تقریباً ایک سو پچیس برس پہلے کراچی سے چالیس کلو میٹر دور منگھوپیر کی پہاڑیوں کے دامن میں قائم ہونے والا جذام اسپتال ازخودایک تاریخ ہے، بہترین اور مثالی کارکردگی،انسانیت کی خدمت اور جذام کے خلاف جدوجہد کی ایک داستان لپروسی اسپتال منگھوپیر ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ عہد قدیم سے ہی جذام یا کوڑھ کے مرض نے ہمیشہ دنیا بھر کے انسانوں کو انتہائی دہشت زدہ رکھا ہوا ہے، اس مرض میں مبتلا مریضوں کی جلد سن اور رنگت تبدیل ہوتی ہے، گرم و سرد کا احساس جاتا رہتا ہے، عضلات شل ہوجاتےاور کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں، بھنوؤں کے بال گرنے لگتے ہیں، چہرا سوج جاتا ہے،ہاتھ پاؤں اور جسم کے دوسرے اعضاء موم کی طرح پگھلنے لگتے ہیں ،جس سے مریض انتہائی خوف ناک شکل اختیار کرجاتا ہے۔ ابتداء میں جب اس مرض کا علاج شروع نہیں ہوا تھا تو مریض کو مرنے کے لئے دور دراز علاقوں میں چھوڑ دیا جاتا تھا تاکہ یہ مرض دوسرے کسی شخص کو منتقل نہ ہوسکے۔اللہ تعالیٰ کا کرنا یہ ہوا کہ 1896ء میں ایک بنگالی ڈاکٹر، بی ایل رائے ایک تقریب میں منگھوپیر میں گرم چشمے کے کنارے پکنک منانے آئے تو انہوں نے دیکھا کہ کھلے آسمان تلے جذام میں مبتلا مریض بے یار و مددگارکھلے آسمان تلے پڑے ہیں، ان مریضوں میں بھارت، ایران، افغانستان اور دیگر ملکوں کے مختلف علاقوں سے آئے ہوئے مریض شامل تھے۔
انہیں اس بات کا یقین دلایا جاتا تھا کہ وہ گرم پانی کے چشمے سے نہا کرصحت یاب ہوجائیں گے، دوسری بات یہ تھی کہ عزیز و اقارب اس خوف میں مبتلا رہتے کہ کہیں یہ مرض انہیں نہ لگ جائے ان مریضوں کو یہاں چھوڑ دیتے تھے ،اور وہ تڑپ تڑپ کر مر جاتے تھے۔ ڈاکٹر بی ایل رائے نے اس ساری صورتحال کو دیکھتے ہوئے کچھ پیسے جمع کئے اور ایک خانقاہ تعمیر کرائی، تاکہ ان مریض کو جنہیں مرنے کے لئے ان کے خاندان کے افراد یہاں چھوڑ گئے ہیں کچھ سہارا ملے، خانقاہ کا افتتاح بھی 1896 ء میں ہی کیا گیا، 27 برس تک اس خانقاہ کے علاوہ ان مریضوں کے لئے کچھ نہ ہوسکا اور جذام میں مبتلا کئی مریضوں نے تڑپ تڑپ کر اپنی جان دے دی۔
خانقاہ کے علاوہ علاج معالجے کی کوئی خاطر خواہ سہولیات میسر نہیں تھی، پھر 1923 ء میں چار ممتاز افراد پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں کلکٹر آف کراچی کو صدرآر ایس سیٹھ، آر ایس جوکا رام ڈنومل کو نائب صدر، جمشید نسروانجی مہتا اوربھگو مل کو ممبران کے طور پر کمیٹی میں رکھا گیا،ان ممبران کے علاوہ بھی دیگر اہم شخصیات کو ان مریضوں کی دیکھ بھال کی دعوت دی گئی تاکہ زندگی سے مایوس ان مریضوں میں امید کی کرن جاگ جائے اور یہ شخصیات ان کی دیکھ بھال میں معاونت کرسکیں۔
