دو چھوٹے جہاز پھولوں کی پتیوں سے بھرے جا چکے ہوں گے، نئے نئے سستے ہوئے پیٹرول سے بھری گاڑیوں کے قافلے لاہور کی طرف رواں دواں ہوں گے۔ اندرون لاہور کی گلیوں میں ’شیر آیا، شیر آیا‘ کے نعرے گونج رہے ہوں گے۔ اس جلوس میں کسی ٹرک پر یقیناً ایک پنجرے میں بند سہما ہوا زندہ شیر بیٹھا ہو گا اور سوچتا ہو گا کہ میں نے نہ کرپشن کی، نہ اداروں کو للکارا، مجھے اس قید سے رہائی کیوں نہیں مل رہی۔
زندگی میں انگریزی کی جو پہلی کتاب پڑھی تھی وہ دنیا میں سب سے محفوظ جیلوں سے فرار ہونے والوں کی سنسنی خیز کہانیاں تھیں۔ جن پریوں کی کہانیوں سے زیادہ حیرت انگیز قلعہ نما جیلوں سے کوئی چمچ کانٹے سے سرنگ کھود کر فرار ہوا، کسی نے رین کوٹ کی کشتی بنائی، کسی نے اپنے آپ کو ڈاک کے تھیلے میں بند کیا، کسی نے تنکے جوڑ کر اور بستر کی چادر سے ہینگ گلائیڈر بنایا اور جیل کی فصیل کے اُوپر سے پرواز کر گیا۔
پاکستان میں قانون اور انصاف کا انتظام جیسا بھی ہو، جیلیں ہماری تقریباً ’فرار پروف‘ ہیں۔ اگر آپ سیٹھ یا وڈیرے کی اولاد ہیں اور کسی شریف آدمی کے بیٹے یا بیٹی کو قتل کر کے آئے ہیں یا آپ کا تعلق کسی کالعدم بننے والی تنظیم سے ہے اور ریاست کے خلاف جنگ کرتے جیل گئے تھے، تو وہاں بھی آپ کو گھر جیسا ماحول مل سکتا ہے۔
کراچی کی سینڑل جیل میں میکڈونلڈ کی ڈیلیوری ہوتی خود دیکھی ہے۔ اس جیل کے قیدیوں کو یہ دُعا کرتے بھی دیکھا ہے کہ شاہ رخ جتوئی جیل سے نہ چھوٹے کیونکہ جب تک یہ ہے اس کے گھر سے آنے والا کھانا وارڈ کے دوسرے قیدیوں کو بھی ملتا تھا۔
یکن آپ نے شاید ہی کبھی کوئی خبر پڑھی ہو کہ کوئی قیدی جیل میں سے سرنگ لگا کر یا فصیل پھلانگ کر فرار ہو گیا ہو۔ اس تناظر میں سابق وزیر اعظم اور سزا یافتہ قیدی نواز شریف کا جیل سے فرار ایک سنسنی خیز کہانی ہے، جس میں قیدی کو نہ چمچے سے سرنگ کھودنی پڑی، نہ اپنے آپ کو ڈاک گاڑی میں بند کر کے بھاگنا پڑا۔
قیدی نے اپنے سیل کے اندر بیٹھے بیٹھے حکمرانوں کو ڈرا دیا کہ اگر قیدی کو رہا نہ کیا گیا، اگر اسے ملک سے باہر جانے کی اجازت نہ دی گئی تو قیدی کا خون حکمرانوں کے سر پر ہو گا۔ چند ہی ہفتوں میں پوری قوم نواز شریف کے خون کے پلیٹیلیٹس گننے لگی۔
عمران خان کی کابینہ کے کٹھور دل ارکان کے بھی آنسو نکل آئے اور ہماری اس کہانی کا قیدی جیل کے سیل سے سیدھا لندن۔ نواز شریف کی سزا اور قید جتنی مشکوک تھی، ان کی رہائی اور ملک سے فرار اس سے بھی زیادہ مشکوک۔
اب آپ ہمارے عوام کو جذباتی کہہ لیں، جاہل کہہ لیں، لیکن وہ اتنے بیوقوف تو نہیں ہیں کہ ہماری عدالتوں سے انصاف ملتا ہے یا ان کے ووٹ سے ان کی تقدیر بدل سکتی ہے۔
