’کانٹے بوئے ببول کے تو آم کہاں سے کھائے۔‘ اب جب کانٹوں کی فصل تیار ہے تو ہاتھ کون لگائے۔ کانٹے بونے والے دامن بچا رہے ہیں اور تیار کرنے والے ہاتھ۔
بات کہاں سے شروع کی جائے اور کہاں ختم؟ قصوروار کون ہے اور سزاوار کون؟ گناہ کس کے ہیں اور سنگسار کون؟ چند کریں اور سب بھریں ایسا کیوں؟
ستم سا ستم ہے کہ دوست مُنہ موڑ گئے ہیں۔ ایسا کیا ہوا کہ محض تین برسوں میں خوشی خوشی اربوں ڈالر کے قرض کی دیا دینے والے شرائط پر اَڑ بیٹھے ہیں؟ برادرانہ تعلقات کا دم بھرنے والے شکار گاہ سے ہی نکل لیے، ہمالیہ سے اونچی دوستی کا دعویٰ کرنے والے ناک ہی اونچی کر بیٹھے، سمندروں سے گہرا درد رکھنے والے ہمارے درد کا مذاق اُڑا رہے ہیں۔
یہ کاسہ گیری اتنا ستائے گی کبھی سوچا نہ تھا اور تہی دست ہونا اس قدر مہنگا ہو گا کبھی سمجھا نہ تھا۔ یہ سب دوست ہمارے خالی دامن ہونے کا انتظار کر رہے تھے یا ہمیں سبق سیکھانے کے منتظر۔۔۔ بات سمجھ نہیں آ رہی تو جواب کے لیے صرف اتنا ضرور کہہ دینا کہ ’کوئی آیا تھا‘۔
یہ بات اب زبان زد عام ہے کہ ’تبدیلی‘ کا بیج بونے سے پہلے ایسے کھلیان تیار کیے گئے کہ جہاں خوابوں کی فصل اور سپنوں کی منڈی سجائی گئی، صادق اور امین سیٹ اپ سے توقعات ہی توقعات وابستہ کی گئیں اور عطیات کو بنیاد بنا کر معاشیات کی عمارت کھڑی کی گئی۔ نتیجہ کیا نکلنا تھا سوائے ’قرض‘ بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی۔
گذشتہ چند سالوں میں جو معیشت گردی ہوئی اس کے پیچھے کون ہے؟ جب تک اس کا پتہ نہیں چلایا جائے گا حل نہیں نکلے گا۔ بات کچھ یوں ہے کہ اس وقت خالی بنک کو ڈالرز کی سخت ضرورت ہے۔ زرمبادلہ کے ذخائر تین اعشاریہ چھ بلین کی کم ترین سطح پر بتائے جا رہے ہیں اور آئی ایم ایف ہنٹر لے کر پیچھے کہ چھ سو ارب پیدا کرو۔
ٹیکسوں کا طوفان، توانائی کا بحران اور روپے کا نقصان ایک ہیجان کا پیش خیمہ بن رہا ہے۔ سیاست دان اور اصل حکمران سر پکڑے بیٹھے ہیں۔ اب آئی ایم ایف کو دکھائی جانے والی آنکھیں اُنھی کی راہوں میں بچھی ہیں اور اپنی شرائط پر قرض لینے کی خواہش ہزاروں خواہشوں کی مانند دم توڑ چُکی ہے۔
حالات مگر بے حد سنگین ہیں۔ ہمیں فوری طور پر گرتی معیشت کو سنبھالنا ہے اور اس کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو ماننا ہے۔ آئی ایم ایف کے شرائط پر عملدرآمد سیاسی بحران کو جنم دے سکتی ہے، عوام میں اضطراب فزوں تر ہو سکتا ہے جس کی نشاندہی کئی ایک عالمی ادارے کر چکے ہیں، ایسے میں عام انتخابات کے امکانات معدوم ہو رہے ہیں۔ ریاست کو آئینی پیرائے میں رہ کر چند سخت فیصلے کرنا پڑ سکتے ہیں اور اُس کے لیے قومی مصالحت کی بہرحال ضرورت ہے۔
موجودہ صورت حال میں جب دہشت گردی ایک بار پھر سر اُٹھا چکی ہے اور معیشت گردی اپنے عروج پر پہنچ چکی ہے ایسے وقت میں قومی سلامتی کمیٹی کو مل بیٹھنا ہو گا۔ قومی اور سیاسی قیادت کو اب ایک ایسے صفحے پر آنا ہو گا جہاں ایجنڈا معیشت اور صرف معیشت کی بحالی ہو۔
معیشت کے بارے فیصلوں سے قبل قوم کو اعتماد میں لینے کی ضرورت ہے۔ حکومت اور ریاست کو بھی اپنے اخراجات میں کمی کر کے عوام کو یقین دلانا ہو گا کہ صرف وہ اس چکی میں نہیں پس رہے بلکہ اشرافیہ بھی قربانی دینے کو تیار ہے۔
بدقسمتی سے جو حکومت اب تک بازار جلد بند کرانے کے فیصلے پر عملدرآمد سے ہچکچا رہی ہے اُسے قومی اداروں کو اعتماد دینا ہو گا، ان سب اقدامات کے لیے مصالحت کی ضرورت ہے اور مصالحت کے لیے مفادات کو پسِ پُشت ڈالنا ہو گا۔
جس قومی مصالحت میں مفاہمت تلاشی جا رہی ہے کیا اُس میں عمران خان شریک ہوں گے؟ اس کا جواب بدقسمتی سے فی الحال صرف اور صرف ناں ہے۔ وقت کم ہے اور معیشت کو بچانا ہے جبکہ ریاست کے پاس آپشنز نہ ہونے کے برابر۔۔ تو کیا پھر یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ ریاست یا سیاست؟