کمیٹی نے مریضوں کو کھانا کھلانے کی سہولتیں فراہم کرنا شروع کیں اور 1923 ء میں ہی دو نئے وارڈ تعمیر کئے جن میں 34 مریضوں کو علاج معالجے، کھانے پینے اور کپڑے فراہم کرنے کی سہولت دی گئی۔1944 ء میں ہیلتھ سروے اینڈ ڈویلپمنٹ کمیٹی مرکزی حکومت انڈیا کی اس وقت کی سروے رپورٹ کے مطابق یہ اسپتال ایک بڑا ادارہ بن چکا تھا ،جس میں 200 سے زائد مریضوں کی گنجائش تھی یہاں مریضوں کے قیام، طعام اور علاج کا بہترین انتظام تھا، کراچی کے پہلے میئر اور ممتاز سماجی شخصیت جمشید نسروانجی مہتا جو اس کمیٹی کے ممبر تھے اگلے تیس برس تک انتہائی سرگرمی کے ساتھ ان مریضوں کی خدمت کرتے رہے۔ 1952 ء میں جمشید نسروانجی نے اپنی زندگی کے آخری ایام بھی اس اسپتال میں مریضوں کے ساتھ گزارے ۔ان کا کہنا تھا کہ ان مریضوں کو علاج کے علاوہ محبت اور دوستی کی اشد ضرورت ہے۔ جمشید نسروانجی آخری دم تک جذام کے ان مریضوں کے ساتھ رہے، جو ہمدردی، محبت اور تیمارداری کی ایک روشن مثال ہے۔
1947ء میں جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اس اسپتال کی دیکھ بھال پاکستان لپروسی ریلیف ایسوسی ایشن نے اپنےذمے لے لی ، اس تنظیم کے سربراہ ڈاکٹر امین عبدالحفیظ تھے،1960ء تک یہ اسپتال اسی ادارے کے زیر انتظام رہا۔ جولائی 1960 ء میں یہ فیصلہ کیا گیا کہ اسپتال کا انتظام و انصرام بلدیہ کے سپرد کردیا جائے تاکہ اسپتال کو مزید بہتر بنایا جائے، صاف پانی کے حصول کے لئے تگ و دو کی جائے اور مریضوں کو بہتر سہولیات مہیا کی جائیں، ڈاکٹر ایم مظفر کو میڈیکل سپرنٹنڈنٹ آفیسر مقرر کیا گیا، جبکہ 1962ء میں بلدیہ کے ایک اور ڈاکٹر سید جعفر علی ہاشمی کو اسپتال کا میڈیکل انچارج مقرر کیا گیا۔
بلدیہ کراچی نے 1963 ء میں لپروسی اسپتال کے لئے پہلی مرتبہ باقاعدہ بجٹ مختص کیا جو دو لاکھ روپے تھا، اس میں 70 ہزار 500 روپے انتظامی اخراجات اور ایک لاکھ 22ہزار 500 روپے مریضوں کے علاج اور سہولتوں کی فراہمی کے لئے مختص کئے گئے، یہ اقدام جذامی مریضوں کو باقاعدہ اور مسلسل طبی سہولتیں مہیا کرنے کے لئے اٹھایا گیا جو اس سے قبل ایسوسی ایشن کے اشتراک سے کیا جاتا تھا، یوں یہ اسپتال بلدیہ کے زیر انتظام ایک باقاعدہ طبی ادارہ بن گیا۔
1963ء میں ہی دو عیسائی بہنوں نے اعزازی طور پر لپروسی اسپتال میں خدمات انجام دینا شروع کیں، مریضوں کو صحت کی ضروری بنیادی تعلیم کے ساتھ ساتھ دوائیں، خوراک اور کپڑے بھی فراہم کئے جانے لگے، بلدیہ کراچی نے ایک اور سماجی تنظیم جرمن ویلفیئر سوسائٹی کے تعاون سے ایک ڈاکٹر اور دو اسٹاف نرسوں کو اسپتال میں تعینات کردیا ،تاکہ مریضوں کو بروقت طبی امداد دی جاسکے۔1966 ء میں لپروسی انٹرنیشنل مشن نے ڈاکٹر گریس وارن ،کو اسپتال بھیجا، ان کا تعلق آسٹریلیا تھا اور یہ ماہر ڈاکٹر تھے، ڈاکٹر گریس نے اس اسپتال میں انتہائی مہارت کے ساتھ پیوند کاری کے کام کا آغاز کیا، بعدازاں اسی اسپتال میں بھارت کے ڈاکٹر پال برانڈٹ نے بھوؤں کی جراہی، ناک کی پیوندکاری اور کچھ پٹھوں کی پیوندکاری کا کام بھی کیا۔