سابق سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کے قوم پر بڑے احسان ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اپنی الوداعی تقریر میں فرما گئے کہ پاکستان میں فوج پر تنقید ہوتی اور اس کی وجہ یہ ہے کہ فوج 70 سال سے پاکستان کی سیاست میں مداخلت کرتی آئی ہے اور اب ادارے نے فیصلہ کیا ہے کہ ہم سیاست میں مداخلت نہیں کریں گے۔ اس لیے فوج پر تنقید کا جواز ہی ختم ہو جائے گا۔
جاتے جاتے جنرل باجوہ پاکستانی قوم کو یہ طعنہ بھی دے گئے کہ انڈیا کی فوج بھی تو بہت کچھ کرتی ہے مگر اس پر تو تنقید نہیں ہوتی۔ باجوہ صاحب بس یہ کہتے کہتے رہ گئے کہ مجھے تو قوم بھی ٹھیک نہیں ملی۔
لیکن لگتا ہے کہ ادارے نے الوداعی کلمات کو سنجیدگی سے لیا ہے۔ کون سی مداخلت، کیسی مداخلت۔ پہلا یہ کرنا پڑتا تھا کہ بادلِ نخواستہ کسی منتخب حکومت کو دو، ڈھائی سال برداشت کیا پھر گھر بھیج دیا۔ کسی پارٹی کے دس، بیس بندے توڑ لیے، کسی پارٹی میں سے لاحقہ لگوا کر ایک اور پارٹی نکلوا لی اور ان چھوٹی موٹی مداخلتوں سے ادارے پر تنقید ہی ہوتی تھی۔
اب ہر پارٹی، ہر لیڈر، ہر کارکن کو گلے لگا کر رکھا جائے، جو گلے لگتے ہوئے تھوڑا کسمسائے اسے پولیس اور عدالتوں کو زیادہ تکلیف دیے بغیر گُم کر دیا جائے اور چند مہینوں کے بعد جب اس کے دل میں قوم اور قوم کے اداروں کا درد جاگ جائے تو اسے ہاتھ باندھ کر کسی ٹی وی اینکر کے سامنے سٹوڈیو میں پھینک دیا جائے۔ بلکہ ایک، آدھ کو تو ٹی وی اینکر کے گھر میں ہی پیش کر دیا جائے۔
کسی ٹی وی چینل پر کوئی پابندی نہیں، اینکر حضرات کی بھی مرضی ہے کہ جو سوال چاہیں پوچھیں۔ اب تک سب کو خبر ہو چکی کہ ادارے کے سیف ہاؤس سے گھر تک کا راستہ ٹی وی سٹوڈیو سے ہو کر جاتا ہے جس کو جانا ہے چلا جائے کیونکہ پاکستان کی جیلوں سے بھی فرار جیلر کی اجازت کے بغیر ممکن نہیں۔
نواز شریف جب پاکستان میں لینڈ کرنے کے بعد پاک دھرتی کو چھوئیں اور ہمیں یاد کروائیں کہ عزت اور ذلت خدا کے ہاتھ میں ہے اور جب آسمان کی طرف منہ اٹھا کر چھوٹے جہازوں سے ہوتی گُل پاشی کا مزا لیں تو یاد رکھیں کہ انھی کی طرح کا ایک سابق وزیراعظم جیل کے ایک سیل میں بند ہے۔ اسے ڈنڈ بیٹھک کرنے اور فِٹ رہنے کی ویسے بھی عادت ہے۔
وہ بھی اپنے سیل میں بیٹھا جیل سے فرار ہونے کے منصوبے سوچتا ہو گا۔ ہمارے ازلی حکمران اور ان کی عدالتیں کسی کو بھی جیل بھیج سکتی ہیں، لیکن قیدی سے جیل سے فرار ہونے کا خواب دیکھنے کا حق نہیں چھین سکتیں۔