اگر ہم کراچی کی سندھ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں بہت سی شخصیات ایسی نظر آئیں گی جنہوں نے سندھ میں علم و ادب اور تہذیب ثقافت کی ترویج و اشاعت میں اہم کردار ادا کیا ہے اور اپنی زندگیاں آنے والی نسل کے لئے وقف کردیں، ان میں،حسن علی آفندی، نارائن جگن ناتھ واڈیا ، دیا رام جیٹھ مل ، جمشید نسروانجی مہتا، ہوشنگ نادر شاہ ادولجی ڈنشا، بابائے اردو مولوی عبدالحق ،ایم اے قریشی، حکیم محمد سعید ، ڈاکٹر نبی بخش بلوچ، پیر حسام الدین راشدی، علامہ غلام مصطفی قاسمی، ڈاکٹر غلام مصطفی خان، ڈاکٹر حمیدہ کھوڑو، انیتا غلام اور دیگر شامل ہیں تعلیم کے میدان میں ایک تعلیمی ادارہ یکم ستمبر 1885 ء کو، سندھ کے دارالخلافہ کراچی میں قائم کیا گیا، اس کو قائم کرنے کا مقصد مسلمانوں کے بچوں کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ زیور تعلیم سے آراستہ کرنا تھا۔
اس کا نام سندھ مدرستہ الاسلام رکھا گیا، یہ عمارت کراچی کے مصروف ترین کاروباری علاقے میں واقع ہے، ایک جانب آئی آئی چندریگر روڈ جبکہ دوسری جانب شاہراہ لیاقت ہے۔ آئی آئی چندریگر روڈ کی جانب سے اگر سندھ مدرسے کی جانب آیا جائے تو حبیب بینک پلازہ کے عقب میں کراچی چیمبر آف کامرس کراچی کی تاریخی عمارت کے بالمقابل ہے، اس عمارت کے اطراف میں سٹی ریلوے اسٹیشن ، اسٹیٹ بینک آف پاکستان، پاکستان اسٹاک ایکسچینج، نیشنل بینک آف پاکستان کا ہیڈ آفس اور میریدور ٹاور موجود ہے، اس تاریخ ساز ادارے کی مرکزی عمارت کا سنگ بنیاد گورنر جنرل ووائسرائے آف انڈیا، لارڈ ڈفرن نے 14نومبر 1887ء میں رکھا تھا۔
یہ عمارت گوتھک طرز تعمیر کا خوبصورت شاہکار ہے جس کا ڈیزائن کراچی میونسپلٹی کے انجینئر جیمس اسٹریجن نے بنایا تھا۔ سندھ مدرسے کی دوسری قدیم عمارت حسن علی آفندی لائبریری ہے۔ یہ عمارت 19ویں صدی کے آخری دنوں میں خیر پور ریاست کے ٹالپر حکمرانوں کی مالی معاونت سے پرنسپل ہائوس کے طور پر تیار کی گئی تھی۔ 1985ء میں اس عمارت کو لائبریری میں تبدیل کیا گیا تھا، آج اس لائبریری میں 20 ہزار سے زائد کتابیں موجود ہیں، جن میں ایک صدی قدیم کتابیں بھی شامل ہیں۔ سندھ مدرسے کی ایک اور خوبصورت عمارت تالپور ہائوس ہے جو ،جدید اور اسلامی طرز تعمیر کا ایک خوبصورت امتزاج ہے۔
یہ عمارت بھی سندھ کے سابق ٹالپر حکمرانوں کی مالی اعانت سے جولائی 1901ء میں تعمیر کی گئی تھی۔ ابتداء میں ٹالپر ہائوس سندھ مدرسے میں ٹالپر حکمرانوں کے زیر تعلیم بچوں کے لئے بورڈنگ ہائوس کے طور پر زیر استعمال تھا۔ قائداعظم اور دیگر شخصیات جو سندھ مدرسے سے وابستہ رہیں ان کے استعمال کی اشیاء اور نوادرات کیلئے جناح میوزیم بھی ہے۔