بلدیہ کراچی نے شہر کے مختلف علاقو ں میں بڑے بڑے طبی سینٹرز تعمیر کرنے کا آغاز کیا تو منگھوپیر میں اسی مقام پر 300 بستروں کا اسپتال تعمیر کرنے کے ساتھ ساتھ جذام میں مبتلا مریضوں کے لئے ایک کالونی تعمیر کرنے اور شہر کے مختلف علاقوں سے 5ہزار سے زائد جذامی مریضوں کو وہاں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا جو کسی غیر سرکاری ادارے کے لئے انتہائی مشکل کام تھا ،لہٰذا بلدیہ نے اس اسپتال کا انتظام سنبھال کر یہ قدم اٹھایا، آپ کو یاد ہوگا کہ آئی آئی چندریگر روڈ، روزنامہ جنگ کے دفاتر کے قریب ریلوے کے ساتھ ساتھ ایک ایسی بستی آج بھی آباد ہے جہاں جذام میں مبتلا مریض رہتے ہیں، یہ کالونی بھی جذام کے مریضوں کے لئے تعمیر کی گئی تھی لیکن پھر آہستہ آہستہ ان مریضوں کو منگھوپیر میں واقع لپروسی اسپتال اور دیگر اسپتالوں میں منتقل کیا گیا، آج بھی وہاں جذام سے صحت یاد ہونے والے مریض قیام پذیر ہیں، ان مریضوں کی کالونی تعمیر کرنے کے لئے ڈپٹی کمشنر کراچی، چیف میڈیکل آفیسر اور ہیلتھ آفیسر پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی گئی تھی ،جسے جگہ کے تعین کا اہداف دیا گیا، اس مقصد کے لئے دو جگہوں کا انتخاب کیا گیا تھا، ان میں ایک اوجھا انسٹی ٹیوٹ کے قریب تھا اور دوسرا منگھوپیر کی پہاڑیوں کے قریب۔
کمیٹی نے منگھوپیر کا انتخاب کیا اور ڈپٹی کمشنر کراچی نے 300 بستروں کے اسپتال کے لئے 30 ایکڑ اور کالونی کے لئے 100 ایکڑ زمین بلامعاوضہ فراہم کی، اس منصوبے پر 30 لاکھ روپے کے اخراجات کااندازہ لگایا گیا، جس میں اسپتال کی تعمیر کے لئے 20 لاکھ، کالونی اور گھروں کی تعمیر پر 10 لاکھ روپے کا تخمینہ لگایاتھا، ابتدائی طور پر حکومت نے 5 لاکھ روپے جاری کئے،20 لاکھ روپے بلدیہ کراچی نے اپنے وسائل سے خرچ کئے، شہر کی ایک مخیر شخصیت احمد داؤد نے کالونی اور اسپتال کی چار دیواری اور اسپتال تک سڑک تعمیر کے لئے تقریباً 71 ہزار روپے کا عطیہ دیا، تاکہ اس منصوبے کو جلد سے جلد مکمل کیا جاسکے۔
12 نومبر 1962ء کو کام شروع کرنے کی منظوری دے دی گئی، اسپتال اور کالونی کی تعمیر کا آغاز کیا گیا جہاں پاکستان کے مختلف علاقوں سے آنے والے جذام میں مبتلا مریضوں کو رکھا جانا تھا، ا ن کے علاج، رہائش اور کھانے پینے کا انتظام بھی شامل تھا، اس اسپتال کے قیام میں حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی ایک شخصیت سادھو ہیرا نند اور سول رائے کا کردار کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، جنہوں نے 1886ء میں اس کام کا آغاز کیا اور تمام پارسی کمیونٹی کو اس بات پر راضی کیا کہ وہ اس اسپتال کی تعمیر میں حصہ لیں یہ تعمیرات اسی جذبے کا نتیجہ تھی،ایک اور پارسی سماجی کارکن منوچہر کیسنجر واسپینر اور جمشید نسروانجی مہتا بھی پیش پیش رہے۔
منوچہر تیس برس تک ہر اتوار کو منگھوپیر کی پہاڑیوں میں واقع اسپتال میں جذام میں مبتلا مریضوں سے ملنے آتےتو ان کے لئے کھانے پینے کی اشیاء بھی ساتھ لاتے اور ان مریضوں کے ساتھ بیٹھ کر ہی کھانا کھاتے، مریضوں کو صبر کی تلقین کرتے اور اس بات کو دہراتے کہ اللہ نے جو آپ کی قسمت میں لکھا ہے اس پر صبر کریں۔ اس عظیم شخصیت سے مریض اتنی محبت کرتے تھے کہ جس اتوار کو انہیں آنے میں دیر ہوجاتی تو مریض اداس ہوجاتے اور بعض مریض تو کھانا کھانے سے بھی انکار کردیتے تھے۔
