج کا پانی کھڑا رہتا ہے۔ اپارٹمنٹ مناسب دیکھ بھال نہ ہونے کی وجہ سے انتہائی خراب اور بوسیدہ دکھائی دیتے ہیں۔ بیشتر پرانے فلیٹوں کے سیوریج نظام خراب ہونے کی وجہ سے فلیٹس بدنما اور گندے ہوتے جارہے ہیں۔ 

یہاں ٹریفک کے مسائل دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت زیادہ ہیں اس کی بنیادی وجہ بڑی تعداد میں شاپنگ سینٹر، تفریحی مقامات، اسکول، یونیورسٹی اور نجی تعلیمی ادارے ہیں جبکہ سروس روڈ اور فٹ پاتھ اور گرین بیلٹ پرمافیا نے قبضہ کرکے ہوٹل ،ریسٹورنٹ کھول لئے ہیں، جہاں شام اور رات کے اوقات میں بے پناہ رش ہوتا ہے ۔سڑکوں کی حالت زار بھی افسوسناک ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں اور پارکنگ کا مناسب انتظام نہ ہونے کی وجہ سے ٹریفک کے مسائل روز بروز گھمبیر ہوتے جارہے ہیں۔ اسکول اور یونیورسٹی کے اوقات میں وین اور پرائیوٹ گاڑیوں کا ایک اژدہام ہوتا ہے ۔

گلشن اقبال میں کھیلوں کا عالی شان میدان نیشنل اسٹیڈیم واقع ہے، جس کا شمار ملک کے چند اہم کھیل کے میدانوں میں ہوتا ہے ۔ نیشنل اسٹیڈیم کراچی کو 26 فروری 1955 کو کرکٹ کلب آف انڈیا بمبئی کی طرز پر بنایا گیا تھا ۔ اس کا نقشہ ممبئی میں برابورن اسٹیڈیم کے آرکیٹیکٹ نے تیار کیا تھا جبکہ1984میں سابق صدرمملکت جنرل محمد ضیا الحق نے ایک صدارتی حکم کے ذریعے پلانیٹیریم بنانے کی ہدایت کی تھی ۔ حکومت نے گلشن اقبال میں موجود اہم تعلیمی اداروں اورشہر کے مرکزی اورآسانی کے پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے یونیورسٹی روڈ پرپی آئی اے پلانیٹیریم ( معلوماتی سیارہ گھر) تعمیر کیا تھا، تاکہ طالب علموں کی بڑی تعداد اسے دیکھ سکے لیکن مجاز اداروں کی غفلت کی وجہ سے پلانیٹیریم زبوں حالی کا شکار ہے۔ 

اس میوزیم میں داخل ہونے پرسامنے پی آئی اے کا پرانا جہاز کھڑا نظر آئے گا ۔پلانیٹیریم سے متصل ایکسپو سینٹر کراچی کی عمارت واقع ہے جو بنیادی طور پر نمائشوں کے لیے مخصوص ہے۔ 2000 ءمیں پہلی مرتبہ جنگی ساز وسامان کی بین الاقوامی نمائش آئیڈیاز شروع ہوئی تھی ۔دفاعی نمائش ہر دو سال کے بعد منعقد کی جاتی ہے،جس میں اسلحہ اور دفاعی مصنوعات بنانے والی کمپنیاں اور ادارے شرکت کرتے ہیں۔

1980 کی دہائی میں گلشن اقبال کے رہائشیوں کو سرکلر ریلوے کی صورت میں صاف ستھری بہترین سفری سہولت میسر تھی ، بعد ازاں اس منصوبے کو خسارے کا جواز بناکر بند کردیا گیا۔متروکہ گیلانی ریلوے اسٹیشن‘‘اسی بہترین سروس کی اجڑی یادگار ہے ۔ گلشن اقبال کے اہم مقامات میں ریڈیو پاکستان کراچی کی عمارت ۔ ہیڈ آفس سوئی سدرن گیس ۔پی آئی اے پلانٹیریم میوزیم۔ نیشنل انسٹیٹیوٹ آف پبلک ایڈمنسٹریشن۔ دفترسینٹرل بورڈ آف ریونیو۔ نیلاٹ ۔ اکاؤنٹنٹ جنرل سندھ ۔ ہیڈ آفس سندھ ایمپلائز سوشل سکیورٹی انسٹیٹیوشنز ۔اے جی پی آر ۔ موتمر عالم اسلامی ۔ابن سینا اسپتال۔ کینسر فاونڈیشن اسپتال۔سندھ انفکیشن ڈزیز اسپتال اینڈ ریسرج سینٹر۔ آغاخان اسپتال۔لیاقت نیشنل اسپتال رب میڈیکل سینٹر،اشفاق میموریل اسپتال، المصطفی میڈیکل سینٹر،سرسید یونیورسٹی، وفاقی اردو یونیورسٹی ،عثمان انسٹیٹیوٹ آف ٹیکنالوجی خواتین اسلامک یونیورسٹی واقع ہیں، جبکہ تفریحی مقامات میں الہ دین پارک،عزیز بھٹی پارک،سفاری پارک ،سندباد ،جمشید انصاری پارک، وومن فٹبال اسٹیڈیم سمیت دیگر شامل ہیں، یہاں کی اہم مساجد میں جامع بیت المکرم،جامعہ اشرف المدارس،مسجد امام ابن تیمیہ،جامع مسجد فاروق اعظم،صدیق اکبر مسجد ،مدنی مسجد جامع احسن العلوم،گیلانی مسجد اور مسجد ہدیٰ شامل ہیں۔ 

گلشن اقبال میں شانتی نگر مشہور علاقہ ہے، یہاں مسلمانوں کے علاوہ ہندو اور عیسائی مذہب سے تعلق رکھنے والے بھی رہائش پذیر ہیں، اسی طرح عیسیٰ نگری کے نام سے ایک آبادی ہے یہاں کے رہائشیوں کی بڑی تعداد مسیحی مذہب سے تعلق رکھتی ہے اس علاقے میں 90فیصد مسیحی اور 10فیصد مسلمان ہیں ۔ رومن کیتھولک چرچ اور مسیحی قبرستان بھی ہے، جبکہ یہاں اقلیتی برادری کے دیگر کئی چرج اور عبادت گاہیں بھی ہیں ۔ گلشن اقبال سے کراچی کے ہرعلاقے میں بسیں اور ویگنیں جاتی ہیں۔

اس خبر پر اپنی رائے کا اظہار کریں

اپنا تبصرہ بھیجیں