اس ادارے کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح نے 1887 ء سے 1892 ء تک اس ادارے میں ابتدائی تعلیم حاصل کی،1887ء میں سندھ مدرستہ الاسلام کے قیام کے دو سال بعد قائداعظم ؒمحمد علی جناح نے اس مادر علمی میں داخلہ لیا۔ آپ ساڑھے چار سال اس ادارے میں رہے۔ قائداعظم کو اپنی مادر علمی سے اس قدر محبت تھی کہ انہوں نے وصیت میں اپنی جائیداد کا ایک تہائی حصہ اس ادارے کے نام کر دیا تھا۔
قائد اعظم محمد علی جناح کی یہ تعلیمی درس گاہ برصغیر پاک و ہندکے مسلمانوں کا علی گڑھ کالج کے بعد دوسرا جدید ترین علمی ادارہ تھا، اس ادارے میں تعلیم حاصل کرنے والے طلبہ نے قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان میں مرکزی کردار ادا کیا، اس درس گاہ کا قیام سندھ کے مسلمانوں کی ان اولین کاوشوں میں سے تھا جو انہوں نے معاشرتی ، معاشی، سیاسی اور تعلیمی بہتری کے لئے کی۔
یہاں یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں ہوگی کہ جب یونیورسٹی آف بمبئی نے سندھ میں پہلی مرتبہ 1870 ء میں میٹرک کا امتحان منعقد کیا تب مسلمان سندھ کی آبادی کا پچھتر فیصد حصہ تھے مگر اس وقت کوئی ایک بھی مسلمان اس امتحان کو پاس نہ کرسکا، خان بہادر حسن علی آفندی اور سرسید احمد خان نے علی گڑھ کالج اور کلکتہ کے جسٹس سید امیر علی سے متاثر ہو کر یہ اہم ترین ادارہ قائم کیا، ان تینوں شخصیات نے معاشرتی اصلاح اور علم کی ترویج و اشاعت کے لئے تعلیم کو اپنا ذریعہ بنایا، سندھ مدرستہ الاسلام کا افتتاح سندھ بھر کے مسلمانوں کے لئے ایک خوشگوار تبدیلی کا باعث بنا اور سندھ کے مختلف حصوں سے طلبہ نے اس مدرسے میں داخلہ لیا۔ یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ سندھ مدرستہ الاسلام جہاں ایک طرف مسلمانوں کی بہتری کی غرض سے قائم کیا گیا تھا ،وہیں اس کے دروازے برادری کے اصول کے تحت ان تمام لوگوں کے لئے کھلے تھے جن کا تعلق دیگر مذاہب سے تھا۔
سندھ مدرستہ الاسلام میں ہر سال دس فیصد طلبہ غیر مسلم ہوتے تھے، جن کا تعلق مختلف اقلیتوں سے ہوتا تھا، غیرمسلم طلبہ کے علاوہ متعدد غیر مسلم ٹیچرز بھی اس ادارے میں اپنی خدمات سر انجام دیتے تھے، ادارے کے کثیر الاثقافتی ، بین الامذاہب اور روشن خیال ماحول کے سبب یہاں بھائی چارے کو فروغ دیا اور ایک دوسرے کے مذہب کو برداشت کرنے ان کے ساتھ سماجی تعلق رکھنے اور ایک دوسرے کے مذہب اور فرقے کا احترام کرنے کا درس بھی دیا۔
قائد اعظم نے ہی اپنی مادر علمی کو اسکول سے کالج کا درجہ بھی دلوایا اور 21 جون1945 ء کو سندھ مدرستہ الاسلام کالج کا افتتاح کرنے ذاتی طور پر تشریف لائے، اس موقع پر وہ آبدیدہ اور جذباتی بھی ہوئے اور اپنی یادوں کو اپنےخطاب کے دوران دہرایا اور حاضرین کو بتایا کہ، انہیں اس ادارے کے شاندار میدان کا ایک ایک انچ یاد ہے، یہ وہ ادارہ ہے جہاں انہوں نے تعلیم حاصل کی اور 55 سال قبل ایک اسکول کے بچے کے طور پر یہاں کھیلا کرتے تھے، قائد اعظم نے کہا کہ اس ادارے کے عظیم الشان میدانوں میں ، میں نے مختلف کھیلوں میں حصہ لیا اور پڑھا ہوں۔ آج مجھے خوشی ہے کہ میں اسے کالج کا درجہ دے رہا ہوں۔‘‘