جذام اسپتال کی تعمیر و ترقی کا معاملہ آگے بڑھتا رہا، پھروہ وقت بھی آیا کہ اسپتال میں 50 بستروں پر مشتمل معذوروں کا اسپیشل وارڈ بنایا گیا، اس وارڈ میں ایسے مریض رکھے جاتے ہیں جو اس حد تک معذور ہوں کہ انہیں نہانے دھونے اور کھانے پینے کے لئے بھی کسی دوسرے شخص کی مدد درکار ہوتی ہے یا وہ افراد جن کا کوئی گھر بار یا کوئی ٹھکانہ نہ ہو یا ان کے رشتہ داروں نےان سے قطع تعلق کر رکھا ہو۔
وارڈ میں متعین عملے کو انتہائی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے اور انہیں انتہائی صبر کے ساتھ مریضوں کی دیکھ بھال کرنا ہوتی ہے۔اسپتال کے تمام مریضوں کو ناشتہ، کھانا اور چائے کے علاوہ ماہانہ راشن، کپڑے اور جیب خرچ کے لئے کچھ نقد رقم بھی دی جاتی ہے، چشمے، سفید چھڑی، بیساکھیاں، ویل چیئر، مصنوعی اعضاء، خصوصی جوتے اور ضروریات زندگی کی دوسری چیزیں بھی فراہم کی جاتی ہیں۔
اسپتال کی انتظامیہ نے فیصلہ کیا کہ ،جذام کے ساتھ ساتھ ٹی بی کا مرض بھی علاقے میں پھیل رہا ہے اس لئے جذام کے مریضوں، ان کے رشتہ داروں اور اسپتال سے ملحقہ آبادی کوغربت اور صحت کی سہولیات کی عدم دستیابی کے پیش نظر مئی1999ء میں ایک فیلڈ سروے پروگرام تشکیل دیا، جس کے تحت اسپتال کے عملے کی دو ٹیموں نے گھر گھر جا کر لوگوں کو صحت سے متعلق معلومات فراہم کیں، جس کے تحت 1400 خاندانوں کی اسکینگ کی گئی اور اس فیلڈ سروے سے جذام کے کئی نئے مریض دریافت ہوئے، جبکہ ٹی بی میں مبتلا 86 مریض بھی سامنے آئے جن کا اسپتال میں مفت علاج کیا گیا۔
یاد رہے کہ جذام کیونکہ ایک قابل علاج مرض ہے لیکن علاج کے بعد ان مریضوں کو معاشرے میں ایک باعزت مقام دلانے کے لئے سماجی، معاشرتی، تعلیمی، ازدواجی اور گھریلو زندگی میں ان کی صحیح رہنمائی اور مدد بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے جو یہ اسپتال فراہم کر رہا ہے۔ یہاں رجسٹرڈ مریضوں کی تعداد پانچ ہزار سے زائد ہے، ان مریضوں کی مکمل معلومات جس میں ذاتی اور خاندانی تفصیل، باڈی چارٹ، السر چارٹ، معذوری کا چارٹ اور بیماری کی مکمل معلومات جس میں ذاتی اور خاندانی تفصیل ، کیفیت اور علاج کا ریکارڈ ،غرض کے مریضوں کے مکمل کوائف رکھے جاتے ہیں، ان میں پیدا ہونے والی تبدیلی کے پیش نظر وقتاً فوقتاً ان کی دوبارہ جانچ پڑتال کی جاتی ہے اس کے علاوہ مریضوں کے تمام خونی رشتے داروں کا چیک اپ بھی کیا جاتا ہے،یہ سب کوائف اسپتال کے اسٹیٹسٹس ڈپارٹمنٹ میں جمع ہوتے ہیں، جہاں سے یہ معلومات لپروسی کنٹرول بورڈ پاکستان اور پھر عالمی ادارہ صحت ڈبلیو ایچ او کو ارسال کی جاتی ہیں۔ جذام کی روک تھام اور خاتمے کے لئے نیشنل لپروسی کنٹرول بورڈ کے دیئے ہوئے اہداف کے مطابق اسپتال کی کارکردگی انتہائی اطمینان بخش ہے۔
لپروسی اسپتال کی 125 سال کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ اس ادارے کی ابتداء ایک فرد نے کی اور اس کوشش میں دیگر افراد شریک ہوتے گئے۔ یہ چھوٹی سی کوشش آج ایک مستحکم، منظم طبی ادارے کی صورت میں ہم سب کے سامنے ہے۔