ان کی اس خطاب کو اس وقت کے ’’روزنامہ اسٹار آف انڈیا ‘‘نے نمایاں طور پر شائع کیا۔ قائداعظم کے علاوہ سندھ مدرستہ الاسلام میں سندھ کو بمبئی ریذیڈینسی سے علیحدہ کرنے کے لئے جدوجہد کرنے والی دیگر قیادت نے بھی تعلیم حاصل کی اور ان کی یہ کاوش آگے چل کر پاکستان بننے کے اسباب میں بھی شامل ہوئی۔ ان قائد ین میں سر شاہ نواز بھٹو، سر عبداللہ ہارون، سر غلام حسین ہدایت اللہ، خان بہادر محمد ایوب کھوڑو، شیخ عبدالمجید سندھی اور دیگر شامل تھے۔
اس کے شاندار ماضی کے سبب معروف ماہر تعلیم اور سندھ مدرستہ الاسلام کے سابق طالب علم غلام محمد مصطفی شاہ نے سندھ مدرستہ الاسلام کو طفل سندھ اور مادر پاکستان قرار دیا۔ آزادی کے رہنمائوں کے علاوہ سندھ مدرستہ الاسلام نے شاندار ماہر تعلیم ، قانون داں اور دانشوروں کی ایک بڑی تعداد بھی پیدا کی، جن میں علامہ آئی آئی قاضی، علامہ عمر بن دائود پوتہ، اے کے بروہی، علی احمد بروہی، لیفٹیننٹ جنرل غلام محمد اور دیگر شامل ہیں ،جنہوں نے اس ادارےکی ترقی میں مزید اضافہ کیا۔
اسی طرح سندھ مدرسے کے نامور طلباء میں سرعبداللہ ہارون، سر شاہنواز بھٹو، سر غلام حسین ہدایت اللہ خان، خان بہادر محمد، ایوب کھوڑو، شیخ عبدالمجید سندھی، علامہ آئی آئی قاضی، محمد ہاشم گزدر، غضنفر علی خان، چودھری خلیق الزماں، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ، محمد ابراہیم جویو، جسٹس سجاد علی شاہ، قاضی محمد عیسیٰ، رسول بخش پلیجو، پیرالٰہی بخش، میر غوث بخش بزنجو، عطا اللہ مینگل، غلام محمد بھر گڑی، علامہ علی خان ابڑو، جی الانہ، حکیم محمد احسن، موسیقار، سہیل رعنا، فلمسٹار ندیم، قومی ترانے کی دھن کے خالق احمد علی چھاگلہ، میران محمد شاہ، قاضی فضل اللہ، لٹل ماسٹر، حنیف محمد اور بے شمار اہل علم، شعراء، ادباء، وکلاء اور سیاست دان شامل ہیں۔
سندھ مدرسۃ الاسلام کے بانی حسن علی آفندی سندھ کے ایک غریب گھرانے میں 14 اگست 1830ء میں پیدا ہوئے۔ آپ کا تعلق اخوندخاندان سے تھا ۔ان کے آبائو اجداد ترکی سے ہجرت کر کے حیدر آباد میں آباد ہوئے تھے۔ انہوں نے وکالت کی تعلیم حاصل کی۔ حسن علی آفندی کے فلاحی کارناموں کے اعتراف میں برطانوی سرکار نے انہیں ’’خان بہادر‘‘ کا خطاب دیا۔ آپ مسلم لیگ پارلیمانی بورڈ اور 1934ء سے 1938 تک سندھ کی قانون ساز اسمبلی کے رکن بھی رہے۔ ان کا انتقال 20اگست 1895ء میں ہوا۔
حسن علی آفندی ،سندھ مدرسۃ الاسلام کے قیام کے وقت 1885ء اس کے پہلے مینجمنٹ بورڈ کے صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کی وفات کے بعد ان کے سب سے بڑے بیٹے مسٹر علی محمد نے اپنے والد حسن علی آفندی کی جگہ سنبھالی، انہوں نے اس وقت محسوس کیا کہ مدرسہ کے انتظامات درست نہیں چل رہے لہٰذا ادارے میں تبدیلی لانے کا فیصلہ کیا۔
اس مسئلہ کو حل کرنے کیلئے اس وقت برٹش حکومت سندھ میں سرگرم عمل تھی۔ ان کی کوششوں سے از سر نو سندھ مدرسۃ الاسلام کا مینجمنٹ بورڈ تشکیل دیا گیا۔30 نومبر 1896کو مسٹر ایچ ای یو جیمز کمشنر سندھ کو صدرجب کہ آرجائلز، کلکٹرکراچی کو نائب صدرمنتخب کیا گیا۔ Mr. HS. Lawrence خان بہادر شیخ صادق علی، شیر علی، سیٹھ غلام حسین چھاگلہ، خان بہادر خداداد خان، سیٹھ معیز الدین جے عبدالعلی، مسٹر محمد حسین، میاں خیر محمد ابدالی اور ڈاکٹر جے ایف مرزا، مرزا لطف علی بیگ، پرنسپل مسٹر ولی محمد نے بطور سیکرٹری بورڈ میٹنگ میں شامل تھے، مگر کچھ عرصے بعد ہی ولی محمد اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے۔
پرنسپل کی رخصتی کے بعد، وائس پرنسپل مسٹر ڈی پی کوٹلہ کوپرنسپل کا چارج دیا گیا ،جو ایک سال اپنے عہدے پر فائز رہے۔ اس دوران خیر پور ریاست نے پیشکش کی کہ اگر یورپین پرنسپل سندھ مدرسۃ الاسلام میں مقرر کیا گیا تو ریاست سالانہ 12ہزار روپے ماہوار گرانٹ دے گی، لہٰذا اس پیشکش کو قبول کرتے ہوئے یورپین پرنسپل کی تلاش شروع کر دی گئی اور مسٹر پیری ہائیڈکو پرنسپل نامزد کر دیا گیا۔ انہوں نے چھ سال 1897-1903ء تک اپنی خدمات انجام دیں۔ سندھ مدرسۃ الاسلام کے دیگر پرنسپلز میں اے ایم میتھیواینگلو انڈین ، ڈاکٹر عمر بن محمد دائود پوتہ،1930ء تک پرنسپل رہے، ان کے بعد مسٹر ہیمیسن پرنسپل مقر ہوئے۔
سندھ مدرسے کی134سال پر محیط تاریخ میں یہاں سے کئی تاریخی شخصیات فارغ التحصیل ہونے کے بعد مسلم امہ کے لیے فقیدالمثال کارہائے نمایاں انجام دیتی رہیں۔
سندھ مدرستہ الاسلام کی شاندار خدمات کے اعتراف میں اسے یونیورسٹی کا درجہ دینے کا فیصلہ کیا گیا ، یونیورسٹی کے قیام کا بل دسمبر 2011 ء میں سندھ اسمبلی سے منظور ہوا اور 21 فروری 2012 ء کو اس وقت کے گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد خان نے مدرستہ الاسلام یونیورسٹی کا چارٹر منظور کیا اور یونیورسٹی کے قیام سے ایک صدی پرانے خواب نے حقیقت کا روپ دھار لیا۔ 2012 ء میں ہی پہلے تعلیمی سیشن کا آغاز ہوا، مدرستہ الاسلام کا پہلا کیمپس کے طور پر ملیر کیمپس کا سنگ بنیاد رکھا جاچکا ہے اور اس کے لئے سو ایکڑ زمین سندھ کی صوبائی حکومت نے بلامعاوضہ فراہم کی ہے، یہ تاریخی درس گاہ ہمارا قومی اثاثہ ہے اور مستقبل کے معماروں کی تعلیم و تربیت میں اپنا اہم کردار ادا کر رہی ہے۔